زین العابدین (مرحوم) میری والدہ کے بڑے بھائی تھے۔ میری والدہسمیت اپنے تمام بہن بھائیوں کے ساتھ آپ کی محبت پدارانہ و مادرانہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہم سب آپ کو ’’ اَبا جی‘‘ کہتے تھے ۔ہمارے تمام دوست احباب بھی ہماری زبان سے سن سن کر آپ کو ’’ ابا جی ‘‘ نام سے مخاطب کرتے تھے۔آپ کو اس دنیا میں کسی سے بُغض، کینہ اور نفرت نہ تھی بلکہ سب کی طرف آپ کی محبت کا ہاتھ ہی بڑھتا ۔محبت بھی ایسی دیتے تھے جوکہ بالکل خالص ہوتی تھی ۔ انسان تو انسان جانوروں سے بھی جنون کی حد تک محبت کرتے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ہم کسی کے یہاں مہماں ٹھہرے ۔ میزان ہمارے پاس آیا اور کھانے کی ترتیب بتاتے ہوئے کہا کہ گوشت کونسا پکایا جائے ؟ ابا جی نے فرمایا ’’ بیٹا میرے نام پر کسی جانور کو ذبح نہ کیا جائے ۔اگر ہو سکتا ہے تو ہمارے لئے نمکین چائے کے ساتھ چپاتی تیار کیجئے گا ‘‘ ۔ آپکہتے تھے کہ آپ کی پودوں اور درختوں سے بھی انسانوں کے ساتھ دوستی کی طرح دوستی اور اُنس تھی ۔ لاہور میں جہاں آپ رہائش پذیر تھے وہاں تین درخت ایسے تھے جن کے ساتھ اپنی دوستی کا حق نبھاتے ہوئے ابا جی ہر صبح سویرے پو پھٹنے سے پہلے اُ ن درختوں سے ملنے جاتے ، اُنہیں سلام کرتے اور اُن سے باقاعدہ طور پر مصافحہ کرتے اُ ن میں سے ایک درخت ایسا ہے جس سے آپ گلے ملتے تھے اوراُس پرلگاکے تھوڑی دیر کے لئے لمبی سانسیں لیتے تھے اور ایک کی شاخوں کو پکڑ کے تھوڑی دیر کے لئے جھولا جھولتے تھے ۔ آپ سے ملنے جو بھی لاہور جاتا تو اباجی اپنے بے جان دوستوں کا تعارف ہر ایک سے ضرور کراتے تھے اور بڑے وثوق سے کہتے کہ یہ درخت بے جان نہیں ہیں بلکہ ان کے اندر ایک الگ طرز زندگی ہے اور الگ احساس ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ میرے ننھیال میں ایک کمرہ تھا جسے عقاب کا گھر ( بزبارو ختان ) کہتے تھے ۔ ابا جی کو کہیں راستے میں ایک زخمی عقاب ملا تھا ۔ آپ نے وہ عقاب پکڑ کے احتیاط سے گھر لا یا اور ایک کمرے میں اُس بے بال و پر پرندے کو رکھ کر اُ س کا علاج شروع کیا ۔ تین چار مہینے گزرنے کے بعد عقاب رو بہ صحت ہوا اور اُ ڑان بھرنے کے قابل ہوا ۔ایک دن خاص اہتمام کیا گیا اور عقاب کی ٹانگ میں اپنے گھر کی یاد گار نشانی کے طور پر چمڑے کی ایک ہلکیپٹی باندھی گئی یوں تالیوں کی گونج میں عقاب کو آزاد فضاؤں میں چھوڑ دیا گیا۔عقاب قلابازیاں کھاتے ہوئے فضأ کی وسعتوں میں دھیرے دھیرے غائب ہو گیا۔ ابا جی اپنی زندگی کی خوشیوں میں ایک اہم اور دلی خوشی اس واقعے کو سمجھتے تھے ۔ اُس پرندے کو ابا جی نے اپنی اولاد کا پیار دیا تھا ۔ ایک دن ابا جی کسی اور ہم رکاب کے ساتھ کہیں جارہے تھے تو پہاڑی کے دامن میں چشمے کے پانی کے لئے ابھی جھک ہی رہے تھے کہ وہی عقاب شور مچاتے ہوئے آپ کے ساتھ ہی زمین پر اُترا اور جیسے ہی ابا جی آگیچلنا شروع کیا تو وہ عقاب بھی دور تک آپ کے اوپر فضاء میں اُڑان بھرتا رہا ۔ اب آپ سب کو اندازہ ہوا ہوگا کہ یہ فرشتہ صفت آدمی انسانوں سے کتنا پیار کرتا ہوگا؟
