کالمز

معصوم بچے اور جنسی درندے

تحریر : ایم کثیر رضا بگورو
 وطن عزیز پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے بڑھتے واقعات میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس سے معاشرہ میں بے راہ روی اور حیوانیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا . جنسی درندوں میں اکثرایسے معزز شعبوں کے افراد بھی شامل ہوتے ہیں جنھیں عام طور پر معاشرہ میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. بچوں خاص طور پر معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں میں سکولوں کے اساتذہ، مدرسوں کے مولوی ،ہمسائے ، قریبی رشتوں کی بڑھتی تعداد انتہائی دلخراش ہے۔ خصوصاً دینی تعلیم دینے والے حضرات اس قبیح فیل میں زیادہ ملوث پاے گئے ہیں جوکہ دین اسلام کی بدنامی کی وجہ بن جاتے ہیں۔ اور دنیا کو یہ پیغام جاتا ہےکہ دینی مدرسوں کے اندر یہ کام ہو رہا ہے تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ شاید انکا  مذہب ہی اسکا اجازت دے رہا ہو۔  اس لئے ایسے افراد کو اسلامی اصولوں کے مطابق سزا دیا جاے تاکہ آئیندہ کے لئے عبرت حاصل کرسکے انکو سنگسار کرنا چاہیے تاکہ رہتی دنیا تک یاد رہے اور وہ لوگ جو ایسی گنوانی حرکت کرتے ہیں وہ ایسی حرکت کرنے سے پہلے سوچنے پہ مجبور ہوجاے۔ ایک اسلامی مملکت میں جنسی درندگی خاص طور پر گینگ ریپ اور بعد ازاں قتل کے واقعات کا ہونا معاشرہ کے ہر فرد کے لئے لمحہ فکریہ ہے، ہر فرد کو اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے ہر باشعور فرد کو اس حوالے سے فکرمند ہونے کی ضرورت ہے خصوصاً حکومت کی زمداری بنتی ہے کہ وہ اسمبلیوں میں قوانین پاس کراکے ایسے لوگوں کو سرےعام سزا دلا کر عبرت کانشان بنادے اور ایسے تعلیمی ادارے چاہے وہ دینی ہو یا دنیوی ہو جہاں ایسے کام ہورہے ہیں انکو سل کردے تاکہ آئندہ کسی معصوم کی جان خطرے میں نہ پڑھ جاے۔
قارئین کرام  ، اسلامی مملکت میں بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے ہونے والے واقعات اور انکی بڑھتی تعداد کو دیکھ کرسر شرم سے جھک جاتا ہے وطن عزیز پاکستان کا آئین اور یہاں بنائے گئے قوانین کو اسلام کے سنہری اُصولوں کے مطابق بنایا گیا ہے پھر یہاں معصوم بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے واقعات کا ہونا ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے ابھی یہاں بہت ایسے  جرائم جیسے لڑکیوں کے اغوا ،جبری شادی، گمشدگی اور دیگر جرائم کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اگر اُنکا ذکر کرنا شروع کریں تو کالم کے لیے کئی صفحات درکار ہونگے۔ اس مختصر سی تحریر میں معصوم بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کی کئی ایک وجوہات بیان کرنے کی کوشش کی گئ ہیں۔ جیسے کہ جدیدیت اور فیشن کے نام پر فحاشی کا فروغ ، بڑھتی ہوئی بے حیائی اور جنسی آوار گی کوجدید معاشرہ کی ضرورت قرار دینا اور اسلام کی تعلیمات سے دوری بھی ایک وجہ ہے چونکہ اسلام نے جو پابندیاں لگائی ہے وہ عبث نہیں لگائی ہے لیکن آزاد خیال طبقہ سمجھتا ہے یہ پابندیاں عورت کے حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے حالانکہ میرے خیال میں یہ سوچ بلکل غلط ہے اسلام ہی تو وہ مذہب ہے جس نے عورت کو جینے کا حق دیا ہے جیسے عرب میں لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا اور ہندوستان میں عورتوں کو ستی کے نام پہ زندہ جلایا جاتا تھا اور اسلام نے اس سب سے عورت کو نجات دلایا ہے لیکن آج وہی عورتیں اسلامی نظام کے خلاف بات کرتی ہیں۔ اور  کہتے ہوے نظر آتی ہیں کہ ”میرا جسم میری مرضی“ اور آخر کار اسکا نتیجہ گینگ ریپ کے شکل میں نظر آتا ہے گینگ ریپ کا شکار اکثر ایسی ہی آزاد خیال قسم کی لڑکیاں ہوتی ہیں چونکہ آزاد خیالی انکو درندوں تک رسائی کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
