کالمز

ایم کیو ایم میں بغاوت اور سندھ میں سیاسی ہلچل 

سندھ کی سیاست میں اچانک بڑی تیزی کے ساتھ ہلچل پیدا ہوگئی ہے اس کی اصل وجہ متحدہ قومی موومنٹ کے بعض رہنماؤں کی پارٹی سے بغاوت ہے اور پارٹی قائدالطاف حسین پر انتہائی سنگین الزامات ہیں۔متحدہ قومی موومنٹ کے سابق ناظم کراچی سیدمصطفی کمال اور سابق ڈپٹی کنوینرانیس قائم خانی 2013کے بعد نہ صرف پارٹی سے لاتعلق ہوئے بلکہ اپنے تمام روابط ختم کردئے ۔ذرائع کے مطابق اس دوران ایم کیوایم کی قیادت نے منانے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ 3مارچ 2016کو صبح 4بجے اچانک دونوں رہنماء کراچی پہنچے اور سہ پیر 3بجے پریس کانفرنس کا اعلان کیا ۔پارٹی سے انتہائی ناراضگی اور ممکنہ بغاوت کی باز گشت کو طویل عرصے سے تھی مگر اس اچانک اس طرح آمد اور ہنگامی پریس کانفرنس کی توقع شاید کسی کو نہیں تھی ۔دو نوں رہنماؤں کی وطن واپسی سندھ کی سیاست میں انتہائی ہنگامہ خیز ثابت ہورہی ہے ۔

دونوں رہنماؤں نے پریس کانفرنس میں ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین اور ان کے بعض ساتھیوں پر بھارتی خفیہ ایجنسی’’ را‘‘ کے ایجنٹ ہونے سمیت انتہائی سنگین الزامات عائد کئے ہیں،اگرچہ بیشتر الزامات پرانے ہیں مگر اس بار یہ الزامات گھر کے ان افراد نے دہرائے ہیں جو تقریباً 30سال تک نہ صرف پارٹی سے منسلک رہے بلکہ اہم عہدوں پر بھی فائز رہے اور سید مصطفی کمال پر پر تو ایم کیو ایم فخر کرتی اوردنیا کے سامنے بطور مثال پیش کرتی تھی ۔ ایم کیوایم نے ان الزامات کو مستردکیاہے تاہم ایم کیوایم کے باغی رہنماء اور موجودہ ارکان سندھ اسمبلی ڈاکٹر صغیر احمد صدیقی ،افتخار عالم اور کراچی کی تنظیمی کمیٹی کے پہلے سربراہ وسیم آفتاب کی سید مصطفی کمال گروپ میں شمولیت اور الزامات کی بھرمار نے ایم کیوایم کو مشکل میں ڈال دیاہے۔جس طرح سید مصطفی کمال کا بطور کراچی کے سٹی ناظم ، انیس قائم خانی کا بطور پارٹی عہدیدار مثبت ریکارڈ ہے اسی طرح ڈاکٹر صغیر احمد صدیقی اور افتخار عالم بھی پارٹی کے اندر اور باہر اچھی شہرت کے مالک ہیں ، اس لئے اس بغاوت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایم کیوایم میں بغاوت پھوٹ چکی ہے اور مصطفی کمال گروپ میں شمولیت کا سلسلہ کئی ہفتے تک قسط وار جاری رہے گا۔ ایم کیوایم کے ایک درجن سے زائد ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اور ممبران سینیٹ جبکہ نصف درجن سے زائد پارٹی کے اہم رہنماء بھی مصطفی کمال گروپ کے رابطے میں ہیں اور یہ لوگ کسی بھی وقت اپنی شمولیت کا اعلان کرسکتے ہیں ۔

 بظاہر ایم کیوایم پر اب بھی الطاف حسین پر گرفت مضبوط ہے اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ ان کی موجودگی تک ایم کیوایم میں کوئی بڑی تقسیم ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، کیونکہ ایم کیوایم میں رہنماؤں سے زیادہ پارٹی کے یونٹ اور سیکٹر سطح کے افراد اور ووٹرز کی اہمیت ہے ، جو آج بھی الطاف حسین کے ساتھ ہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ پانچوں رہنماؤں نے اپنی پریس کانفرنسوں میں رہنماؤں کی بجائے کارکنوں اور ووٹرز کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ مصطفی کمال ایم کیوایم کے ان چند رہنماؤں میں سے ایک ہیں جن کو ماضی ووٹرز کی حدتک اچھی پزیرائی حاصل رہی ہے، جبکہ انیس قائم خانی کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جن کا اثر کارکنوں بہت زیادہ رہا ہے اور وہ پارٹی کے پورے نظام و طریقہ کار سے واقف ہیں۔اس کے باوجود ضروری نہیں کہ یہ رہنماء کارکنوں اور ووٹرز کی فوری توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے ۔عام کارکن اور کراچی کے ووٹرز کے ذہینوں میں یہ تاثر موجود ہے کہ مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کو 1992ء کی طرح مخصوص لابی سامنے لائی ہے اس تاثر کو ذائل کرتے ہوئے مصطفی کمال گروپ کیلئے ووٹرز اور عام کارکن کو اپنی جانب مائل کرنا کافی مشکل مرحلہ ہے،اس میں کامیابی ہی اصل کامیابی ہوگی ، کیونکہ ایم کیوایم کی اصل طاقت نظر آنے والے رہنماء ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اور ممبران سینیٹ نہیں بلکہ یونٹ اور سیکٹر سطح کے کارکن اور ووٹرز ہیں، اسی لیے ایم کیوایم کی قیادت اب بھی پرامید ہے کہ کارکن اور ووٹرز کی اس کو حمایت حاصل ہے ،تاہم اگر ایم کیوایم میں بغاوت کا سلسلہ قسط وار اسی طرح جاری رہاتو ایم کیوایم کی قیادت کیلئے اپنادفاع اور موجودہ وجود کو من وعن بر قرار رکھنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔ دوسری جانب ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی صحت کے حوالے سے بھی خبروں نے بھی کئی افواہیں زیر گردش ہیں،اگرچہ ایم کیوایم اس کی مسلسل تردید کررہی ہے۔ ایم کیوایم سندھ کی دوسری بڑی اور شہری علاقوں میں سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ ماضی میں ایم کیوایم پر انتہائی سنگین الزامات کے باوجودتمام سیاسی اور مذہبی قوتیں ایم کیوایم کے ووٹرز کو توڑنے میں ناکام رہیں اور آج بھی ایم کیوایم کے ووٹرز کے ذہن میں یہ تاثر ہے کہ حالیہ بغاوت ’’ مہاجر ووٹ کو تقسیم کرنے کی سازش ہے‘‘، سید مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کے لیے اس تاثر کو ذائل اور ووٹرز کو اپنی جانب مائل کرنا کافی مشکل کام ہے۔

