کالمز

’’سلفی‘‘ 

عبدا لحفیظ خان پہلے کسی زمانے میں میری کلاس میں ہو ا کرتے تھے آج کل فلیکٹی میں میرے ساتھی ہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ،سلجھے ہوئے تجربہ کار اور محنتی اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔جدید دنیا کے تقاضوں میں میری مدد کرتے ہیں ایڈیازشیر کرتے ہیں ۔کمپوٹر اور موبائل کی موشگافیاں سمجھاتے ہیں۔ایک دن میں نے پوچھا حفیظ خان یہ سلفی کیا بلا ہے ؟اس نے ایک دم اپنی موبائل سیٹ نکالی اور سلفی بنا کر دکھایا۔

اپنی مجسم تصویر اپنے ہاتھوں سے ۔۔۔اپنا پیکر اپنے ارادے سے ۔۔میں نے تڑپ کر کہا۔۔۔حفیظ خان یہ تو بڑا مشکل کام ہے ۔اور دل گردے کا بھی ۔۔۔اس نے ہنس کر کہا۔۔۔سر یوں ہے بس یہ بٹن دبانا ہے۔۔۔میں نے کہا بیٹا مجھے بہت مشکل لگتا ہے وہ ایک دم سنجیدہ ہوگیا اور مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگا۔میں نے کہا بیٹا۔۔ افرین ہو موجودہ دور کی ایجادات کو ۔۔۔ مگر بیٹا ہم مشینوں کی قیدی بن کر رہ گئے ہیں بقول اقبال احساس مروت بھی کچلا گیا ہے۔۔ مگر یہ تو جراء ت کی بات ہے یہ تو کمال ہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے اپنی تصویر کھینچتا ہے کیمرہ جھوٹ تو نہیں بولتا ۔۔ احساس کی گد گدی بھی کیا چیز ہے ۔حفیظ خان انسان اپنے بارے میں سب کچھ چھپا تا ہے ۔۔چور چوری چھپاتا ہے ۔ڈاکو ڈاکہ چھپاتا ہے ۔چغل خور چغل خوری چھپا تا ہے ۔قاتل ، قتل، جھوٹا ، جھوٹ ،حاسد حسد ، شریر شرارت بے انصاف بے انصافی چھپاتا ہے۔اپنا اصل رو پ کبھی بیان نہیں کرتا۔ انسان فنکار ہے ۔دوسروں کی طرف اشارہ کر تاہے حوالہ دیتا ہے۔دلیل دیتا ہے۔الفاظ کو موتی بناتا ہے ۔ اپنی صفائی کمال مہارت سے پیش کر تاہے۔ اس کی آنکھیں صرف دوسروں کو دیکھتی ہیں۔۔ سیاست دان آتاہے۔ سٹیج سجتا ہے ہرا چھائی اور خدمت اپنے حوالے سے بیان کرتاہے۔مولانا ممبر پہ دوسروں کے گنا ہ گنتا ہے۔اپنے آپ کو شامل نہیں کرتا۔ والدین دوسروں کے بچوں کو الزام دیتے ہیں اپنے بچے بھول جاتے ہیں۔شوہر بیوی کو مودد الزام ٹھہراتا ہے اپنی کوتاہیاں بھول جاتاہے۔ بیوی اپنے شوہر کو براکہتی ہے۔۔ ایک عورت اپنے علاوہ دوسری کسی کو نہیں مانتی ۔۔ فنکار فنکار کی کمزوریوں کا پہاڑ ہ پڑھتا ہے ۔دولت مند کادولت مند سے حسد ہے ۔غریب غریب کو پسند نہیں کرتا ۔لوگ ہوتے ہیں کہ اپنی عرضٓ اور لالچی کے واسطے سب کے ہاں میں ہاں ملاتے ہیں کلموہی کوخوش قسمت کہتے ہیں کالے کو گورا ، جھوٹ کو سچا ،بدعنوان کو کھرا ، طوطا چشم کو بے عرض،تنگ دل کو دریا دل ، کنجوس کو سخی ، مغرور کو خاکسار کہتے ہیں کیونکہ لوگوں کو اپنا مطلب نکالنا ہے ۔انسان کوقرآن میں چارا لقاب دئے گئے۔قتور‘‘ ’’ عجول ‘‘، ظالم ‘‘ِ جہول‘‘ یہ سب کمزوریاں انسان ذات میں ہیں۔ مگر انہی انسانو ں سے چھپائی بھی جاتی ہیں۔

حفیظ خان کوئی اپنے آپ کی تشریح نہیں کرتا۔ نہ کرسکتا ہے۔کوئی اپنے آپ کو پیش نہیں کرتا نہ کرسکتا ہے۔کوئی اپنے آپ کو قصور وار نہیں ٹھہراتا نہ ٹھہر اسکتا ہے۔اب بتاؤ حفیظ خان’’ سلفی ‘‘بنانا اسان ہے کہ مشکل ہے؟ سلفی بنانے سے اپنے بھی خفا ہوتے ہیں بیگانے بھی ناخوش ہوتے ہیں۔تنہا ہونا پڑتا ہے ۔ٹھکراناپڑتا ہے۔دشمنیاں مول لینی پڑتی ہیں۔ شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ محروم ہونا پڑتا ہے ۔ہاتھ کھینچنا پڑتا ہے۔۔ زلزے میں کوئی نقصان نہیں ہوا تو کہنا پڑتا ہے ۔۔کوئی نقصان نہیں ہوا ۔۔اردگرد لوگ امدادی سامان اور رقم لئے جارہے ہوتے ہیں ۔سیلاب سے نقصان نہیں ہوا تو امدادی سامان لینے سے انکار کرنا پڑتا ہے۔لوگ اس کو محرو میت کہتے ہیں۔طعنے سننے پڑتے ہیں۔’’ بری الزمہ ‘‘ کا مرکب لفظ زندگی کے کھاتے میں سے نکالنا پڑتاہے۔ اگر عہدے سے دستبردار ہونا ‘رشتے کا گلاگھونٹنا ،محبت کوتج دینا ، تعلقات کو قربان کرنا، فائیدے سے ہاتھ کھینچنا آسان ہے ۔تو سلفی بنانا آسان ہے۔حفیظ خان اگر یہ مشکل ہے۔تو سلفی بنا نادینا کا مشکل ترین کام ہے۔۔۔۔۔وہ اپنے استاد کو تک رہا تھا ۔ چہرے پر ہوائیاں رہی تھیں ۔لب ہل رہے تھے زیر لب کہہ رہا تھا ۔ ۔ سرجی بہت مشکل ہے.

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button