کالمز

متاثرین کوہستان کی حسرت بھری نگاہیں اور وزیراعظم کا دورہ مانسہرہ

تحریر : شمس الرحمن کوہستانیؔ

یہ ٹھوس دلیل ہے کہ پہاڑوں میں بسنے والے لوگ واقعی جاں فشاں ، صابر ،ملنسار اور غیرت مند ہوتے ہیں ،جو اپنے غم کو پینے میں ذرا بھی دیرنہیں کرتے۔کہانی اُن لواحقین کی ہے جن کے پچیس پیار ے زندہ درگور ہوئے ، سیلاب کی بے رحم موجوں اور آسمانی بجلی زدہ پہاڑی تودے نے اپنے قہر کو جب پورے گاوں پر سمیٹا تو ہر ذی روح شے منوں مٹی تلے دب گئی اور چیخ و پکار کیلئے سوائے نظری نامی شخص کے کوئی نہ بچا وہ بھی خود کسی سرنگ کے سہارا لئے ’’جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے‘‘ کے مصداق بچت نکلے ۔نظری گاوں اتھور باڑی کندیا کے اُس بدقسمت خاندان کے سربراہ ہیں جن کے آٹھ بیٹے ، چار بیٹیاں ،ماں باپ اور بیوی ملبے تلے دب گئے جبکہ اُس کے تین بھائی زیگرون ، صفی اورسخی گاوں سے باہر ہونے کی وجہ سے بچ گئے جبکہ تین بھائیوں کے پیارے بھی اسی گاوں میں دب چکے تھے ۔ نظری کے مطابق جب سیلاب آیا تو انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا صرف دھواں ، کیچڑ اور پتھر ہی آرہے تھے اوراُن کے سر کے اوپر سے سلائیڈنگ گزررہی تھی ، دیکھتے ہی دیکھتے اُن کے گھرکے تمام افراد مکانات سمیت منہدم ہوئے اور گاوں کا نقشہ ایک پہاڑی تودے کی شکل میں بدل گیا۔ کچھ ذخمیوں کو تو نکالا گیا مگر ابتدائی طبی امداد کی عدم موجودگی کے باعث وہ رات بھر تڑپتے رہے دوسرے دن انہیں شہر داسو کمیلہ لایا گیا۔ حال پوچھنے سب سے پہلے پولیس اور بعدا زاں ضلعی انتظامیہ کے اہلکاران آئے ۔یہ کہانی اتھور باڑی کے اُن بہادر لوگوں کی ہے جن کا حوصلہ چٹان سے بلند دکھائی دے رہا تھا ، انہوں نے غم کو ایسے پیا کہ جیسے انہیں کچھ ہوا نہیں ۔ اصرار پر کہنے لگے کہ حکومت جب نام کی کوئی چیز نہ ہو تو انہیں اللہ کے علاوہ کسی کا سہارا نہیں چاہیے۔کوہستان کی ضلعی انتظامیہ ، علاقے سے رکن اسمبلی ستار خان اور مقامی خیراتی اداروں کی مدد کرنے پر لواحقین قدرے مطمئن اور خوش نظر آئے ۔۔۔۔۔۔

اب بات کریں اپنے عوامی میاں صاحب کی ۔۔۔۔۔ جن کی سیاست بھی کمال کی ہے ۔ایک طرف صوبہ خیبر پختونخواہ میں تباہ کن بارشوں اور سیلاب نے ہزارہ ڈویژن کے آخری اور پختونخواہ کے پسماندہ ضلع کوہستان کو سب سے زیادہ متاثر کیا اور صوبائی حکومت نے اسے آفت زدہ بھی قراردیا جس میں کل 41لوگ موت کے منہ میں چلے گئے ۔جن کی دلجوئی کیلئے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے علاوہ مرکزی حکومت کا کوئی وزیر مشیر نہیں آیا ۔جب پاناما لیکس اپنی پوری آب و تاب سے پاکستانی سیاست کی رگوں میں سرائیت کرگئی تو میاں صاحب کو ہزارہ یادآگیا اور اپوزیشن کے مقابلے میں پورا جلسہ ہی کرڈالا ،جس میں اربوں کے پروجیکٹس کے اعلانات کئے اور اپنے ہی پروجیکٹ تناول گیس منصوبے کا تیسری بار افتتاح کرڈالا۔

