کالمز

میں فرشتہ کی طرح ہوں!

تحریر: اے ایم خان،
چترال چرون

نائن الیون کے واقعے کے بعد دہشت گردی اور دہشت گردوں کے تناظرمیں ’’سیف ہیون ‘‘ یعنی محفو ظ پناہ گاہ کا لفظ بہت مشہور ہوا تھا،اب ’پاناما لیکس ‘ نے اُسی نوعیت کا دوسرا لفظ یعنی ’ٹیکس ہیون ‘ کا تعارف کردیا، گوکہ یہ موجود تھا۔ ریاست پاکستان میں ہر قسم کے انہونی، غیر متوقع اور حیران کن کام اور بات ہوتے رہتے ہیں اِسی لئے زیادہ حیرانگی بھی نہیں ہوسکتی، کیونکہ ’ وکی لیکس‘ اِس سے بھی بڑا انکشاف تھا۔

ہمارے ملک کے اشرافیہ اور حکمران جماعت کے کرتا دھرتا اپنا زیادہ تر اوقات باہر گزارتے ہیں جہاں زندگی کی ہر ایک سہولت میسر ہو، امن و سکون ہو، آب وہوا معتدل ہو ، اور آزادی ہو۔ اُن کی کامیابی کا راز پاکستان اور ملک سے باہر اُن کی کاروبار اور دولت ہے ۔ اُن کا گھر ، دولت ، اور شہریت، ہر چیز، دو دو ہوتے ہیں جہاں وہ آتے جاتے ہیں، اور موسم کو دیکھ کر زندگی گزارتے ہیں۔ وقتا فوقتاً اِ ن چیزوں پر سوال اُٹھتے ہیں ، ایک دفعہ سپریم کورٹ نے دوہری شہریت خصوصاً پارلیمنٹیرین کے حوالے سے بھی سوال اُٹھایا تھا۔

اب موجودہ جو بحث ہے یہ ’آف شور کمپنی‘ ( پاناما) بزنس اور حکمران طبقے کے حوالے سے ہے۔پانامالیکس کے حوالے سے ’ الجزیرہ‘ میں سی جے پولیکرونیو لکھتے ہیں کہ ’’آف شور کمپنیز جو بھی ہیں اُن کا مقصد امیر اور طاقت ور کیلئے ایسے کردار یعنی(ٹیکس ہیون) مہیا کرنا ہے جو دُنیا میں حکومت کرتے ہیں‘‘۔

اب ضروری یہ ہے کہ ’آف شور اکاونٹ کمپنی‘ کیا ہوتا ہے ۔یہ ’ ایک ایسا اِدارہ (firm) جوکہ ملک سے باہر رجسٹرڈ ہو یا کوئی دوسرے کمپنی کے ساتھ ہوجہان اُس کا مرکزی دفتر ، وہان کام کررہا ہو، اور اُس کا اہم سرمایہ کا ر بھی وہاں رہائش پذیر ہو‘۔ اب جو بھی خفیہ دستاویزات منظر عام پر آئے ہیں یہ بھی ’ پاناما بیسڈ قانونی فام‘ نامی ایک آف شور کمپنی نے سامنے لایا ہے جوکہ 11ملین ڈاکیومنٹس پر مشتمل ہیں۔ یہ دستاویزات نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دُنیا میں غیر یقینی ،بے اعتمادی اور تفتیش کا ماحول پیدا کردیاہے ۔ زیادہ بے یقینی پیدا ہونے کا باعث سربراہ مملکت وریاست ،وزیرومشیر،اور بیوروکریٹس اپنے خفیہ دولت باہر رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو پاناما لیکس میں منظر عام پر آئے ہیں ۔ الزام لگنے کے بعد آئس لینڈ کا وزیراعظم اپنے آفس سے سبکدوش ہوا، برطانیہ کے وزیراعظم نے عوامی احتجاج کی صورت میں اپنے ٹیکس اور اکاونٹس کے سارے تفصیلات پبلش کر دی، روس کے صدر کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ۔

پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بھی گرم ہوچُکا ہے، وزیراعظم پاکستان نے اِس حوالے سے قوم سے خطاب کی، اب ملک میں عمران خان اُس کی صاف و شفاف تفتیش پر زور دے رہا ہے، دو سابقہ ججز نے کمیشن میں شامل ہونے سے معذرت کرلی۔عمران خان نیب کیلئے یہ کیس ایک چیلنج لیکر اُس کی تقتیش کرنے کا عندیہ دیتا ہے۔ اب وزیر داخلہ ایف آئی اے کے ذریعے تقتیش کی بات کررہا ہے، بہرحال تفتیش۔۔۔ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں لیکں یہ حکمران جماعت کی سیاسی وقعت کیلئے بہت ضروری ہے۔

زاہد حسین اپنے ایک آرٹیکل میں پاناما لیکس کے حوالے سے (ڈان نیوز پیپر )میں لکھتا ہے کہ یہ ’’انکشافاتleakes)) نے یہ واضح کیا ہے کہ ملک کے 200 تک معروف بزنس مین وسیاستدان، اور اُن کے چھپائے ہوئے دولت کے ذرائع پر سوال اُٹھاتا ہے ‘‘۔ صدرآصف علی ذرداری کے خلاف سوئس مونی لانڈرینگ کیس ایک طرف ، اب پاناما لیکس میں بھی بینظیر بھٹو اور اُس کے قریبی ساتھیوں کے آف شور اکاونٹس ہونے کے بارے میں انکشاف ہوا ہے۔ یہ نہ صرف حکمران بلکہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کیلئے بھی ایک دوسرا چیلنج بن چُکا ہے۔

آئی ایم ایف کے ایک اندازے کے مطابق ہر سال ترقی پذیر ممالک سے 200 بیلین ڈا لر ’ آف شور‘ منتقل کیاجاتا ہے ، اور اِس حساب سے اگر پاکستان کے حصے کا اندازہ لگایا جائے تو یہ تقریباً 3 بیلین ڈالر سے 6 بیلین ڈالر تک ہوسکتا ہے۔ اب یہ بھی قابل تعریف بات ہے کہ ویکی لیکس کے بعد پاناما لیکس تفتیشی صحافت کی ایک کامیابی ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق 80 ممالک سے 107میڈیا کے تنظیموں کے ساتھ کام کرنے والے 400 صحافی یہ انکشافات کو منظر عام پر لائے ہیں۔

میں کم ازکم ’کنسپریسی تھیوریز ‘ پر یقین نہیں رکھتا اِسلیئے میرے ذہین میں بلکہ ہر کسی کے ذہین میں یہ سوال تو اُٹھتا ہوگا کہ آیا ملک سے باہر پیسے رکھنا قانونی اعتبار سے غیرقانونی ہے؟اِس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کوئی بھی اپنا جائز دولت ملک کے اندر اور باہر رکھ سکتا ہے۔ اب اِس یہ سوال یہ اُٹھتا ہے گوکہ پاکستان کو ٹیکس ادا کرنے کے حوالے سے ’’ٹیکس فرینڈلی‘‘ ملک کہاجاتا ہے ، لیکن لوگ پیسے پھر بھی ملک سے باہر کیوں رکھتے ہیں؟۔ اگر یہ دولت جائز ہے تو یہ خفیہ اکاونٹس میں کیوں ہیں ؟ا ور اگر نہیں ہے ، تو اُن کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ نہ صر ف پاکستان بلکہ پوری دُنیا میں ٹیکس evasion غیرقانونی عمل اور ٹیکسaviodance اخلاقی جر م ہوسکتا ہے تو یہ کس دائرے میں آجاتے ہیں۔ گوکہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں پھر بھی یہ اصطلاحات تعریف اور نوعیت کے حوالے سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں؟

