محمد جاوید حیات
معمولی سپاہی تھا۔افیسر کے بنگلے میں خدمت پہ مامورتھا۔معمولی مزدور کا بیٹا تھا ۔اس کو یاد تھا ۔کہ اس کے ابو شام کو تھک ہار کے آتے۔ماں دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو پونچتی۔اور حال احوال پوچھتی۔۔ابو کہتا ’’تھکن سے چور ہوں بدن ٹوٹ رہا ہے‘‘۔۔ما ں کالی چائے کی پیا لی پاس رکھتی ۔۔۔وہ چند منٹ اپنے ابو کو دیکھتے۔کہ کوئی ٹافی شافی جیب میں ہوں ۔مگر افسردہ ہوتے۔۔ابو نے سکول میں داخل کیا ۔۔کپڑے پرُانے ہوتے۔اس کو بال نہ کاٹنے پر مار پڑتی۔جوتے پھٹے ہوئے ہوتے۔وہ چھپا چھپا کے بیٹھتے ۔کلاس میں کوئی خاص اہمیت نہ ہوتی۔۔استاد کا بیٹا مانیٹر تھا۔۔ مارتا جھوٹ موٹ کستا۔۔۔’’شور مچاتے ہو ۔۔کپڑے اُجلے نہیں ۔‘‘ٹوپی سر سے اُتار کر پھینک دیتے۔کہ بہت پرُانی ہے ۔کبھی ڈسٹر نہ ہوتی تو اس سے بورڈ صاف کیا جاتا۔۔بچے ہنستے وہ بسورتا۔۔۔تھوڑا بڑا ہوا تو کھیلاڑی بن گیا۔ٹیم میں نہ لیا جاتا مگر ٹیم کی مجبوری بن گیا ۔شرمیلہ تھا افسردہ تھا۔۔باپ مرا ۔ماں کو فالج کا اٹیک ہوا۔ماں کی دعاؤں سے بڑی مشکل سے سپاہی بھرتی ہوا۔۔شادی ہوئی ۔ایک جیون کی ماری اور آگئی۔۔شکر ہے کہ پوہڑنہ تھی۔غریب والدین کی اولاد تھی۔۔صابر و شاکر برداشت کرنے والی،۔کبھی شوہر کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔نہ اس سے شکایت کی ۔۔۔اللہ نے بیٹی دی ۔پھر بیٹا آیا۔خدا کا کرنا تھا کہ تین سال کی روہیلہ بیمار ہو گئی ۔اور معذور ہو گئی۔۔ایک بیٹی ، ایک معصوم،ایک قابل رحم۔۔ما ں باپ اس کو دیکھ کر تڑپ اُٹھتے۔وہ جب توتلی زبان سے کوئی فرمائش کرتی۔تو باپ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔۔سپاہی اکیلے میں بہت روتا۔۔معمولی تنخواہ فالج زادہ ماں اور اس بچی کی دارو دوا پہ خرج ہوتی۔وہ اکثر اپنے آپ کو’’ جیون کے دوراہے‘‘پر کھڑے پاتا۔۔سوچتا کہ جیون کے دو راستے ہیں ایک پھولوں سے بھرا ایک کانٹوں سے بھرا۔۔کانٹوں بھرے کے مسافر لہولہاں ہیں ۔۔پژمردہ افسردہ ہیں ۔اس تلخ حقیقت کو جانتے ہیں جس کا نام جیون ہے۔۔پھولوں بھرے کے مسافر کچھ نہیں جانتے۔۔بس وہی کرتے ہیں جو جی میں آئے ۔ان کی خواہشات کی دنیا رنگیں ہوتی ہے۔ان کی کوئی ضرورت کوئی مجبوری نہیں ہوتی بس ’’خواہش‘‘ہوتی ہے۔۔۔معمولی سپاہی صاحب کے بنگلے میں اس کے اس کی بیگم کے اور اس کے بچوں کے نخرے اُٹھاتا۔۔ایک بے ہنگم شور اور ایک بے ربط اجتماع تھا ۔۔۔اس کی روہیلہ افسردہ ہے مگر مہذب ہے ۔۔یہاں ڈھٹائی ہے بس بات ماننا اور منوانا ہے۔۔بہانے بھی ہیں تو شاہانے ہیں ۔۔۔
