کالمز

اچھے دماغ کے لوگ خیالات پر تنقید کرتے ہیں

تحریر:سید قمر عباس حسینی

تنقید یعنی  کھرے اور کھوٹے کو پرکھنا  جسے   انگریزی میں Criticismکہتے ہیں۔ حقیقت میں ناقد کسی کام کو سنوارنے اور کام کرنے والوں کی رہنمائی اور اصلاح کا فریضہ انجام دیتی ہے  اوراپنے تجربات سے کسی بھی شعبےمیں کام کرنےوالوں  میں تخلیق کا بہتر شعور اور تخلیقی حسن میں مزید نکھارپیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تنقید وہ فن ہے جس میں کسی کے کام  پر اصول و ضوابط و قواعد اور حق و انصاف سے بے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا جاتا ہے اور حق و باطل ، صحیح و غلط اور اچھے اور برے کے مابین ذاتی نظریات و اعتقادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فرق واضح کیا جاتا ہے۔سقراط نے اسی سلسلے میں کہا تھا کہ "اچھے دماغ کے لوگ خیالات پر تنقید کرتے ہیں ،جبکہ کمزور دماغ کے لوگ ،لوگوں پے تنقید کرتے ہیں "

 ہمارے ہاں، اصولی تنقید و تجزیہ نہیں بلکہ مخالفت کی جاتی ہے ۔ہمارے معاشروںمیں تنقید تعمیر کے لیے نہیں تخریب ، حوصلہ شکنی  ، شخصیت کشی اور ٹانگیں کھینچ کر کسی کی مستقبل تباہ کرنے کے لیے کی جا تی ہے۔ بطور خاص،وہ لوگ،جو کسی خاص نظریے کے حامل  ہوتے ہیں وہ جو کچھ بھی کسی نقد واعتراض کے سلسلے میں،لکھتے یا کہتے ہیں،وہ محض ایک جوابی کارروائی ہوتی ہے۔ اسے،کسی طرح بھی ،علمی تنقید نہیں کہا جا سکتا،اس لیے کہ علمی تنقید کے کچھ مسلمہ اصول  ہوتے ہیں  ہمارے ناقدین ان تمام اصولوں کو بالائے اطاق رکھ کر نقد  بلکہ عیب جوئی  شروع کرتے ہیں ۔اگر ہم اپنے سماج پرغور کریں تو بے لگام تنقید کا سلسلہ جاری ہوچکا ہے  جو روز مرہ معمولاتِ زندگی کی طرح عام عادت کا روپ دھار چکی ہے۔یوں تو تنقید اپنے نقطۂ آغاز سے ہی تلخی کو جنم دیتی ہے، مگر مسلسل یا پے در پے تنقید حرارت کو بڑھا کر مخالف کو رد عمل پر مجبور کر دیتی ہے، جس سے فریقین کے مابین جھگڑے کی شروعات ہوتی ہے، جو ہوتے ہوتے جارحانہ انداز اختیار کر لیتا ہے۔اگرچہ تنقید بظاہر کوئی بری بات نہیں ہےاسے اگر تعمیری اور مثبت انداز میں کی جائے تو اصلاح کا سبب بنتی ہے، جبکہ بے جا اور بے محل تنقید برائے تنقید، بجائے اصلاح کے بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ہر شخص میں تعمیری اور تخریبی پہلو ضرور ہوتے ہیں۔لہٰذا ناقد اگر تنقید کرتے وقت شخصیت کی کردار کشی کے بجائے اس شخص کی ذات کو احترام دیتے ہوئے اس شخص کے فعل کی اصلاح کو مد نظر رکھے، تو یقیناً مثبت نتائج مرتب ہوں گے، کیونکہ غلط خیالات یا غلط سوچ پر تنقید کے بجائے اگر شخصیت کی کردار کشی یا تذلیل کی دانستہ کوشش کی جاتی ہے تو ردعمل کے طور پر ایسے ہی منفی رویے جنم لیتے ہیں، جن سے فریقین کے مابین جنگ و جدل کا ماحول پیدا ہوتا ہے جوایک معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کی بے چینی کا سبب بنتا ہے ۔ ہر تنقید کی کوئی نہ کوئی  بنیاد ضرور ہوتی ہے۔اس میں ہمارے لئے سیکھنے اور بہتری کے لئے اقدام کا موقع پوشیدہ ہوتا ہے جسے کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔نرم لہجے میں جواب دینا، تنقید کو وقعت دینا ،اسے  دل پر نہ لینا،غلط تنقید کو نظر انداز کرنا،جلدی جواب نہ دینااور  مسکراہٹ اگرچہ وہ مصنوعی ہی کیوں نہ ہو ۔ یہ معاملے کو سدھار کی جانب لے جانے کا اہم ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر منفی اور بے بنیاد تنقید کے جواب میں آپ کی مسکراہٹ دوسرے شخص کو اپنے لب لہجے اور تنقید پر نظر ثانی پر مجبور کر سکتی ہے۔