 ایم کیوایم کی کوشش ہوگی کہ وہ اس تاثر کو اور پروان چڑہائے اور ایم کیو ایم کی قیادت اسی لئے اس بغاوت کو بھی 1992ء کی طرح بغاوت قرار دے رہی ہے اور ایم کیو ایم اور بعض مبصرین کا موقف ہے کہ جس طرح 1992ء کی بغاوت بھری طرح ناکامی سے دوچار ہوئے ہے اسی طرح موجودہ بغاوت بھی ناکام ہوگی ۔ تاہم دوسری جانب بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ 1992میں ایم کیوایم کے وجود میں آئے ہوئے ایک عشرہ بھی نہیں ہوا تھا اور اس کی پوری مرکزی قیادت نوجوانوں پر مشتمل تھی، ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کا نچلی سطحی تک برائے راست کنٹرول تھالیکن 2016ء کی پوزیشن کافی مختلف ہے اور لوگوں میں وہ جذبات و ہمدردی نہیں ۔ ایم کیوایم کے لئے موجودہ بغاوت کوکلی طور پر نظر انداز کرنا کافی مشکل ہوگا، غالبا ایم کیوایم کے بعض رہنماؤں کو اس کا احساس بھی ہے یہی وجہ ہے کہ ایم کیوایم کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر فاروق ستار نے 8مارچ کو اعلان کیاہے کہ ایم کیوایم 10مارچ سے کراچی میں صفائی مہم شروع کرے گی اور یہ مہم جاری ہے ، اگرچہ انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا تاہم اشارے کنایوں میں باغی رہنماؤں پر تنقید کی اور کہا کہ گلی کوچوں کی صفائی کے ساتھ ساتھ گلی ذہنوں کی صفائی بھی کی جائے گی ۔بعض مخالفین اس بیان کو دھمکی سے بھی تعبیر کررہے ہیں۔

ایم کیوایم میں اگر کوئی بڑی تقسیم ہوتی ہے تو پھر سندھ کی سیاست میں بڑے پیمانے پر ہلچل پیداہوگئی اگرچہ مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے ابھی تک اپنی پارٹی کے نام کا باقاعدہ اعلان نہیں کیاہے اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ باقاعدہ نام کے اعلان کا معاملہ کئی ہفتوں نہیں کئی ماہ تک نہیں کیاجائے گا ، بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایم کیوایم کی ایک اہم شخصیت جو اس وقت بھی اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہے اپنے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد نئے گروپ کی قیادت کریگے اور یہی سے ایم کیو ایم کی اصل تقسیم ہوگی ،یہی بات صرف مخالفین ہی نہیں بلکہ ایم کیوایم کے حامی بھی کہتے ہیں ۔

 دوسری جانب پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتیں ایم کیوایم میں پڑنے والی دراڑ سے فائد ہ اٹھانے کیلئے کوشاں ہیں ، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ(ن) اور بعض دیگر اہم جماعتوں نے ایم کیوایم میں بغاوت کے معاملے پر مسلسل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے غالباًاس کی وجہ بغاوت کے مبینہ سرپرستوں کو تلاش کرناہے ،باغی گروپ رہنماؤں کا کہناہے کہ وہ کسی کے اشارے پر نہیں آئے بلکہ’’ اپنے ضمیر ‘‘کے جاگنے پر قوم کو سچائی سے آگاہ کرنے کیلئے یہ راست اختیار کیاہے ،اگرچہ یہ راستہ انتہائی کھٹن مشکلات اور خطرات سے دوچار ہے لیکن ہم قوم کو بچانا چاہتے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ سید مصطفی کمال ، انیس قائم خانی، ڈاکٹر صغیر احمد صدیقی ، افتخار عالم ،وسیم آفتاب اور ان کے ساتھیوں کی مہم کہاں تک کامیاب ہوتی ہے اور اس کے کیا نتائج حاصل ہوتے ہیں اور سید مصطفی کمال کے اپریل میں باغ جناح میں جلسہ عام کا اعلان کیا رنگ لے آتاہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button