کالمز

نوائے دل …..اتحاد امت وقت کی پکار

اسداللہ حیدر

ھدیۃ الھادی پاکستان( لاہورزون )نے 29فروری کو ’’قومی اتحاد امت کانفرنس‘‘ایوان اقبال لاہور میں منعقد کیا۔ جس کا عنوان تھا ’’ہم سب پاکستان ہیں ‘‘اس کانفرنس میں ملک بھر کے علماء و مشائخ اور سیاسی قائدین نے شرکت کی ۔قائدین نے اپنے خطاب میں نظریہ پاکستان کے تحفظ اور اتحاد امت کے بنیادو ں کو مضبوط کرنے کے سلسلے میں ھدیۃ الھادی پاکستان کے سرپرست اعلی پیر ہارون علی گیلانی کو خراج تحسین پیش کیا ۔مقررین نے علماء پر روزدیا کہ وہ عوام کو مشترکہ دینی اقدار پر جمع کریں اورفرقہ واریت کی حوصلہ شکنی کریں ۔کانفرنس کی صدارت پیر ہارون علی شاہ کررہے تھے ۔مقررین میں سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان ، خواجہ سعد رفیق (وزیر ریلوے )، امیر حمزہ چیئرمین حرمت رسول کونسل پاکستان ،مولانا سرور شاہ (رہنما جمعیت علماء اسلام پاکستان )،رضیت باللہ خان چترالی ،حافظ کاظم رضا،لیفٹننٹ جنرل غلام مصطفی وغیرہ شامل تھے ۔ احقر کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا ۔ کانفرنس میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے قائدین نے شرکت کی ۔ یقیناًپیر ہارون علی شاہ کا یہ اقدام قابل تحسین ہے ۔امت کا اتحاد پیر صاحب کا خواب ہے ۔ یقیناًہمیں پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے مذہب اورملک کی خاطر آپس میں فروعی مسائل پر ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں کرنا چاہیے ۔ہمیں متحد ہوکر اپنے پیارے وطن کی آبیاری کرنی چاہیے ۔ اتحاد امت وقت کی پکار ہے ۔اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ ان کی نااتفاقی ہے۔ ہم نے خود کو مختلف خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ مرض کی تشخیص بھی ہو چکی ہے لیکن پھر بھی صحیح سمت میں علاج کی کوئی تدبیر نہیں ہو رہی ہے۔ یہ علامت تو موت کی ہے کہ جب وہ آتی ہے تو طبیب کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے ع
چوں قضا آید طبیب ابلہ شود
لیکن ہمارا ایمان ہے کہ دین محمدیؐ ہی حقیقی دین ہے۔ یہ کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا خواہ باطل طاقتیں کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لیں اور خواہ نام نہاد اطباء امت دوا کے نام پر کتنی ہی زہر کی پڑیا ہمیں کیوں نہ کھلا دیں۔اب سوال یہ ہے کہ جب مرض کی تشخیص ہو چکی تو اس کے علاج کی کوششیں کیوں نہیں ہو رہی ہیں اور اگر ہو رہی ہیں تو وہ کارگر کیوں نہیں ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ ہم صحب یاب ہونے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ ہم متحد ہونا ہی نہیں چاہتے۔ ہر جماعت کے پاس اتحاد کا طریقہ کار بس یہی ہے کہ میرے پرچم تلے آجاؤ، میری دکان کے خریدار بن جاؤتبھی تم فلاح پاؤ گے۔ہم اس بات کا شعور بھی نہیں کہ غیر شعوری طور پر ہم اسلام دشمن سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ آج ہر کس و ناکس دینی مسائل پر گفتگو کرنے کا مجاز ہے۔ دلوں سے خلوص ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے آپس کے معاملات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ کوئی ہم سے متاثر تو دور برگشتہ ہی ہو سکتا ہے۔ایثار، محبت، قربانی جیسے الفاظ اب صرف تحریر و تقریر کی ہی زینت رہ گئے ہیں ؂
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