تنقید کرنے والا تنقید کر کے اپنی سیاست یا دکان چمکاتا ہے، اور تنقید سن کر اس پر عدم برداشت کا مظاہرہ کرنے والا بھی اسی حرارت میں جواب دے کر آگ کو مزید بھڑکاتا ہے۔ بس اسی روش پر ہمارا  گلگت بلتستان کا معاشرہ سالوں سے گامزن ہے۔یہاں ہر کوئی ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں لیکن کبھی مسئلے کا حل نہیں بتاتے ۔یہاں تک کہ حکمران طبقے بھی ایک دوسرے پر تنقید کر تے ہوئے وقت گزارتے ہیں کبھی یہ نہیں سوچتے کہ کیوں نہ ہم سرجوڑ کر بیٹھ کے علاقے کی مشکلات حل نہ کریں ؟ کیوں نہ ہم مل کر مشکلات کا حل نہ ڈھونڈیں ؟اگر ہماری پارٹیاں اور ہماری تنظیمیں اکٹھے ہو کر زیر بحث معاملات جیسے کہ  اقتصادی راہداری ، آئینی حقوق کا مسئلہ یا گلگت سکردو  روڈ  ، نفاذ ٹیکس اور  دوسری مشکلات  میں صرف حکومت پر ہی تنقید  کر  تے رہنے کے بجائے عملی میدان میں اتحاد کا مظاہر کریں تو یہ زیادہ مفید ہونگے اور یوں حکمران طبقے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرینگے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو اپنی ذمہ داریاں یاد دلانے کے لیے تنقید  ہونی چاہیے لیکن  یہ تنقید  اصلاحی تنقید ہو نہ تخریبی اور ساتھ ہی سیاستدانوں میں بھی قوت برداشت ہو نی چاہیے۔ہم میں ہر ایک کو اکثر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تنقید زندگی کی ناقابل انکار حقیقت ہے۔ تنقید کا بردباری اور دانش مندی سے جواب دینا ایک مہارت ہے۔

قائداعظم  [رہ ]نےبھی  فرمایا”میں چاہتا ہوں کہ اب آپ ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے شہریوں کی حیثیت سے اپنا سربلند رکھیں۔ جب آپ کی حکومت اچھا کام کرے تو تعریف کیجئے۔ ہر وقت نکتہ چینی، عیب جوئی اور وزارت یا عہدیداروں کے خلاف تخریبی تنقید سے لذت حاصل کرنے کی پرانی عادت ترک کردیجئے جب حکومت غلط کام کرے تو بے خوفی سے تنقید کیجئے۔ میں صحتمند اور تعمیری تنقید کا خیرمقدم کرتا ہوں”۔(ایڈورڈ کالج پشاور۔ 18اپریل 1948)

 معروف شاعر ڈاکٹر نواز  کہتے ہیں

سفر میں مشکلیں آئیں تو ہمت اور بڑھتی ہے

کوئی جب راستہ روکے تو جراٗت اور بڑھتی ہے

میری کمزوریوں پر جب کوئی تنقید کرتا ہے

وہ دشمن کیوں نہ ہو اس سے محبت اور بڑھتی ہے

 

Attachments area

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button