چترال

وادی یارخون لشٹ کے مکینوں کا حکومت کے حلاف احتجاج، تباہ کن زلزلہ کے بعد ابھی تک کوئی سروے ٹیم متاثرہ علاقے میں آیا

 چترال(گل حماد فاروقی) چترال کے بالائی علاقے یارخون لشٹ میں سینکڑوں لوگوں نے احتجاجی جلسہ کیا۔ جس کی صدارت یونین کونسل بروغل سے رکن ضلعی اسمبلی رحمت ولی نے کی۔ احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ 26 اکتوبر 2015 کو جب تباہ کن زلزلے نے پورے چترال کو تباہ کیا وہاں اس وادی کو بھی سخت نقصان پہنچا مگر بد قسمتی سے ابھی کسی سروے ٹیم نے اس متاثرہ علاقے کا نہ دورہ کیا نہ جائزہ لینے کیلئے ٹیم بھیجا۔

مقررین نے کہا کہ اس وادی کو پہلے سیلاب نے نقصان پہنچایا پھر زلزلہ نے وفاقی اور صوبائی حکومت نے اربوں روپے ازالہ دینے کا اعلان کیا مگر اس وادی میں کسی کو بھی کوئی امدادی چیک نہیں ملا البتہ جن کی تحصیل دار یا کسی انتظامیہ کے افسر سے تعلقات تھے انکو بغیر کسی نقصان کے بھی ایک لاکھ اور دو لاکھ روپے کے چیک دئے گئے جو سراسر نا انصافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وادی کی سڑک کی حالت انتہائی حراب ہے جس پر چترال سے یہاں پہنچنے میں چودہ گھنٹے لگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پھلے دنوں ایک خاتون صرف اس وجہ سے مرگئی کہ ان کو بروقت طبعی امدادنہیں ملی کیونکہ اس وادی میں کوئی ہسپتال نہیں ہے صرف ایک ڈسپنسری ہے جو وادی سے چھ گھنٹے کے مصافت پر واقع ہے اس مریض خاتون کو سڑک کی حرابی کی وجہ سے ہسپتال بھی نہیں پہنچایا جاسکا اور وہ یہاں دم توڑ گئی

ویلیج کونسل بروغل کے کونسلر نے کہا کہ وادی بروغل میں سینکڑوں جانور مرگئے جن میں نہایت قیمتی جانور یاک بھی شامل ہیں اسی طرح بکریں اور بھیڑ بھی خوراک نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ وادی بروغل کے ناظم امین جان تاجک نے کہا کہ وادی بروغل میں دو قیمتی جانیں ضائع ہوئی کیونکہ اس وادی میں نہ تو کوئی ہسپتال ہے نہ ڈاکٹر بلکہ وادی کا سڑک پچھلے سال نومبر میں برف باری کی وجہ سے بند ہوا تھا جو کہ ابھی تک بند پڑا ہے۔اور ان دو افراد کو نہ تو طبعی امداد دی گئی نہ ان کو ہسپتا ل پہنچایا جاسکا جس کی وجہ سے وہ دونوں وادی بروغل میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے جو کہ حکمرانوں کیلئے ایک سوالیہ نشان بھی ہے اور ان کے ماتے پر بدنما داغ بھی۔

سابق ناظم محمد وزیر نے کہا کہ چترال سکاؤٹس کا اپنا سرکاری گاڑی وادی بروغل پوسٹ میں برف باری کے باعث پھنس چکا ہے جسے وہ نہیں لاسکتے کیونکہ شدید برف باری کے باعث یہ راستہ ہر قسم ٹریفک کیلئے بند ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وادی میں لڑکیوں کیلئے کوئی پرائمری سکول تک نہیں ہے پھر بھی انصاف کے دعویدار صوبائی حکومت دعوے کرتے ہیں کہ انہوں نے صحت اور تعلیم میں انقلاب لایا جبکہ اس وادی میں نہ تو سکول ہے نہ ہسپتال۔

مقررین نے کہا کہ اس وادی میں ایک کلو چینی ڈیڑھ سو روپے ملتی ہے سیمنٹ کا بوری پشاور میں 480کا ملتا ہے مگر یہاں 1050 روپے کا ایک بیگ سیمنٹ ملتا ہے کیونکہ سڑک انتہائی حراب ہے اور علاقہ دور آفتادہ ہونے کی وجہ سے اس پر کرایہ بہت لگتا ہے۔

مقررین نے اراکین اسمبلی پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ووٹ مانگنے کیلئے تو آتے ہیں مگر ابھی تک اپنے ووت دہندگان کا احوال تک نہیں پوچھا۔

مقررین نے صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت اور ضلعی انتظامیہ سے بھی پرزور مطالبہ کیا کہ وہ تحصیلدار اور دیگر عملہ کے حلاف قانونی کاروائی کرے کیونکہ متاثرین نے بار بار اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر کا چکر لگائے جن کو یقین دہانی کی گئی کہ سروے ٹیم آئے گا مگر نور الدین تحصیلدار نے اس علاقے کی جائزہ لینے سے انکار کیا۔ رکن صوبائی اسمبلی سید سردار حسین نے کہا کہ محکمہ مواصلات یعنی کمیونیکیشن اینڈ ورکس (C&W)نے پندرہ کروڑ روپے کیوں سرکاری کمپنی کو حوالہ کئے جنہوں نے یہ رقم تو ہضم کیا مگر سڑک کی حالت یہ ہے کہ ابھی تک اس پر کوئی نہیں گزرسکتا۔انہوں نے پاک فوج کے اعلےٰ حکام سے مطالبہ کیا کہ اس سلسلے میں تحقیقات کی جائے کہ ان کے ایک تعمیراتی کمپنی نے کروڑوں روپے کا رقم لے لیا مگر کام نہیں کیا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس وادی کی سڑک کو باقاعدہ طور پر محکمہ مواصلات کے حوالہ کیا جائے متاثرین کو فوری طور پر ایک لاکھ اور دو لاکھ روپے کے چیک دئے جائے۔ سڑک کی تعمیر پر فی الفور کام شروع کیا جائے۔ اس وادی میں ایک یوٹیلٹی سٹور کھول دیا جائے اور ساتھ ہی مردانہ ، زنانہ ہائی سکول اور کالج کے علاوہ ایک بنیادی مرکز صحت بھی قائم کیا جائے تاکہ یہاں کے لوگ معمولی بیماری سے موت کے منہ میں جانے سے بچ جائے۔

ہمارے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے چند طالبات نے کہا کہ وہ چار سے چھ گھنٹے کے مصافت پر سکول آتے ہیں اور لڑکوں کے سکول میں سبق پڑھتی ہیں جن کو بہت شرم محسوس ہوتا ہے لہذا حکومت کو چاہئے کہ ان کیلئے علیحدہ سکول اور کالج قائم کرے۔ جلسہ سے پی ٹی آئی کے رہنماء زار بہار، رحمت ولی، محمد وزیر سید سردار حسین، محمد الیاس اور دیگر رہنماؤں نے اظہار حیال کیا۔

مظاہرین نے بیس دن کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر بیس دن کے اندر اندر ان کے جائز مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو وہ ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئیں گے اور پر تشدد احتجاج کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے جن کی تمام تر ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوگی۔بعد میں یہ لوگ پر امن طور پر منتشر ہوگئے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button