کالمز

اف رے یہ تنہائیاں

ہم بیٹھے تھے ابھی میں مغرب کی نماز پڑھ کے آیا تھا۔میں میری بیٹی،میرا بیٹا اور ان کی ماں۔۔۔ہم چار بندے تھے۔ہمارا گلشن ہمارا گھرانا چار بندوں پر مشتمل تھا۔ہم گپ شپ لگا سکتے تھے۔ہم دن بھر کی مصروفیات ایک دوسرے تک پہنچا سکتے تھے۔ہمارے بچے ہمیں ادب سے سن سکتے تھے۔وہ ہماری باتوں پہ دھیان دے سکتے تھے۔ہم ان کی حرکات و سکنات پر غور کر سکتے تھے۔ان کا لباس پوشاک بغور دیکھ سکتے تھے۔ہم والدیں ن تھے وہ بچے تھے۔ان کو ہماری تربیت کی ضرورت تھی۔ہم ایک دوسرے کی آنکھیں پڑھ سکتے تھے۔وہ ہماری آنکھوں میں اپنے لئے پیار اور شفقت ڈھونڈ سکتے تھے۔ہم ان کی آنکھوں میں اپنے لئے احترام تلاش کر سکتے تھے۔ایک محفل جم سکتی تھی۔میں میر محفل ہوتا۔ان کی ماں ملکہ محفل ہوتی۔ ہماراگھر ایک سلطنت ہوتا۔۔مگر ایسا نہیں ہوتا ہے۔ہم سب تنہا تھے۔۔۔بیٹا مسلسل میسچ کر رہا تھا۔بیٹی دونوں ہاتھوں سے کچھ لکھ رہی تھی۔ا ن کو میرے آنے کا پتہ تک نہیں ہوا۔میں نے نماز کے دوران محسوس کیا تھا۔کہ میرے موبائل میں کچھ میسچ آرہے ہیں ۔موبائل میری جیب میں ،،لرزہ براندام،،ہوئی تھی۔نماز کے دوران میں نے بار بار سوچا تھا۔کہ کاش کس نے رابط کیا ا ور کیا کہتا ہے۔۔۔میں دل میں امام سے بھی غصہ ہوا تھا۔کہ اتنی لمبی صورت پڑھتا ہے۔لوگوں کی مجبوریوں کا احساس نہیں ۔۔۔پھر میں نے جلدی جلدی دو رکعت پڑھ کرمسجد سے نکلا تھا۔۔اور آتے ہی آپنی سیٹ نکال کر میسج پڑھنے لگا تھا۔۔۔ایک نے لکھا تھا ۔۔۔ہیلو۔۔۔دوسرے نے لکھا تھا کہ ،،کیا پکایاہے،،تیسرے نے ایک شعر لکھا تھا۔۔۔تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے،،،،،،۔۔؟میں نے زیر لب واہ کہا ۔۔میری بیوی بار بار اور باری باری ہمیں تک رہی تھی۔اس کا دل مچل رہا تھا کہ کوئی اس سے بات کرے۔۔اس سے مخاطب ہو۔۔مگر یہاں پر سارے لبوں پہ مہر تھی۔میں نے شعر کا جواب بھی دیا۔۔۔۔واقعی یار کچھ نہیں رکھا۔۔۔پھر دل مچلا کہ،،آنکھیں،، پڑھوں ۔میرے سامنے دو بچوں اور ایک ماں کی آنکھیں تھیں ۔بچوں کی آنکھیں تو کچھ اور پڑھ رہی تھیں۔۔۔ما ں کی آنکھیں مجھے پڑھ رہی تھیں ۔ ان کی معصوم اور افسردہ آنکھوں میں شکایت تھی۔کہ یہ ،،تنہائیاں ،،کہاں سے آگئیں ۔۔ تم تو میرے سرتاج ہو۔یہ میرے جسم کے ٹکڑے ہیں ۔یہ گھر میری جنت ہے۔زندگی تو انس کا نام ہے ۔۔انجمن کا نام ہے۔محفل کا نام ہے۔۔میں تو تنہا ہوں اکیلی۔۔