ابّاجی سب کے دوست تھے ۔ہر قماش اور ہر عمر کے لوگوں سے اُن کی ذہنی اسحاط کے مطابق دوستی کرتے تھے اور اُس دوستی کو ہر حال میں نبھاتے تھے ۔میں گلگت میں تھا تو میرے موبائل میں ابّاجی کے تقریباً دس ٹیلی فون کالوں کا ریکارڈ موجود تھا ۔ مجھے جیسے ہی فراغت ہوئی تو میں نے اباجی کو فون کیا ۔ ابا جی بڑے پریشان تھے ، مجھے انتہائی تاکید کرتے ہوئے چترال سے گلگت کی طرف آئے ہوئے جزوی طور پر ایک معذور شخص کے بارے میں بتا یا کہ وہ اباجی کا بہت ہی خاص دوست ہے اور وہ کسی کام سے گلگت وارد ہوا ہے لہذا اُ س شخص کے بارے میں فوری طور پر معلومات کی جائیں اور اُسے جس کسی بھی طرح کی مدد مطلوب ہو ،کی جائے ۔ لیکن جس بات کے حوالے سے اُنہوں نے بار بار اور بار دیگر سخت تاکید کی وہ یہ تھی کہیں گلگت بازار میں کوئی اُسے تنگ نہ کرے یا وہ کہیں راستہ بھول نہ جائے گا ۔ اباجی نے اُس دن مجھے پندرہ فوں کالز کیں اور اپنے حکم کی تعمیل تک اُسے سکون نہ آیا ۔
مضبوط قویٰ اور حیران کن قّوت ارادی کے مالک شخص تھے۔جنرل ضیأ کے دور میں بم دھماکوں کا ایک نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔ ابّاجی کے سب سے بڑاے صاحبزادے ( شہید ) عمران اُس زمانے میں چترال کے سب سے پہلے باقاعدہ سندیافتہ صحافی تھے ۔ سوات میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ایک دہشت ناک بم دھماکے میں شہید ہوے۔ ابّا جی پشاور میں تھے ۔ اباجی کو بتایا گیا اور یوں اباجی دو دوستوں کی معیت میں مینگورہ سوات روانہ ہوئے۔ عمران ( شہید ) کا پورا جسم مسخ ہو چکا تھا ۔ سوات میں موجود چترالی بھائیوں نے عمران کے جسم کے شکستہ ٹکڑوں کو بمشکل جمع کرکے ایک چادر میں لپیٹ کے تابوت میں رکھا ہوا تھا ۔( یہ کہانی اِسی سال فروری 2016 ء میں ابّا جی نے خود اپنی زبانی مجھے سنائی تھی ) اباجی کا جگر پارہ پارہ ہو چکا تھا لیکن اپنے آپ کو اتنا سنبھالا ہوا تھا کہ جب سوات پہنچے تو آ پ کی ہمت اور جرأت دیکھ کر سب حیران رہ گئے ۔ عمران شہید کا تابوت باہر رکھا ہو تھا ۔ اَبّا جی اپنے جگر گوشے کی جسد خاکی کی طرف نہیں گئے بلکہ پہلے اُن غم خوار لوگوں کے پاس گئے جنہوں نے آپ کے بیٹے کے ٹکڑوں کو جمع کیا تھا ۔ انتہائی خلوص کے ساتھ سب کا الگ الگ شکریہ ادا کیا۔ پھر بولے کہ یہ اللہ کی مرضی تھی کہ میرے بچے کو اسی جگہ شہادت نصیبب ہونی تھی لہٰذا اب ہم معمول کے مطابق کام کریں گے ۔ کسی کو بھی پریشان یا غمزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔
