کالمز

غیرت(مرحومہ)۔۔

اقبال حیات بر غوزی

غیرت ایک اندرونی کیفیت اور احساس کا نام ہے، جو کسی منفی،نازیبا اور نامناسب عمل کے ردعمل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ احساس اگرچہ ہر ذی روح(سوائے سور) کے اندر کم وبیش پایا جاتا ہے، مگر مسلمان کے اندر اِسکی موجودگی بدرجہ اتم ہوتی ہے جو خاص طور پر ایمانی اقدار کے منافی عمل کی چنگاری سے یہ پوشیدہ خرمن آگ پکڑتا ہے۔ اس اندرونی احساس کے حدود حیوانیت کی دُنیا سے ملتے ہیں۔جہاں شرم وحیاکے آثار نہ ہونے کی وجہ سے اس وصف کی خصوصیت متاثر ہوتی ہے۔ اِسی طرح انسان بھی غیرت کو نیلام کرے تو اسکی حیثیت حیوانوں سے بھی بدتر ہوتی ہے کیونکہ حیوانات عقل وخرد سے عاری اور انسان اس جوہر سے مستفید ہوتا ہے۔ اس احساس کی موت بے غیرتی کے جنم سے واقع ہوتی ہے۔غیرت کو اُبھارنے اور بگاڑنے میں ماحول کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔جہاں نیک وبد میں تمیز کا احساس مٹ جائے تو غیرت رفتہ رفتہ کمزور اور معدوم ہوتی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ ہم چترال کے باسی اس صفت فاخرہ سے سرفراز تھے۔ہماری معاشرتی زندگی میںیہ قدر کوٹ کوٹ کربھرا تھا۔ ہم غیرت کے تقاضوں سے انحراف کو انسانیت کے دائرے سے خارج گردانتے تھے۔یہاں تک کہ ہماری ادب اور ثقافت کی دُنیا بھی اِن اوصاف سے مزین تھی۔ہمارے بودوباش،رہن سہن،پوشاک اور طرززندگی جہاں شرم وحیاکی اعلیٰ روایات کے آیئنہ دار اورپر توتھے وہاں عریانیت، بے حیائی اورحرام خوری کی بو سے بھی ناآشناہوتے تھے۔جوغیرت کی زندگی کے حسن ہوتے ہیں۔ہماری غیرت اس وقت انحطاط کا شکار ہونی شروع ہوئی جب ہم آسودہ حالی کی دُنیا میں داخل ہوکر اغیار کی طرز زندگی سے آشنا ہونے لگے۔ہماری پردے کی دُنیاچاردیواری سے باہرپھیلتی گئی۔رفتہ فتہ گھروں کے اندرڈراموں اور فلموں میں عریان اور بے حیا مردوزن کی عشق بازی اور بوس وکنار کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ دیکھنے اور خواتین خانہ کی باریک اور تنگ لباس کے ذریعے اپنے اعضاء کی نمائش پر بھی غیرت انگڑائی لینے کی کیفیت سے عاری ہوتی گئی۔اور اس ماحول کے اثرات کا دائرہ اتنا وسیع ہوتا گیا کہ یہ درِشہوار بازاروں میں نیلامی پر منتج ہوئی۔بیگانگی اور اجنبیت کاتصور دم توڑ تاگیا۔چاردیواری کی وہ زینت جو اپنوں کے سامنے سر سے دوپٹہ سرکنے پرشرم وحیاسے پیلی ہوجاتی تھی۔بیگانوں اورغیروں کے ساتھ کھل کھلا کر بات کرنے اورطنزومزاح کرنے میں بھی جھجک محسوس کرنے سے بھی عاری ہوگئی۔ اور بے حیائی لفظ کو پسماندگی،جہالت اور فرسودہ خیالات کے پلو میں باندھ کرنیم برہنہ حالت میں نامحروموں کے ساتھ میل جول کو جدید دُنیاکے باسیوں کا حق تصور کرنے اور اِس استحقاق پرقدغن کو حقوق اِنسانی کے خلاف قرار دینے والوں کے ہر اول دستے میں شامل ہوگئی۔حالانکہ اس حقوق انسانی کا یقین کرنے والے وہ لوگ ہیں جو بذاتِ خود شرم وحیا لفظ سے ناآشناہیں اور دُوسروں کو بھی حیوانیت کی اس دُنیا میں دکھیلنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ہماری معاشرتی زندگی میں اس بگاڑ کے پیدا ہونے کے بعد رشتوں ناطوں میں اپنائیت کا عنصر معدوم ہونے لگا۔وہ اولاد جو دُوپٹہ کے نیچے ماں کا دُودھ پی کرپلتا تھااورنظروں کی بے حیائی اور کانوں کی الفاظ خبیثہ سے ناآشنائی کی حالت میں عقل وخرد کے حدود میں داخل ہوتے تھے ۔ والدین کی قدردانی اور احترام کے اوصاف حمیدہ سے باوصف ہوتے تھے۔اس کے برعکس دورجدید کے ماحول میں ماں کی عریان گود کے پروردہ اولاد سے والدین کا نالان ہونا اس منفی اور غیر فطری طرززندگی پربین کرنے کے مترادف ہے۔اور ’’خودکردہ راعلاج نیست ‘‘ کے مصداق اس کیفیت کے اثرات سے گلو خلاصی کے امکانات وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتے جارہے ہیں اور ہماری معاشرتی زندگی ہر قسم کی مادی سہولتوں سے مستفید ہونے کے باوجود اسلامی روایات اورا قدار کی لذت کو ترسستی رہے گی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button