کالمز

زینب کے اصل قاتل ہم ہیں

پوری قوم سراپا احتجاج ہے، انسانیت کا سر شرم سے جھک گئی، حوا کی بیٹی کی پھر سے تذلیل، معصوم پری درندگی کا شکار،بے حس اور کٹ پتلی انتظامیہ بے بس، قصور واقعہ شریفوں کے منہ پر تماچہ ہے وغیرہ ، یہ وہ الفاظ ہیں جو ہماری میڈیا کی سرخیان بنی ہوئی تھیں۔ ہم یہ دیکھنے میں مصروف تھےکہ کونسا چینل یا کونسا صحافی ، اینکر پرسن یا پھر سیاستدان سخت سے سخت الفاظ میں مزمت کرتا /کرتی ہے، دوسری طرف اطلاع ملتے ہی موبائل اٹھاتے ہیں اور اس واقعے سے جڑی ایک تصویر اپ لوڈ کیا جاتا ہے اور ایک آدھ مذمتی یا پھر دکھ بھری الفاظ کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی کسی دوست کے پوسٹ پر "رپ” لکھ کر یا پھر جذباتی اسٹیکر لگا کر پوسٹ کرتے ہیں اور اتنے بڑے انسانیت سوز واقعے کے خلاف ایک دو الفاظ سوشل میڈیا میں لکھ کر خود کو بریُ آلذمہ تصور کرتے ہیں۔ آج اس افسوناک واقعے کا تیسرا دن تھا، آج کی سرخیان کچھ یوں تھے۔واقعہ قصور کے بعد قصور شہر میں زندگی معمول پر آنے لگی، آج قصور میں باراز کھل گئے ہیں، ہر آنکھ اشکبار رہنے کے بعد آج زندگی معمول پر آنے لگی۔ یہ الفاظ ہم اُس وقت بھی سنے تھے جب اسلام آباد کی طیبہ ، سوات کی ملالہ، ڈیرہ کی مختاران ، سانگھڑ کی کائنات،بلوچستان کی شازیہ سمیت ایسے ہزاروں واقعات جو رپورٹ ہوئے تھے اور اس عظیم قوم کا سر شرم سے جھک چکی تھی اور پھر دو تین دن بعد اٹھ بھی گئی۔ کیا عجیب قوم ہے کہ اسکا سر جھکتا ہی نہیں۔ جب بھی ظلم و زیادتی ہوتی ہے، معصوم بچیوں پر مرد حضرات وحشیانہ مظالم کر رہے ہوتے ہیں تو قوم کا سر صرف دو تین روز کے لئے جھکتی ہے اور پھر اگلےکسی واقعے تک نہیں جھکتی۔

درحقیقت جس قوم کی ضمیر ہی مر چکی ہو اس کا سر جھکے یا آتما بکے! اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ حضرت انسان کی خوبیوں میں جو سب سے اہم خوبی کا ذکر کیا گیا ہے وہ ہے زندہ ضمیر! اور جن لوگوں میں ضمیر ہی نہ ہو تو شرم کجا؟

ہم میں سے بہت سوں کا خیال یہ ہے کہ زینب کے قاتلوں کو اگر سخت سزا دی جائے گی تو آئندہ کسی کی جرات نہیں ہوگی کہ وہ اسطرح کی حرکت کرے۔ مگر یہ صرف خام خیالی ہے اور کچھ نہیں۔ کیونکہ یہ حقیقت ہمیں ماننا پڑے گا کہ مجرم کے لئے قانوں جتنا بھی سخت کرو، سزا کتنی ہی عبرت ناک کیوں نہ مقرر کیا جائے، مجرم اپنا طریقہ واردات بدل دیتا ہے جرم نہیں چھوڑتا۔ پیرول یا پروبوشن سسٹم اسی لئے واضح کئے گئے ہیں تاکہ مجرم کو جرائم سے باز رکھا جائے نہ کہ سخت سزا دی جائے۔ یہ اٹل ہے کہ جب تک جرائم کی وجوہات پر قابو نہیں پایا جائے گا تب تک کوئی بھی اقدام غیر سنجیدہ تصور کی جائے گی ۔ واقعہ قصور اس معاشرے کا پہلا واقعہ تو نہیں ، اسطرح کے واقعات آئے روز ہوتے رہتے ہیں مگر بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں باقی سب مظلوم سمیت دفن کئے جاتے ہیں۔

ہمیں اپنے معاشرے کو ایک نظر دیکھنا ہو گا اور یہ جاننے کی کوشش کرنی ہوگی کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جو ہمارے معاشرے میں اسطرح کے واقعات کو جنم دینے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں ملک کی 97فیصد آبادی مسلم ہے، اور آئے روز اسطرح کے انسانیت سوز واقعات !!۔۔۔۔ تو کیا ہمیں ماننا پرے گا کہ بطور اسلامی معاشرہ یا پھر بطور مسلمان ہم ایمان کی دولت سے محروم ہوچکے ہیں اور اسلامی اصولوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

ہمیں مجوعی طور پر یہ ماننا ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں جنم لینے والے واقعات کا کسی حد تک ذمہ ہم خود ہیں، وہ یوں کہ اگر اس طرح کی ذلیل حرکت کسی ایک شخص یا گروہ کر رہی ہوتی ہے، اسے گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔ مگر ہم احتجاج کی آڑ میں جلاؤ ، پتھراؤ ، گھیرا ؤ توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں اور ہمیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ مجرم بھی ہمارے ساتھ احتجاج میں شامل ہے اور جلاؤ گھیراؤ میں ہم سے بھی اگے ہے ۔ ہوتا یوں کہ پولیس اوردیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مجروموں کی تعقب کے بجائے ہمارے پیدا کردہ صورتحال سے نمٹنے لگ جاتے ہیں اور جب تک صورتحال قابو میں آتی ہے تب تک مجرم راہ فرار اختیار کر چکے ہوتے ہیں ۔اسطرح ہمارا غصہ بلاوجہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے، کیونکہ ہم دنیا کی واحد قوم بن چکے ہیں جنہیں انجام سے کوئی فکر نہیں، ہم دبنگ انداز سے آغاز کرتے ہیں، انجام میں رسوائی ملے یا ذلت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں بھی یہی سب کچھ ہوا تھا۔ محترمہ کی قتل کے بعد پورے ملک میں جلاؤ گھیراؤ شروع ہوئے ، سرکاری اور نجی املاک کو جلانا شروع کئے اور تین دن تک اسی طرح کا صورت حال چلتا رہا اور قاتل کوئی بھی تھا باآسانی فرار ہوا، اگر ہم سکون کر رہے ہوتے تو ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے مجروموں کی تعقب کر رہے ہوتے مگر ہمارے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس بن جاتے ہیں اور مجرم باآسانی نکل جاتے ہیں۔ ہمیں آج سے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ملکی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ہیں یا مجرموں کے؟ اسطرح ہم دو تین دن اپنے اداروں کا ساتھ دیکر ان کی مدد کریں گے تو یقیناً مجرم گرفتار ہونگے اور ہم سخت سزا کا بھی مطالبہ کر سکیں گے۔ مگر ہم واردات کے بعد حالت خراب کرکے مجرموں کو فرار کرواتے ہیں اور پھر سخت سزا کا مطالبہ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ جو ممکن نہیں ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button