کالمز

ارندو میلہ

ظہیر الدین

ضلع چترال کے انتہائی جنوب میں واقع ارندو ویلج کونسل کا نام جب لیا جاتا ہے تو ذہن میں ایک ایسے علاقے کی تصویر ابھرتی ہے جہاں افغانستان کی سرزمین سے فائرنگ ہورہی ہو اور اس وجہ سے امن وسکون شایدڈھونڈنے سے ملتاہواور اس علاقے میں کھیل و ثقافت کی سرگرمیوں کے حوالے سے خبریں سننے کو کبھی نہیں ملے لیکن گزشتہ ماہ ارندو میلہ کے حوالے سے خبر نے اہالیان چترال کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا جوکہ ایک ماہ تک جاری رہنے اور رنگینیاں بکھیرنے اور علاقے کے بارے میں منفی تاثرات کو مٹانے سمیت نئی نوجوان نسل کے دلوں میں دشمنی کی بجائے محبت اور امید کی دیا روشن کرنے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی ۔ پاک افغان سرحد پر واقع اس علاقے اور افغانستان کے صوبہ کنڑکے درمیاں دریائے چترال واقع ہے جواس مقام پر افغانستان میں داخل ہونے کے بعد پشاور کے قریب ورسک کے مقام پر دوبارہ پاکستان میں داخل ہوتی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ارندو کی اپنی جگہ ایک تاریخی اور ثقافتی وتہذیبی حیثیت ہے لیکن اسے دنیاکے سامنے پیش کرنے اور ا س علاقے کے بارے میں ایک مثبت اور حوصلہ افزا پیغام دنیاکو دینے کا سہرا اس علاقے کی ایک فلاحی تنظیم القلم ویلفیئر آرگنائزیشن کے سر ہے جسے علاقے کے نوجوان چلارہے ہیں جوکہ حالات کے دھارے کو مثبت رخ میں بدلنے کا تہیہ کرچکے ہیں اور انہیں تاریخ میں پہلی بار اس سنگلاخ چٹانوں کی وادی ارندومیں میلہ منعقد کرنے کی ہمت صوبہ خیبر پختونخوا کے کلچرل ڈیپارٹمنٹ نے دلادی جس نے زہ یم پختونخوا کے پراجیکٹ (مقامی ثقافتی ورثے کی احیاء) کے تحت اس میلے کے لئے مالی معاونت مہیا کرکے بذات خود ایک تاریخ رقم کی۔ القلم ویلفیئر آرگنائزیشن کے صدر حیات محمد خان کاکہنا ہے کہ جب وہ میلے کے انعقاد کی خبر لے کر ارندو پہنچے تو مقامی عوام اور خصوصاً طبقے کی خوشی اورمسرت دیدنی تھی جوکہ اس علاقے میں امن وآشتی کو پروان چڑہانے اور کھیلوں کے ذریعے صحت مند سرگرمیوں کا فروع چاہتے تھے ۔ اس میلے میں جدید کھیلوں کے ساتھ ساتھ ذیادہ تر لوک کھیلوں ، لوک موسیقی اور لوک قصہ گوئی کے پروگرامات شامل کئے گئے جوکہ شرکاء کی دلچسپی کا سامان بنے رہے جس کی وجہ شایدیہ ہے کہ یہ تمام زمانہ جدید کی آمد کے ساتھ لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوتے جارہے تھے۔ فروری کی 15تاریخ سے شروع ہونے والے کھیلوں کے ان مقابلوں کو شاید قدرت کی تائید وحمایت بھی حاصل تھی کہ بارشوں کا موسم ہونے کے باوجود موسم انتہائی سازگار رہا ۔ آلوچ، کھرسئے اور ٹونگہ چالئیک وہ لوک کھیل ہیں جوکہ علاقے میں انتہائی مقبول ہیں جن میں چھوٹوں، بڑوں اور جوانوں میں یکساں طورپرحصہ لیتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ کھیل ذیادہ عرصے پر محیط رہے اور آلوچ کھیل کے مقابلے 15سے 28فروری تک، کھرسئے 22سے 26مارچ اور ٹونگہ چالئیک 27تا 29مارچ تک جاری رہے ۔ نوجوانوں کو خصوصی طور پر ان کھیلوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششیں دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا اور ان میں روایتی جوش وخروش اور مختلف گاؤں کے تماشائی اپنے اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے جمع ہوکر داد دینا وہ عمل تھا جو اس علاقے میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ صبح سے شام تک جاری رہنے والے میلے میں شرکت کے لئے مختلف پہاڑی راستوں پر آنے والوں کی لمبی لمبی قطاریں سرحد پار افغانستان میں رہنے والوں کے دلوں میں بھی جینے کی تمناکو جگانے میں شاید مددگار ثابت ہو ا ہوگا۔ 10مارچ کے دن میلے میں کلچرل جرگہ اپنی نوعیت کا وہ دل موہ لینے والاپروگرام تھا جس میں علاقے کے بڑے اور بزرگ لوک کہانیاں سنانے ، علاقے کی مخصوص تاریخی واقعات کے بارے میں قصہ گوئی ، لوک کہانیاں بیاں کرنا شامل ہوتے تھے ۔ فرزند ارندو اور گزشتہ چوالیس سالوں سے علاقے میں درس وتدریس کے ذریعے جہالت کی تاریکیوں سے نبردازما مجاہد ملا ادینہ شاہ اور دوسرے زغماء نے اپنے مخصوص طرز بیان کے ذریعے تاریخی واقعات کا تذکرہ نوجوانوں کا خون گرما نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس میلے میں کھیل کود کے ساتھ ساتھ سکول کے طلباء کو ان کی عظیم تاریخی ورثے سے روشناس کرانے کا پروگرام بھی شامل تھا جس میں مقامی ہائی سکول میں پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس کے لئے 31مارچ کادن مقرر تھا اور طلباء ہمہ تن گوش ہوکر نہایت جوش وخروش سے پروگرام کے ایک ایک لفظ کو سینے میں اتارتے ہوئے دیکھے گئے۔ کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہے اور اسی اہمیت کے پیش نظر میلہ کے انتظامیہ نے جوانوں کے لئے دوروزہ ٹور کا پروگرام ترتیب دیا تھا جس میں انہوں نے 19اور 20مارچ کو چترال شہر میں واقع عجائب گھر، خاندان کٹوریہ سے تعلق رکھنے والے مہتران چترال کی گرمائی دارلحکومت برموغ لشٹ ، سنگور اور نواح میں آثار قدیمہ اور قدیم تہذیب وتمدن کے لئے مشہور کالاش وادی بمبوریت اور جنت ارضی ایون گاؤں کی سیر کرائی گئی۔لوک موسیقی میں عبدالمنان ، سردار ٹکا خان اور اعظم خان نے اپنے فن کے جادو سے حاضریں کو مسحو رکرکے رکھ دیا۔مختلف کھیلوں اور پروگرامات میں انعامات دلانے کے لئے علاقے کے مغززیں اور فوجی وسول افسران کو دعوت دی گئی تھی جن میں پاک آرمی کے سیکٹر کمانڈر میجر کاشف، ویلج ناظم محراب گل، ہیڈماسٹر ملا ادینہ شاہ اور دوسرے شامل تھے ۔ القلم ویلفیئر آرگنائزیشن نے اس میلے کی انعقاد کے لئے صدر حیات محمد خان ، جنرل سیکرٹری فضل اکبر، جائنٹ سیکرٹری انعام الرحمن اور عظمت اللہ خزانچی کے علاوہ علاقے کے معززین پر مشتمل کمیٹی میلے کی انتظامات کی سپرویژن کررہے تھے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اگر صوبائی حکومت کے کلچرل ڈائرکٹوریٹ کی سرپرستی کاسلسلہ جاری رہاتو ارندو میلہ بین الاقوامی شہرت کے حامل شندور میلہ کے بعد دوسرے نمبر پر اہمیت اختیار کرجائے گی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button