چترال
چترال، سینکڑوں زلزلہ متاثرین نے امدادی چیک نہ ملنے پر احتجاجاً افغانستان کی طرف لانگ مارچ شروع کردیا

چترال(گل حماد فاروقی) چترال کے تاریحی قصبے دروش میں سینکڑوں متاثرین زلزلہ افغانستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ان متاثرین کے گھر بار پچھلے سال 26اکتوبر کو تباہ کن زلزلے میں تباہ ہوئے تھے جن کو حکام جھوٹی تسلیاں دیتے رہے کہ ان کو امدادی رقم کی چیک ملے گی مگر کئی ماہ گزرنے کے باوجود ان کو کوئی رقم نہیں ملا۔
ان متاثرین نے دروش بازار میں کافی عرصے تک دھرنا بھی دیا مگر ان کا کہنا ہے کہ چترال کے ڈپٹی کمشنر ان سے وعدہ کیا کہ ان کے پاس اس مد میں کافی رقم موجود ہے اور وہ تمام متاثرین کو مالی امداد فراہم کرے گی۔ جن کے گھر کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے ا ن کو ایک لاکھ روپے کا چیک ملے گا اور جن کے گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں ان کو دو، دو لاکھ روپے کا چیک دیا جائے گا۔ ان متاثرین کا کہنا ہے کہ کافی عرصہ گزرنے کے باوجود بھی جب ان کو ان امدادی رقم کی چک نہیں ملے تو انہوں نے انتظامیہ کو خبردارکرتے ہوئے تین دن کی ڈیڈ لائن کی کہ اگر ان کو یہ چیک نہیں ملے تو وہ مجبوراً پڑوسی ملک افغانستان کی طرف لانگ مارچ کرکے ہجرت کریں گے۔
ڈیڈ لائن حتم ہوتے ہی ان لوگوں نے جلوس کی شکل میں دروش سے افغانستان کی جانب ہجرت کا سفر شروع کیا تاہم ان لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ میرکھنی چیک پوسٹ پہنچ کر ان کو چترال سکاؤٹس کے اہلکاروں نے روک دیا اور انہوں نے میر کھنی ہی میں سڑک کے کنارے دھرنا دیا۔
احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے قاری نظام الدین، سابق ناظم عبد الباری، صلاح الدین طوفان اور دیگر رہنماؤں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلےٰ کی جانب سے اربوں روپے چترال آئے مگر ضلعی انتظامیہ نے اقرباء پروری اور سفارشی بنیاد پر یہ رقم تقسیم کیا۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر ایسے لوگوں کو ایک لاکھ اور دو لاکھ روپے کی چیک دئے گئے ہیں جن کا کوئی نقصان بھی نہیں ہوا ہے مگر جن کے گھر بار تباہ ہوئے ہیں وہ بھی تک ڈی سی کے دفتر کے چکر لگاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اکثر ایسے خاندان میں چار سے چھ چیک بھی دئے گئے ہیں۔