اخلاقیات کی سطح پر ہماری شناخت مٹ چکی ہے۔ ہمارے قول و فعل میں آسمان و زمین جیسا تضاد پیدا ہو چکا ہے۔آج ہم میں کا ہر دوسرا شخص عالم و مصلح نظر آتا ہے لیکن عملی سطح پر ہم اتنے پیچھے ہیں کہ کبھی سنجیدگی سے اپنے قول و فعل پر غور کریں تو خود اپنی ذات سے ہی نفرت ہونے لگے۔آج دین بدنام ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ہم نے دین کی تعلیم کو عام کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم نے اپنے آپ کو رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلایا ہی نہیں۔ہم نے دین سے نہیں اپنے نظریات سے محبت کی۔ ہم نے دین کی ترویج و اشاعت کے لیے نہیں اپنے مسلک و مکتب کے فروغ کے لیے جدوجہدیں کیں۔آج بھی اگر ہم اخلاص کے ساتھ دین پر عمل کرنے والے بن جائیں تو ہزارہا اختلافات کے باوجود ہم متحد ہوں گے۔ کیسا عجیب المیہ ہے کہ دنیا تو ہمیں مسلمان کہتی ہے،ہمیں ایک مانتی ہے خواہ ہم کسی مسلک و مکتبہ فکر کے ہوں لیکن ہم ہی اپنی علیحدہ شناخت چاہتے ہیں۔برما کے قتل عام میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ کون کس مکتبہ فکر کا ہے، عراق، فلسطین، افغانستان اورکشمیر میں ہم سے ہمارا مسلک نہیں پوچھا جاتا۔ کاش کہ ہم یہود و نصاریٰ اوراغیارکی ان سازشوں کو سمجھ پاتے، ہائے افسوس کہ ہماری عقل پر پردے پڑ گئے۔ ہم نے غور و فکر کرنا چھوڑ دیا۔ دین کو ہم نے محض ظاہر رسوم و قیود تک محدود کردیا۔تفرقہ پھیلانے سے پہلے ذراان آیات قرآنی پر توغور کریں
واعتصموابحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا واذکروانعمت اللہ علیکم اذکنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا۔’’اورتھام لو اللہ کی رسی کو سب مل کر اورآپس میں پھوٹ نہ ڈالو اوریاد کرو اللہ کی اس مہربانی کو جو تم پر کی گئی تھی ۔جب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پس الفت ڈال دی اللہ نے تمہارے دلوں میں تو بن گئے تم اللہ کی اس مہربانی سے بھائی بھائی‘‘اس آیت میں پہلے تو حکم دیا گیا ہے کہ حبل اللہ یعنی قرآن و سنت پر مجتمع اور متحد ہوجاؤ اس لیے کہ امت کی وحدت اور ملت کے اتحاد کی بنیاد یہی ہے۔ اس کے بعد کہا گیا ہے کہ آپس میں پھوٹ نہ ڈالو فرقوں اور گروہوں میں اس طرح نہ بٹو کہ ملی اتحاد کا شیرازہ بکھر جائے اور تم اتحاد ملت کی بنیادوں پر متحد و مجتمع ہونے کی بجائے متفرق اور منتشر ہوجاؤ اس طرح دورِ جاہلیت کی حالت یاد دلائی گئی ہے کہ تمہارے درمیان دشمنیاں اور جتھہ بندیاں تھیں اور قبائل و گروہی عداوتیں اور عصبیتیں تھیں جو اسلام کی وجہ سے ختم ہوگئیں اور تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے تو اب اسلام لانے کے بعد اور دین واحد پر متحد ہوجانے کے بعد اگر دوبارہ تم نے اتحاد ملت کی بنیادوں کو نظر انداز کرکے باہمی تفرق کی روش اختیار کی اور وہی پرانی قبائلی جتھہ بندیاں اور دشمنیاں شروع کردیں تو اخوت و الفت کی نعمت سے محروم ہوجاؤگے۔ اس آیت کے شان نزول اور سیاق و سباق اور کلمات کے معانی تینوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس جگہ تفرق سے مراد وہ جتھہ بندی اور فرقہ بندی ہے جو صرف حسد و عناد اور گروہی عصبیت پر مبنی ہو۔
آئیے اس بات کا عہد کریں کہ دین کی حقیقی روح تک پہنچے کی کوشش کی جائے۔آتشِ عشق کو بھڑکائے بغیر ہمارا شعورو فکر بیدار نہیں ہو سکتا۔ محبت و خلوص کے بغیر نہ تو اتحاد و اتفاق پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی اللہ کی نصرت حاصل ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں میں دین کی صحیح سمجھ اور اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے خلوص و محبت عطا فرما دے۔
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button