ابّا جی بتاتے تھے کہ سوات میں موجود تمام لوگ سہم گئے تھے کہ یہ صاحب تابوت کے پاس جاکر بیٹے کو دیکھنے کی کوشش کریں گے اور جب اُنہیں خون میں لت پت ،ہڈیوں سے الگ گوشت کے لوتھڑے ملیں گے تب کیا ہوگا ؟ لیکن اَّباجی کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ ہمت اور ظرف عطا ء فرمایا تھا۔ ابّا جی نے بتایا کہ یہ لوگوں کی خام خیالی تھی کیوں کہ مجھے پتہ تھا کہ میرا بچہ بس کے اندر بیٹھا تھا اور بس کے اندر دھماکہ ہوا تھا ، اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اُن شہیدوں میں کسی کا جسم سلامت ہو ۔ ابّا جی فرماتیتھے کہ اُنہوں نے وہاں موجود خویش و اقارب کا یہ خیال بھانپلیا لہذا انہوں نے بڑے صبر اور استقامت سے تمام لوگوں کو مخاطب کرکے کہا ’’یہاں اگر کوئی چائے کھانے کا بندوبست ہے تو آپ سب لوگ چائے پی لو اِس کے بعد ہم اپنے بیٹے کی لاش لیکر یہاں سے روانہ ہوں گے‘‘ ۔ یہاں موجود لوگوں کی عجیب کیفیت تھی اُن سب کا منہ نہیں کھلتا تھا۔ ابّا جی نے دوبارہ سب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’ میرے دوستو اگر کوئی چائے چپاتی ہے تو وہ لے آؤ ! ‘‘ جب چائے لائی گئی تو ابّاجی نے بسم اللہ کرکے سب سے پہلے چائے کی ایک گھونٹ پی لی۔ چائے کے بعد بیٹے کی لاش کی جانب جب روانہ ہوئے تو کچھ لوگوں نے اُنہیں روکنے کی کوشش کی ۔ ابّا جی نے اُن لوگوں سے کہا ’’ مجھے معلوم ہے کہ آپ مجھے کیوں روک رہے ہیں؟ ۔ مجھے اپنے بچے سے ملنے دیجئے مجھے اللہ نے بہت ہمت دی ہے میں ایک بہادر آدمی ہوں ‘‘ اَبّا جی کہتے تھے کہ وہ تابوت تک گئے تابوت کو کھولا تو تابوت کے اندر عمران شہیدکے چہرے کی تو بمشکل پہچان ہوتی تھی لیکن باقی جسم بم سے چھلنی ہو چکا تھا ۔ اَبّا جی بتاتے تھے کہ اُنہوں نے اپنے جگر گوشے سے رابطے کی انوکھی کوشش کی ۔اپنے دونوں ہاتھ اپنے بچے کے چھلنی بدن پر دھیرے دھیرے پھیرنے لگے۔ یوں ہاتھ میں گوشت کے ٹکڑے اور ٹوٹی ہڈیوں کی لمس سے ایک رابطہ سا ہو گیا ایک ملاقات سی ہو گئی ۔اَبّا جی کہتے تھے کہ وہ ایک طرف اپنے بچے کے شکستہ بدن کے گوشت اور ہڈیوں کو چھو رہے تھے اور دوسری طرف اپنے پروردگار سے گڑ گڑا کر صبرو اور شکر کی دعائیں مانگ رہے تھے ۔
میرے ساتھ اَبا جی کی دوستی دوسروں سے قدرے مختلف تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تمام دوستوں سے اَباجی کی دوستی کا اپنا انداز تھا ۔مجھے وہ گلگت بلتستان میں اپنے دوستوں اور اقربأ سےوقتاًً فوقتاً ملنے اُنہیں سلام کرنے اور اُن کے حال احوال پوچھنے کی زمہ داری سونپی تھی۔ مجھے عجیب و غریب لوگوں سے ملنا پڑتا تھا ۔ آپ کے دوستوں میں غریب سے غریب ترین آدمی بھی ہوتا اور امیر سے امیر ترین ادمی بھی ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ہم سب بے بال و پر ہیں ۔ شفقت، محبت، ہمدردی، غم خواری کا ایک ہی سایہ تھا بس اُٹھ گیا۔ اب صرف ایک احساس ہے وہ یہ کہ دیوار سے اک کھنچی ہوئی ہے اور اُس کا کوئی سرا نہیں ہے ۔