آج صاحب کے گھر میں ہلچل ہے۔۔۔گڑیوں کی شادی ہے ۔۔معمولی سپاہی کی روہیلہ نے بھی آج خلاف معمول گڑیا مانگی ہے۔۔اس مہینے سپاہی پہ قرض چھڑے۔۔ماں کا چیک اپ تھا۔۔اچانک بیوی بھی بیمار ہوئی۔اس کی جیب بلکل خالی ہوئی۔ گڑیوں کی شادی میں صاحب نے بار بار نوٹ جیب سے نکالتے بار بار ساماں منگواتے۔سپاہی کی نظریں باربار للچا گئیں۔اس کی روہیلہ نے 20 روپے کی گڑیا مانگی تھی۔ڈھیر سارے بچے گھر میں آئے تھے۔بڑے بڑوں کے بچے تھے۔ان کے بھی نخرے تھے شور شرابا تھا مگر مہمان تھے۔۔۔سپاہی کو حکم ہوا کہ صحن میں کوئی کاغذکا ٹکڑا کوڑ کباڑ نظر آئے تو چن کر ڈسٹ بین میں پھینک دو۔۔چنتے چنتے اس کو ایک جگہ ایک ٹوٹی ہوئی گڑیا مل گئی ۔اس نے جھٹ سے اٹھا کر جیب میں ٹھونس دیا۔ضمیر نے ملامت کی تو پھر اٹھا کر صاحب کی بچی سے اجازت لینے گیا۔۔کہا ’’چھوٹی بیگم یہ گڑیا اپنی بچی کے لئے لے جاؤں ۔میری روہیلہ نے مانگی تھی یہ کوڑ کباڑ میں سے ملی ہے‘‘۔ چھوٹی بیگم نے پہلے توجہ نہ دی۔پھر اس سے گڑیا چھین کر اس کو تھپڑ ماری۔۔چھوٹی بچی کی تھپڑ ۔۔اپنے باپ کی عمر کے بزرگ کو۔۔۔۔
سپاہی بہت پیچھے چلا گیا۔جیون بہت پیچھے چلا گیا۔۔افیسر کا بچپن بھی اسے یاد آگیا کیونکہ یہ اسکے گاؤں کا تھا ۔اسے عجیب لگا کہ اس کا جیون دوراہے پر ہے۔۔یہ بے احترامیاںیا ان کے ازالے کیلئے دوسرا راستہ۔۔۔صاحب کا قہر ۔بیگم صاحبہ کا عذاب ،چھوٹی بیگم کی تھپڑ۔۔۔۔سپاہ گری چھوڑنا ۔۔۔مزدوری۔۔ابو کی زندگی اپنی معمولی تنخواہ۔۔۔اس نے اپنے گال تک نہیں سہلایا مگر اس تربیت پر لعنت بھیجا۔۔۔کہا کہ یہ اگر جیون ہے تو مجھے اس کی کوئی آرزو نہیں ۔۔وہ پھر ادھر ادھر مصروف ہو گیا۔۔شام ہونے کو تھی۔کہ اس کی موبائل بجی۔۔کال تھی کہ ’’روہیلہ بے ہوش ہوگئی ہے۔‘‘اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔بنگلے سے نکل کر ایسے دوڑا جیسے چھلاوہ ہو ۔اس کو ’’سوہنی جیون ‘‘ کاہوش نہیں رہا۔گھر پہنچا تو مولوی صاحب روہیلہ کے سرہانے بیٹھے قرآن عظیم الشان کی تلاوت کر رہا تھا ۔۔سپاہی نے سر اس کے چھوٹے چھوٹے قدموں پہ رکھا ۔اور بوسہ دیا۔۔قرآن عظیم الشان کی برکت تھی کہ روہیلہ نے آنکھیں کھو لی۔ابو کی طرف دیکھا ۔