اسلام عورت کی حفاظت کرتا ہے جب اسلام سے دوری اختیار کرتی ہیں تو غیر محفوظ ہوجاتی ہیں اور آخر کار درندگی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اسکے ساتھ کچھ خاص قسم کے مدرسوں کے اندر کچھ حوس پرست لوگ پاے جاتے ہیں دین کا لبادہ اوڑھ کے حالانکہ انکا دین سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا ہے ایسے لوگ اس قسم کے کاموں میں ملوث پاے جاتے ہیں اور وہی لوگ معصومانہ انداز اختیار کر کے بڑے دین دار بنے پھرتے ہیں۔ لیکن درحقیقت میں وہ ایک طرف چیختے ،چلاتے ،سسکتے، بلکتے معصوم ونابالغ بچے اور بچیوں کے دامن عفت کو تار تار کردیتے ہیں۔  اور دوسری طرف حکومت کے زمدار رسمی طور پر تعزیتی الفاظ ادا کرتے ہیں اور روایتی قانونی کارروائیاں جاری رہتی ہیں اور تحقیق کے لئے کمیشنز بھی بنائی جاتی ہے لیکن اسکا کوئی دیرپا حل نظر نہیں نکلتا ہے ۔انفرادی عصمت دری کے علاوہ اجتماعی آبروریزی کے لرزہ خیز واقعات نے تو دلوں کو دہلا کررکھ دیا ہے اگرچہ جنسی درندگی کا نشانہ بنانے والوں کو گرفتار کر کے سزائیں بھی دی جا تی ہیں لیکن پھر بھی ایسے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان جیسے علاقے میں بھی ایسے واقعات کے رونما ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں بلتستان میں ایک معصوم بچے کے ساتھ تین درندہ صفت اور اوباش انسان نما جانوروں کا بے دردی کے ساتھ چھ مہنے تک جنسی زیادتی کرنے کی خبر سن کر رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور نفرت ہونے لگی انسانیت سے اگر انسان ایسے ہوتے ہیں تو ان سے تو جانور افضل ہیں جانور بھی اس طرح کے کام نہیں کرتے ہم جنسوں کے ساتھ۔ بہرحال نگران وزیر آعلیٰ صاحب نے اس بات کا سختی سے نوٹس بھی لیا ہوا ہے اور مجرموں کو پکڑنے کی بات بھی ہورہی ہے لیکن اصل بات یہ ہے آیا ان مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جاے گی یا صرف خانہ پوری کر کے چشمہ دید گواہوں کے نہ ملنے کا بہانہ بنا کر رہا کر دیا جاے گا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتاے گا۔
لیکن یہ گلگت بلتستان میں رونما ہونے والا پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہوگا اس لئے ہم سب کو محطاط رہنا ہوگا اور ایک زمدار شہری بن کر اپنے اردہ گرد کے ماحول پہ نگاہ ڈالنا ہوگا چونکہ ہم گلگت بلتستان میں ایک گھر کے افراد کی طرح ہے ہمیں اپنے گھر کو خود ہی محفوظ بنانا ہوگا حکومت سزا دے نہ دیں لیکن ہمیں اپنے گھر  کی حفاظت کی زمداری خود ہی اٹھانی ہوگی۔ چونکہ ایسے واقعات کے رونما ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اکثر ایسے مجرموں کو عبرت ناک سزائیں نہیں دی جاتی ہیں۔ لیکن ہر معاشرے کے کچھ اپنے معروف آداب ہوتے ہیں جس کے زریعہ سے ہم ایسے مجرموں کو  خود ہی روایتی انداز میں سزا دے سکتے ہیں اور معاشرے میں ایسے واقعات کے پیچھے جو عوامل کار فرما ہوتے ہیں انکا تدارک بھی کر سکتے ہیں۔ جیسے فحش اور عریاں فلموں کی آسان دستیابی،لغو ڈائیلاگ کی ٹی وی سیریل، مخرب اخلاق رسائل،نجی محفلوں میں نیم عریاں رقص، شہوت انگیز سنیما پوسٹرز،جنسی اشتعال پیدا کر نے والے اشتہارات، جسم کی ساخت کو نمایاں کر نے والے زنانہ تنگ لباس، تعلیمی اداروں میں مخلوط پروگرامز، شراب اور منشیات کا بے دریغ استعمال نوجوان نسل کو اپنی جانب راغب کر کے بے راہ روی کا زریعہ بنا رہا ہےایسی تمام برائیوں کو معاشرے سے مٹانے کے لئے خود ساختہ طور پہ اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ جنسی درندگی کے بڑھتے واقعات پر قابو پانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حرکت میں لا کر اِن خرافات کو کنٹرول کرنے کے ساتھ عورت کی عصمت وعفت کے لئے دین اسلام کی تعلیمات کو معاشرے میں بھر پور طریقہ سے نافذ کرا سکتے ہیں ، سکولوں کالجوں خاص طور پر پرائیویٹ سیکٹرز میں تفریح کے نام پر ناچ گانے پر پابندی انتہائی ضروری ہے اسلامی اصولوں کے مطابق جنسی جذبات برانگیختہ کرنے والا مواد، فلمیں ،ڈرامے جن میں عورت کی بے حرمتی ہوتی ایسے اداروں سے بائکاٹ کر کے انکو عبرت کا نشان بناسکتے ہیں. اور مدینے کی ریاست بنانے کے دعوا دار حکمرانوں کو چاہیے ایسے ٹی۔وی چینلوں پر پابندی لگا دیں جو مورننگ شوز کے نام پہ معصوم بچیوں کے ساتھ مجرے کراتے ہیں تاکہ ملک پاک سے بے راہ روی ختم ہوسکے اور ساتھ معاشرے میں موجود انسان نما بھیڑیوں کا قلعہ قمع کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں تاکہ معاشرہ برائیوں سے پاک ہوسکے۔ اس لئے معاشرے کے باشعور افراد کو زمداری ادا کرنے کی اشد ضرورت ہےاگر  وہ صرف حکومت کو زمدار ٹھرا کر خود کو زمداری سے مبرا سمجھ لیں  تو معاشرہ کی براياں کبھی ختم نہیں ہونگی۔ اسلئے ہر فرد کو چاہیئے کہ وہ اپنے حصے کی زمداری ادا کریں۔ تاکہ معاشرہ برائیوں سے پاک ہوسکے۔ اور معاشرے میں موجود ہر فرد کو اپنے حصے کی شمع جلانی چاہیے تاکہ معاشرے سے اندھیرا ختم ہوسکے۔ وسلام
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button