بہرحال ، لکھنے کا وجہ تسمیہ پانا ما لیکس ۔ ٹیکس ادا کرنا ہر شہر ی کا فرض ہوتا ہے ، ٹیکس کی ادائیگی اور وصولی ’ ڈائریکٹ ‘ او ر ’ انڈایریکٹ‘ ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں ہر شہری indirect tax کی مد میں زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے ۔ معاشی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں غربت کی تعریف کے حوالے سے ماہرین کے خدشات ہیں کہ جسطرح غربت کے انڈیکیٹرز کے تحت غربت کو ماپا جاتا ہے !پھر بھی یو این ڈی پی کے 2004 کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں58.7 ملین لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زند گی گزار رہے ہیں ، ( اور اُس کی روزانہ کمائی 1.25ڈالر سے کم ہو وہ غربت کی لکیر سے نیچے آجاتی ہے) یعنی تقریباً 120روپے سے کم آمدنی والا 200 ملین کی آبادی میں اِتنی زیادہ لوگ؟ اب پاکستان میں 95 فیصدتک لوگ زیادہ غریب ہیں جوکہ انڈائریکٹ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اِس صورت میں بھی ٹیکس کا زیادہ بوجھ غریب طبقے کے اُوپر آجاتا ہے۔

ایک دوسرے اندازے کے مطابق حکمران طبقہ اور اشرافیہ کا 70 فیصد انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 116(2)سے انحراف کرنیکا رپورٹ بھی آیا ہے۔ ایک طرف پاکستان میں جی ڈی پی (GDP) کے تناسب سے ٹیکس کی ادائیگی 11فیصد ہے جوکہ مزید پریشانی کا باعث ہے ، اور دوسری طرف اب پاناما لیکس نے غریب طبقے کا کمر مزید توڑ دیاہے کہ جو ٹیکس وہ ادا کررہے ہیں وہ کہاں جارہا ہے ؟

اب وقت ہی بتائے گا کہ مزید پاناما لیکس کے حوالے سے کیا انکشافات ہوسکتے ہیں۔ سیاسی تناظر میں یہ وزیر اعظم کی وقعت کو عوام میں بہت متاثر کرتی ہے،حکومت کے لئے مسائل مزید زیادہ کرسکتی ہے ، اور اپوزیشن کیلئے سیاسی موقع فراہم کرتی ہے تاکہ حکومت کی سیاسی کھال اُتار سکے ۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ایک غیر جانب دار اِدارے یا کمیشن کے ذریعے تفتیش اِس مسلئے کو حل کرسکتی ہے ،اور لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات اور بے یقینی کو ختم کر ہو سکتی ہے۔ پاناما لیکس پر رپورٹ اُس وقت تک قوی نہیں ہو سکتاجب تک اُس اِدارے یا کمیشن کا ٹیم اپوزیشن کو قابل قبول نہ ہو، اور موجودہ دور کے جدید سائنسی طریقے سے الزامات کی چھان بین نہ کی جائے۔ حکمران جماعت اور دوسرے حضرات پر پاناما لیکس کا الزام اُن کی سیاسی اثر رسوخ اور شخصیت قانونی اور اِخلاقی لحاظ سے سوالیہ بنا دیتی ہے، جب تک اُس کا مکمل تفتیش ہوکر وہ منظر عام پر لا نہ جائے۔ اِس تفتیش کا ملک میں غریب طبقے کو یہ یقین ہوگا کہ اُن کے کمر میںindirect tax کا بھاری جو بوجھ ہے وہ ملک سے باہر لے جاکر کوئی کاروبار یا بینک اکاونٹ نہیں بنارہا، اور عوا م کے ذہین میں حکمران طبقے کے کرپشن اور بد دیانتی کے حوالے سے بے یقینی بھی ختم ہوسکتی ہے۔ اور پاناما لیکس کا الزام جس کسی کے اُوپر لگا ہے وہ اُس وقت تک حالیہ ریلیز ہونے والا طاہر شاہ کاانگریزی گانا سننے کا اہل نہیں ہوسکتا کہ(اُردو ترجمہ) ’’فرشتہ ، اِنسانیت کا فرشتہ ۔میں ایک فرشتہ کی طرح ہوں، اِنسانیت کا فرشتہ۔ میرا دِل ایک گلاب کی طرح ہے، اِنسان کا روح، اللہ کی بہترین تخلیق‘‘۔!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button