کالمز

تاریخ پہ تاریخ ۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟

سکردو روڈ کی تعمیر کی باتیں کوئی نئی نہیں بہت پرانی ہیں ۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھا لا ہے سکردو روڈ کی تعمیر کی باتیں ہی سنی ہیں ہر دور حکومت میں سکردوروڈ کی تعمیر کے بلند وبانگ دعوے کئے گئے اور عوام کو بے وقوف بنایا گیا ۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھی سکردو روڈ کی تعمیر کی باتیں ہوتی رہیں ۔ ایک دفعہ سائیڈ کا سروے بھی کیا گیا جو ں جوں وقت گزرتا گیا اس اہم شاہراہ کی تعمیر کی باتیں ختم ہوتی گئیں ۔ جب مشرف دور ختم ہوا تو سابق صدر آصف علی زرداری نے سکردو رود کی تعمیر کی باتیں شروع کیں ۔ اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سلیف گورننس آرڈر 2009کے تحت ہونے والے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے دوران سکردو میں پیپلزپارٹی کے ایک بہت بڑے انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بغیر کسی جھجک کے بول دیا کہ ہم سکردو روڈ بنائیں گے نہ صرف روڈ بنائیں گے بلکہ اس کو ہائی وے بنائیں گے سادہ لوح عوام نے یوسف رضا گیلانی کی باتوں پر بھروسہ کیا ۔ اور بلتستان سے پیپلزپارٹی کو بھاری مینڈیٹ دے کر جتایا اور بعد میں عوام کے اسی مینڈیٹ کی وجہ سے سید مہدی شاہ گلگت بلتستان کے پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے سید مہدی شاہ نے بھی وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھاتے ہی اپنے وزیر اعظم کے سکردو میں کئے گئے اعلانات دہرائے اور ببانگ دہل کہہ دیا کہ ہم اب اقتدار میں آگئے ہیں عوام واضح فرق محسوس کریں گے سکردو روڈ سمیت بڑے بڑے منصوبے شروع کریں گے اور عوام کی زندگی میں نمایا ں تبدیلی لائیں گے ہم ایسے ایسے کام کریں گے کہ آئندہ آنے والی حکومت کو کرنے کیلئے کچھ باقی نہیں رہے گا ۔ مگر انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کے اعلانات وفاق میں پہنچ کر ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے ۔
مختصر یہ کہ پیپلزپارٹی کی حکومت سکردو روڈ تعمیر نہ کر سکی جب مہدی شاہ حکومت کا خاتمہ ہوا تو سید مہدی شاہ نے روڈ نہ بننے کی ساری ذمہ داری وفاق پر ڈال دی اور بری الزمہ ہو نے کی ناکام کوشش کی۔ تاہم کسی نے ان سے یہ پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ جب وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تو انہوں نے روڈ کی تعمیر کیلئے جدوجہد کیوں نہیں کی؟
مہدی شاہ حکومت 12دسمبر2014کو ختم ہوئی ۔12دسمبر کی رات کو گلگت بلتستان میں پہلی نگراں حکومت کا قیام عمل میں آیا نگراں حکومت بھی گاہے بگاہے سکردو روڈ کی تعمیر کی بات کرکے سابق حکومتوں کی یاد تازہ کر تی رہی۔ اسی طرح اپریل 2015میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے گلگت کا دورہ کیا۔ اور انہوں نے گلگت میں بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سکردو روڈکی تعمیر کا اعلان پھر دہرایا ۔ اس دفعہ انہوں نے کمال فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے روڈ کا افتتاح بھی کیا ۔ عوام نے اس دفعہ یقین کرلیا کہ اب روڈ کی تعمیر ضرور ہوگی کیونکہ ملک کے وزیر اعظم نے گلگت آکر اس کی تختی لگائی ہے اور اپنے ہاتھوں سے اس کا افتتاح کیا ہے وزیر اعظم کے افتتاح کے بعد لیگی رہنماؤں اور اراکین نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا ۔ اور عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اب چونکہ قانون ساز اسمبلی کے الیکشن آرہے ہیں۔ اس لئے مسلم لیگ ن روڈ کی تعمیر فوری شروع نہیں کرنا چاہتی اگر الیکشن سے قبل روڈ کی تعمیر شروع کی گئی تو مخالفین کو پارٹی پر تنقید کرنے کا بہانہ مل جائے گا اور وہ مسلم لیگ ن کی حکومت پر پری پول ریگنگ کا الزام عائد کریں گے اس لئے مسلم لیگ ن نے فیصلہ کرلیا کہ روڈ کی تعمیر الیکشن کے فوراً بعد شروع کی جائے گی عوام نے مسلم لیگ ن کے صوبائی اور مرکزی قائدین کی ان باتوں پر بھی بھروسہ کیا ۔ الیکشن کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کی حکومت وجود میں آئی اور اس حکومت نے اگست میں سکردو روڈ کی تعمیر شروع کرنے کی تاریخ مقرر کی۔ پھر اچانک تاریخ تبدیل کی گئی اور کہا گیا کہ بعض وجوہ کی بنا ء پر روڈ دسمبر میں بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، لیکن دسمبر میں روڈ بنانے کی تاریخ میں پھر تبدیلی کی گئی اور حکومتی حلقوں نے مارچ میں روڈ بنانے کی تاریخ دے دی۔ ابھی مارچ میں روڈ بننے کی بازگشت سنائی دے ہی رہی تھی کہ وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے اسلام آباد سے سکردو روڈ کی تعمیرکیلئے نئی تاریخ مقرر کر دی اور کہا کہ سکردو روڈ پر کام جون میں شروع ہو گا ۔وزیر اعلیٰ صاحب فرماتے ہیں کہ سکردو روڈ بہت بڑا منصوبہ ہے یہ کوئی پی ڈبلیو ڈی کا چھوٹا منصوبہ نہیں کہ اس پر کل ہی کام شروع کیا جائے۔ بڑے منصوبے میں چند ماہ کی تاخیر سمجھ میں نہ آنے والی بات نہیں ہے مگر ان سے سوال یہ ہے کہ کیا لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد کا میٹرو بس منصوبہ پی ڈبلیو ڈی کا کوئی چھوٹا منصوبہ تھا ؟ کہ جسے ایک سے دو سال میں مکمل کر لیا گیا جب حکومت لاہور اور راولپنڈی اسلام آباد میں ڈیڑھ سو ارب سے زائد پیسے میٹرو بس منصوبے پر خرچ کر نے میں کسی قسم کی کوئی تاخیر نہیں کرتی ہے تو سکردو روڈ کے 40 ارب کے منصوبے میں بار بار تاخیر کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟جب حکومت ڈیڑھ سو ارب سے زائدکے میٹرو بس منصوبے کو دوسال میں مکمل بھی کرسکتی ہے تو سکردو روڈ کی تعمیر دو سال میں کیاشروع نہیں ہونی چاہئے تھی؟ جب تک گنتی پہ گنتی اور تاریخ پہ تاریخ کی سیاست اور روش ہمارے معاشرے سے ختم نہیں ہو گی عوام خوشحال ہوں گے اور نہ ہی وہ حکومت کے کسی قول وفعل پر آئندہ بھروسہ کرنے کیلئے تیار ہوں گے ۔ عوام اب تاریخوں پر یقین نہیں کریں گے وہ بلاتاخیر سکردو روڈ کی تعمیر چاہتے ہیں اب بھی توقع تو یہی رکھی جاتی ہے کہ حکومت عوام کی تنقید کو خندہ پیشانی سے تسلیم کرتے ہوئے بے شرمی سے بچنے کے لئے سکردو روڈ کی تعمیر میں مزید کسی قسم کی تاخیر نہیں کرے گی ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button