کیا مجھے حق نہیں کہ اپنے غم کا،،افسانہ،، تمہیں سناؤں ۔۔اپنی محبت کا اظہار الفاظ میں بیان کروں ۔۔تمہاری باہوں میں پناہ لوں ۔۔کیا مجھے حق نہیں کہ تمہارا ہاتھ اٹھا کر آنکھوں سے لگاؤں ۔۔۔تم تو آنکھیں پڑھا کرتے تھے۔۔تم تو مجھے اکیلے نہیں چھوڑتے تھے۔۔۔۔میں نے یہ سب پڑھ لی۔اور تڑپ اٹھا۔کہ میری ،،زندگی،، اکیلاپن محسوس کر رہی ہے۔۔وہ میرے سینے پہ سر رکھ کے شباب کے دن رات گزارا کرتی تھی۔ابھی تنہا ہے۔۔میں اس کی طرف توجہ کر ہی رہا تھا کہ میرے فون پہ میسج آیا۔میرے دل کو جھٹکا لگا۔جلدی میں نے میسج کھولا پڑھا۔میں نے جواب دینا شروع کیا۔پھر میسج پہ میسج لیتا رہا۔مجھے پتہ تک نہ چلا کہ عشاء کی اذان کب دی گئی۔وقفہ ہو اتو بیوی کی آواز سنائی دی۔۔۔،،یا اللہ کیا زمانا آگیا یا اللہ یہ لوگ کہاں کھو جاتے ہیں ۔مجھے بھی جھٹکا سا لگا۔میں نے پھر اس کی آنکھوں کو پڑھنا شروع کیا۔یہ اللہ کی بندی سچ کہتی ہے۔مجھے نماز پڑھنی ہے۔اس کی آنکھوں میں تنہائی درد اور تاسف تھا۔میں اٹھا ہی تھا کہ میسج آیا۔۔۔
تیری آنکھیں شراب مانگتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
کیا میکدے بھی جام پیتے ہیں۔۔
میں شعر کے سحر اور آنکھوں کے جادو میں کھو سا گیا۔پھر جب مجھے ہوش آیا تو دیکھاکہ میری بیوی سوئی ہوئی ہے۔بیٹی موبائل پہ گیم کھیل رہی ہے ا ور بیٹے کا پتہ نہیں ۔۔میں ہڑا بڑاکر باہر نکلا۔کہ مجھے نماز بھی پڑھنی ہے اور کھانا بھی کھانا ہے۔میں نے باورچی خانے میں چمچے کی کھنکھنے کی آواز سنی۔جھانک کے دیکھا تو میرا بیٹا کھانا گرم کر رہا تھا۔اس نے مجھے دیکھا نہیں کیونکہ وہ ایک ہاتھ سے کسی کو میسج لکھ رہاتھا۔اس کی اکھیاں موبائل پہ تھیں ۔میں نے سوچا کہ پہلے کھانا بیٹے کے ساتھ مل کے کھاؤں پھر نماز پڑھوں۔اتنے میں میسج آیا۔۔میں نے میسج کھولا بڑا مزیدار میسج تھا۔واپس کمرے میں آکر کمبل لپیٹ لیا۔اور جواب دینے لگا۔اتنے میں بیٹا میسج کرتے کرتے کمرے میں داخل ہوا۔بیٹی اٹھ کے باہر گئی۔وہ کھانا گرم کرکے کھانے کیلئے گئی۔میں نے دل میں کہا کہ عشا کی نماز قضا پڑونگا۔اور بیٹی کے بعد مجھے کھانے کی باریے گی بھی تو نہیں کھاؤں گا۔اس سردی میں کون کھانا گرم کرے۔۔۔اب جبکہ میسج کرنے میں مگن تھا تو موبائل کا چارچ ختم ہو گیا۔اس سے پہلے کہ نیند مجھے اپنی آغوش میں لیتی میں تنہائی کی شدت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button