اور کہا ’’ابو گڑیا ‘‘ََ۔۔سپاہی کی آنکھو ں کے سامنے پھر اندھیرا چھا گیا۔ جیب پہ ہاتھ رکھا تو موبائل سیٹ ہاتھ سے لگی۔۔سیٹ ہاتھ میں لیکے دوڑا ۔ شام کا دھلنے کا تھا ۔۔دوکان پہ پہنچا کہا کہ اس سیٹ کی کیا قیمت دو گے۔۔دوکاندار نے کہا 500 روپے۔۔۔اس نے کہا جلدی کرو کھیلونوں کی دکان بند نہ ہو ۔۔دکاندار نے500 تھما دیا اور سم نکالنے لگا ۔دکاندار نے آواز دی ’’ماما اپنی سم لے جاؤ‘‘۔۔اس نے کہا بھائی توڑ کے پھینک دو ۔۔دکاندار ششدر رہ گیا ۔۔۔دکان سے گڑیا اور دوسری دوکان سے چاکلیٹ خریدا۔۔دوڑ کے واپس آیا ۔۔اس کو دیکھ کر روہیلہ کے چہرے پر رونق آگئی۔اس نے سوچا کہ آج رات کو یہ سورج کیسے نکل آیا۔۔اس نے روہیلہ کی پیشانی کو بوسہ دیا روہیلہ نے اس کا گال چھو لیا ۔۔۔تو اس کے گال پر چھوٹی بیگم کی تھپڑ کی سوجن دور ہو گیا ۔۔مولوی صاحب نے کہا ۔۔’’بیٹا ذرا میرے گھر فون کر کے بتا دیں کہ میں آج دیر سے جاؤں گا۔‘‘اس نے کہا کہ میرے پاس فون نہیں۔۔کیوں؟اس نے کہا کہ اس کو میں نے بھیج کر اپنی گڑیا کیلئے گڑیا خریدا۔۔
مولوی صاحب میں اکثر جیون کے دوراہے میں کھڑا ہوتا ہوں ۔اپنے آپ سے لڑتا رہتا ہوں ۔۔اس سمے بھی اس دوراہے پر چند ثانیہ رکا۔۔ایک طرف میری گڑیا تھی ایک طرف موبائل فون تھی۔۔مولوی صاحب میرے پاس اگر ہزاروں روپے کی سیٹ بھی ہوتی تو بھیج کر گڑیا خریدتا ۔۔مولوی صاحب میں اکثر جیون کے دوراہے پہ کھڑ ے ہو کرقسمت سے پوچھتا ہوں ۔کہ میرے حصے میں محرومیاں اور مجبوریاں ہی کیوں آتی ہیں ؟۔۔پوچھتا ہوں کیا میں بنگلے میں نہیں رہ سکتا ۔؟کیا میں گاڑی میں نہیں بیٹھ سکتاْ ؟کیا میری بچی کی گڑیا کی شادی نہیں ہو سکتی ۔؟میری قسمت کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ۔۔میں فون رکھ کے کیا کرونگا مولوی صاحب۔۔مولوی نے آہ بھرا اور کہا ۔۔بیٹا خدا کی تقسیم ہے۔۔۔سپاہی نے کہا مولوی صاحب میں خدا کی تقسیم پہ خوش ہوں ۔۔اس نے مجھے روہیلہ جیسا چاند دیا ۔۔اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو روہیلہ کی گڑیا پہ گرے۔۔پھر اس نے اپنی فالج زادہ آمی کے قدموں پہ سر رکھا ۔۔۔اس نے اپنی بوڑھی انگلیوں سے اس کے سر کے با ل سہلائی۔۔اس کی بیوی کی انکھوں سے دو اوارہ آنسو اس کے بچے کے گال پہ گرے ۔۔ بچہ سمٹ کر ماں سے لگا۔۔۔۔۔۔۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button