کالمز

قدرتی آفات اور ہمارا کردار 

تحریر:اسلم چلاسی

جب گناہ سر چڑھ کر بولتا ہے تو قدرت غافل انسانیت کو غفلت سے بیدار کرنے کیلئے مصائب الام کی ایسی آزمائش میں ڈالتی ہے ۔انسان کو اپنے اعمال و کردار پر نظر ثانی کا موقع میسر آتا ہے ۔انسان ہے کہ بہتری کی طرف آنے کی بجائے عذاب الہیٰ کو دعوت دینے کا موجب بنتا ہے ۔اپنے اعمال کا موازینہ کرنے کے بجائے وہی حرام خوری کے راستے پر بھاگتا ہوا چلا جا تا ہے ۔ایک عام مزدور ،چرواہا ،ریڑھی بان سے لیکر اقتدار کے مسند پر براجمان ہر شخص دوسروں کے حقوق پر شب خون مارنے کیلئے تاک میں بیٹھا ہوا ہے ۔ہر شخص ریاست پر اپنے حقوق جتانے کی بات کرتا ہے ۔مشرق کی آخری کونے میں بیٹھ کر مغرب کی ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دے دے کر ریاست اور ریاستی اداروں کے ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے ۔اپنے ملک اور قانون کو زمانہ جہل کی باقیا ت تصور کرنے والا احمق اپنے گریباں کو نہیں جھانکتا ہے ۔بحیثیت شہری ان کے کتنے فرائض ہیں ؟جنتا حقوق کی مطالبہ کرتا ہے اتنا اپنی ذمہ داری بھی نبھاتا ہے یا نہیں ؟یقیناًہر گز نہیں ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال دھن کمانے کا روایت ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ایک روپے کا ٹیکس ہم دیتے نہیں ہیں ہر چیز میں سبسڈی ضرور مانگتے ہیں ۔جب بھی ہمارے برے اعمال کا صلہ عذاب الہیٰ کی صورت میں آتا ہے تو ہم فوراً ریاستی اداروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔الزامات ایسے لگا دیتے ہے کہ سارے عذاب حکومتوں کی طرف سے نازل کر دہ ہوں ۔چوک چوراہوں ،گلی ،کوچوں میں تحریر و تقریر کے ذریعے حکومت اور انتظامیہ کیخلاف حد درجے کا ہرزہ سرائی ہم سے سرزد ہوتی ہے ۔جو شخص نیک نیتی سے کام کر تا ہے جذبہ اور حب الوطنی کا ثبوت دیتا ہے اس کا بھی ہم حوصلہ شکنی کر دیتے ہیں ۔وہ بھی سمجھتا ہے کہ الزام ویسے بھی لگنے ہیں لہذا وقت گزاری کرو ۔

اگر ہم بحیثیت قوم اپنے فرائض کو بجا لائے تو یقیناًہم ہر مشکل کا مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہم دوسروں پر تنقید کرنے والے قوم ہیں خود تو ٹھیک نہیں دوسروں کو ٹھیک کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔اپنے گریباں کو جھاکنا اپنی اصلاح کرنا ہمارے اندر روایتی طور پر موجود نہیں اگر کھلی آنکھو ں سے دیکھا جائے تو حکومت اور انتظامیہ سے زیادہ ہم خد اس تمام تر ابتری کے ذمہ دار ہیں ۔یہ قدرتی آفاتیں جو ہمارے تباہی کے سبب بن رہے ہیں یہ سب ہمارے برے اعمال کا نتیجہ ہے ۔آج اگر اہم قدرت کے بد ترین عذاب کا سامنا کر رہے ہیں تو یہ سب ہمارے وہ کر توت ہیں جو دیکھائی نہیں دیتے ۔وہ کونسا فعل ہے جو ہم سے سر زد نہیں ہو تا ہے ۔عذاب الہیٰ کے امد کے ساتھ ہمارے ذخیرہ اندوزی شروع ہوتا ہے خد ساختہ مہنگائی اور بد ترین قحط کا موجب ہم حضرت عوام ہی بنتے ہیں ۔دیکھتے ہی دیکھتے ہم ایک دوسروں کے کھال اتارنے میں لگے رہتے ہیں اور ہم ہی مارکیٹ سے اشیاء ضروریہ کو غائب کر دیتے ہیں اور طلب شدت سے پڑجاتی ہے تو ہم اسی مال کو واپس مارکیٹ میں لا کر سود در سود کا کمایا ہوا مال کو رزق حلال کا نام دیتے ہیں ۔مرغی کا انڈہ ٹوٹتا نہیں ہے ہم نقصان میں بھینس کا بچہ لکھ لیتے ہیں تا کہ حکومت سے معاوضہ حاصل کر سکے ۔گھر کا ایک اینٹ ہلتا نہیں ہے مکان کو زمین بوس لکھوا دیتے ہیں ۔نقصان پڑوسی کا ہو تا ہے معاوضہ ہم اپنے نام پر بنواتے ہیں ۔مکان صحیح سلامت ہو تا ہے مگر ریلیف کا ٹینٹ حاصل کرنے میں سبقت لے جاتے ہیں ایک کے بجائے چار چار ٹینٹ اصول کرتے ہیں اور واپسی ان لوگوں کو ہزاروں روپے میں فروخت کرتے ہیں جن کا مکان گرا ہے وہ کھلے آسمان تلے زندگی کے تلخ دن گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔امدادی اشیاء تقسیم ہو تو متاثرین سے زیادہ ہم ہی امداد حاصل کرتے ہیں ۔جن کا نقصان ہو تا ہے وہ اپنے مکانات کے ملبہ ہٹانے میں مصروف ہوتے ہیں جبکہ ہم بغیر متاثر ہوئے مفت خوری سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔نقصان ایک ٹیکہ کا بھی نہیں ہو تا ہے شور اتنا مچا دیتے ہے کہ زمین و آسمان ایک کر دیتے ہیں ۔جس سے حکومت کا بھی نیت خراب ہو تا ہے اچھی نیت سے کام کرنے کا شوق رکھنے والے ایماندار لوگ بد دل ہو کر کام کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں ۔جس سے اصل حقداروں کو بھی ان کا حق نہیں ملتا ہے ۔ہم اپنے نیتوں کے ساتھ کے ساتھ غریبوں کے حقوق کی حصول کو خراب کر دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال آنے والے تباہ کن سیلابوں سے کئی انسانی جانیں ضائع ہو گئے ۔لوگوں کے مکانات زمین بوس ہو ئے سینکڑوں ہزار کسانوں کے فصلیں خراب ہو گئے مگر ایک سال گزرنے کے باوجود ان کو بھی معاوضہ نہیں ملا۔

