کالمز

اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے!

 محمد نذیر خان

اس پر تعجب نہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے وطن عزیز کے ایک تعلیمی ادارہ میں چند بنات حوا نے Sanitary napkins کا پھریرا لہرایا ، کیوںکہ جب وطن عزیز کے کوہ ودمن سے کھرچ کھرچ کر اسلام کو نکالا جائے گا ، تو یہی نتیجہ نکلے گا ، بلکہ تعجب اس پر ہے کہ کئی سارے تعلیم یافتہ خواتین وحضرات سوشل میڈیا پر اس گھناونی بے شرمی کی بھر پور وکالت کر رہے ہیں ، اور طرح طرح کی دلیلیں تراش رہے ہیں ۔

اس میں شک نہیں عورت کو ماہواری کا آنا ایک فطری امر ہے ، پیارے محمدرسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک زوجہ مطہرہ – رضی اللہ عنھا- کو – ماہواری کے آنے پر روتے دیکھا تو فرمایا ھا : ھٍذا کتب اللہ علی بنات آدم ۔۔ یہ ایک فطری چیز ہے ، ہر بنت حوا کا ایشو ہے ، (اس میں رونے کی کیا بات ہے ؟ ) ( صحیح بخاری کتاب الحج )

نیز اسلام میں دوران ماہواری مباشرت کے ساتھ کھانا پینا ، سونا ، سب تعلقات رکھنا جائز ہیں ، کسی فقیہ کسی عالم ، کسی مفتی نے اس کا انکار نہیں کیا ، مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کا اس پر اتفاق ہے َ اس پہ کسی کی برائی کی جاتی ہے اور نہ ہی کسی کو طعنہ دیاجاتا ہے ، مشہور محدث وفقیہ علامہ نووی لکھتے ہیں : دوران حیض ونفاس عورت کے ساتھ مباشرت کے سوا دیگر تمام تعلقات رکھنے کے جواز پر اھل علم کا اتفاق ہے ( شرح النووی علی المسلم )

باقی چونکہ عورت نام شرم وحیا ، اور پردہ کا ہے ، اور صنف نازک کی فطرت میں اللہ تعالی حیا رکھی ہے ، اس لئے جو لباس عورت سے منسوب ہو ، اس کو بھی اسی زاویہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آج بھی کئی علاقوں میں خواتین کا سینہ بند کالے یا خاکی لفافے میں ڈال کر دیا جاتا ہے ، اس لئے اس کو ہیروئن یا چرس سے تشبیہ دینا غلط ہے ، لیکن کچھ خواتین و حضرات کا اصرارہے کہ ماہواری کے دوران عورت کو اچھوت سمجھاجاتا ہے! یہ بات بالکل جھوٹ اور سراسر غلط ہے ، اگر ان کا پھر اصرار ہے کہ نہیں ایسا ہی سمجھاجاتا ہے توان سے کوئی پوچھے کہ ایسا کون سمجھ رہا ہے ؟ گھر والے ، والد ، بھائی یا کالج یونیورسٹی کے فیلوز ؟ اگر گھر والے ایسا سمجھ رہے ہیں تو احتجاج ان سے کیجئے جناب ، انہی کو سمجھائیے کہ ، اور یہ گندے چھیتڑے اور بریزئیر اپنے والد کے کپڑوں ، بھائی کی کتابوں والی الماری پہ لٹکایئے ، اور اگر اس احتجاج کو مزید ” نیشنل ” بنانا ہے ، تو گھر کی دیوار پہ لٹکائیے ، تاکہ محلہ والوں کو مشکل ان ناہنجاروں کے ساتھ ساتھ ”سائز” کا بھی پرپتہ چل جائے ! اور اگر آپ کو کالج ویونیورسٹیز کے ٹیچرزیا فیلوز اچھوت سمجھتے ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ ان کو آپ کی اتنی پرائیویٹ باتیں کون بتاتا ہے ؟!

بعض لوگوں کی حد سے چھلکتی شدت پسندی اور جدت پرستوں کی ایسی بے ہودہ حرکات دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ اس دیس کا مقدر انتہا پسندی ہی میں پنہاں ہے! بوکو حرام ، داعش ، حزب اللہ ، ٹی ٹی پی ایسی ہی حرکتوں کے ردعمل میں وجود پاتی ہیں۔

غالب نے کہا تھا

پی جس قدر ملے شبِ مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button