دور افتادہ ضلع کوہستان کے متاثرین آس لگائے بیٹھے تھے کہ وزیراعظم صاحب اُن کی خیریت پوچھنے ضرور آئینگے مگر شائد میاں صاحب کے مشیروں اور وزیروں نے اُن کو غم اور تکلیف میں گھرے متاثرین سے زیادہ سیاسی پوائنٹ سکورننگ کی طرف مائل کیا اور وہ متاثرین کی بحالی اورآبادکاری کیلئے ایک لفظ بھی نہ بول پائے،افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ دیگر علاقوں میں اگر تیس بکریاں بھی ملبے تلے دب جائیں تو کہرام مچ جاتا ہے مگر کوہستان کے تیس انسان بھی حکمرانوں کو ایک آنکھ بھی نہ بھائے ۔ہم پاکستانیوں کا حافظہ کمزور ہے جب 2013کے عام انتخابات شروع ہوئے تو میاں صاحبان اور ان کی جماعت مسلم لیگ( ن )نے ملک سے اندھیرے مٹانے کے وعدوں پر پاکستانی قوم کا اعتما د ووٹ کی شکل میں لیا اور آج تک وہ اعتماد پورا کرنے کا یقین دلارہے ہیں جس کی تکمیل صرف اور صرف کوہستان کے قدرتی پانی سے ہے جہاں سے آٹھ ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی مہیا ہوگی ۔ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ وزیر اعظم صاحب ! آپ کی سیاست کا محور بجلی ہے اور جہاں سے بجلی پیدا ہورہی ہے وہاں کے اکتالیس انسان موت کے منہ میں چلے گئے اور 17لوگ اب بھی اتھور باڑی کے گاوں میں زندہ درگور ہیں،کیا حکومتی مشینری اتنی ٹھپ ہے کہ پورے گاوں کو قبرستان قراردلوایا گیا ۔کیا آپ اُن کے وزیراعظم نہیں ہیں؟خیر ! پاکستان کے دورافتادہ اوردیہی علاقوں کے ساتھ وقت کے حکمرانوں نے شروع دن سے ہی سوتیلی ماں جیساسلوک کیا ہے اور یہی روایت توڑنے والا کوئی لیڈر شائد جنا ہی نہیں ۔ضلع کوہستان سے مسلم لیگ (ن) کی جماعت کے دو ممبران صوبائی اور قومی اسمبلی میاں صاحب کے ہمراہ موجود تھے شائد اُن کی بھی نہ سنی گئی ہو ۔ادھر کوہستان کا پورانفراسٹرکچر ملیامیٹ ہے ،سکول ،ہسپتال ، پگڈنڈیاں، بجلی ک چھوٹے جنریٹرز،دروں دیہاتون کے کچے پکے راستے، بنیادی مراکز صحت اور فصلی اراضیات تباہ ہیں، ضلعے میں قحط کا خدشہ ہے ۔ وزیراعظم صاحب پانامہ لیکس ہنگامے کو رفع دفع کرنے کیلئے ایک جلسے کا بہانہ بناکر پٹرول کی قمیتیں نہ بڑھاکر ملک کا آٹھ ارب روپے نقصان کرسکتے ہیں مگر زندگی اور موت کی کشمکش میں گھرے کوہستان کے باسیوں کو ایک ارب بھی نہ دے پائے ۔یوں کوہستان کے متاثرین سیلاب اب بھی کسی مسیحا کے منتظر ہیں اور حسرت بھری نگاہوں سے اپنے پیارے ملک کے وزیراعظم کا سیاسی جلسہ دیکھ کر اپنے پیارون کی یاد میں کروٹ بدلتے رہے ۔ہمارے پیارے ملک کے وزیراعظم صاحب دعووں اور وعدوں کی بوچھاڑ لئے ایوان اقتدار کی طرف تو نکلے ہیں مگر انہیں متاثرین کے حال کا شائد علم نہ ہو ۔۔۔ چونکہ پہاڑی لوگ ہیں ، لوہے اور پتھروں کی طرح سخت ہیں، ڈرتے بھی نہیں اور روتے بھی نہیں اور اپنی قسمت پر صبر کے علمبردار ہیں زیادہ شکوہ بھی نہیں کرتے۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button