اگر ہم بے جا حقوق جتانے کے بجائے ان متاثرہ خاندانوں کے حقوق کی حصولی کی بات کرتے تو یقیناًوہ لوگ آج اپنے پاؤں پر کھڑے ہو تے ۔ہمیں دوسروں کو کافر قرار دینے کی بجائے کفر کا خیال رہنا چاہئے اور حالیہ بارشوں سے گلگت بلتستان میں سے زیادہ نقصان دیامر میں ہوا ہے جہاں ایک درجن سے زیادہ انسانی جانوں کا نقصان ہوا سینکڑوں مویشیاں ہلاک ہو گئے بے شمار مکانات منہدم ہو گئے بالائی علاقوں کے زمینی راستہ اب بھی منقطع ہے سینکڑوں لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔کسانوں کی فصلیں تباہ ہو چکے ہیں ۔اب بھی علاقے میں قحط کا سماں ہے اشیاء خوردونوش کی قلت ہے ۔یقیناًحکومت کو آنکھیں کھول کر متاثرین کی مدد کرنے کی ضرورت ہے ۔تمام نقصانات کا ازالہ تو ممکن نہیں ہے البتہ حکومت کا دست شفقت بہت لازمی ہے تا کہ عوام کا اعتماد بحال رہے اور آئندہ عوامی سطح پر حوصلہ پیدا ہو ۔عوام کو انتظامیہ سے بڑی شکایتیں ہیں انتظامی ذمہ داروں کو ابھی اپنے فرائض منصبی کے ساتھ انصاف کرنے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر ہمیں اپنے گریبانوں میں زیادہ جھانکنا چاہئے حکومت اور انتظامیہ کی کمی کوتاہی اپنی جگہ لیکن ہمیں اپنی اصلاح کی اشد ضرورت ہے ۔ہم اس وقت تک ایک بہترین قوم کے صف میں شامل نہیں ہو سکتے جب تک ہم اپنے ظاہر باطن اور اعمال کو درست نہ کریں اور بحیثیت مسلمان ہمیں چاہئے کہ ہم اتنا ہی اپنے حقوق کی مطالبہ کریں جتنا ہم اپنے فرائض ادا کرتے ہیں ۔حلال اور حرام کی فرق واضح کر کے چلے تو یقیناًآسانی ہو گی ۔بلا تفریق پیٹ کی جہنم کو بھرے رہے تو عذاب الہیٰ یقینی ہے اپنے گناہوں پر مذامت کر کے اپنے اعمال و افعال کو درست کرنی چاہئے دوسروں کو ٹھیک کرنے کے بجائے اپنے آپکو کو ٹھیک کریں تو یقیناًقدرت ہم پر مہربان ہو گی اور ہم عذاب الہیٰ سے محفوظ رہیں گے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button