کالمز

’’ایک سجدہ‘‘

تحریر: محمد جاوید حیات

14اگست 1947 ؁ء کا سورج نکلتا ہے تو امن کی کرنیں ایک نئی مملکت کی مٹی کو چھوم رہی ہوتی ہیں۔زمین کا ٹکڑاخون کی چھینٹیوں ،آہ وزاروں،خوابوں ،اُمیدوں،حوصلوں اور قربانیوں کی رِدا اوڑھی ہوئی ہے۔ہوائیں اس کو چوم رہی ہیں سمندر کی لہریں پہلے ساحلوں سے ٹکرا کے چیختی تھیں اب مسکرا رہی ہیں۔پرندون کی اُڑانیں بے ربط تھیں اب مستی بھری اڑانیں ہیں۔ان کی آوزیں نوحہ تھں۔اب چہچہاٹ ہیں۔بادل گرجتے تھے اب دعاؤں میں مصروف ہیں بجلیاں چمکتی تھیں اب ہنس رہی ہیں،پہاڑیں افسردہ تھیں اب شادماں ہیں سراپا ناز ہیں ۔آخر اس ٹکڑا زمین کو کیا ہوگیا ہے اس رنگ ڈھنگ تک بدلا ہے۔آج کے بعد یہ ایک آزاد سرزمین کہلائے گی۔آزاد لوگوں کی آزاد مملکت ۔۔۔۔14آگست کا دن اس مٹی کی تقدیر بدلنے کا دن ہے۔ایسے دن دنیا کی تاریخ میں اور قوموں کی زندگیوں میں کم کم آتے ہیں۔پیاری سرزمین پاک میں نکلنے والے اس دن کے سورج کی کرنیں جنہوں نے دیکھے تھے وہ ایک ایک کرکے اس جہان کو سدھار گئے۔یہ مٹی اوڑکرسوگئے خال خال کہیں زندہ ہیں۔ان کے لئے جنہوں نے اس دن کو نکلتے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا یہ ایک تصور کی دنیا ہے ایک خوشبو ہے یادوں کا ایک گلدستہ ہے ایک پہچان ہے.

M. Javed Hayatاس روز سے آج تک66دفعہ یہ دن نکلا ۔یہ سورج اور اس کی کرنوں نے ان یادوں کو تازہ کیااب اس دن کے آنے میں5دن باقی ہیں۔میں جب صبح سورج کی کرنوں کے انتظار میں مشرق کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوتا ہوں تو میرا جسم اسی جگہ استادہ رہتا ہے مٹی کا یہ بت کرنوں کا انتطار کررہا ہوتا ہے۔مگر اس سمے میری روح دوڑ کر مکران کے ساحلوں سے ٹکراتی لہروں کا طواف کررہی ہوتی ہے۔چولستان کے صحراؤں میں سربسجود ہوتی ہے۔چاغی کے پہاڑیوں کو چوم رہی ہوتی ہے۔ سیاہ چین کے گلیشئر سے پیشانی رگڑ رہی ہوتی ہے۔مری کے جنگلوں میں اوارہ پھر رہی ہوتی ہے۔اسلام آباد کے سبزہ زاروں میں قلانچیں بھررہی ہوتی ہے۔اس مٹی کو آنکھوں سے لگاؤ ہی ہوتی ہے۔اتنے میں سورج نکل رہا ہوتا ہے۔وطن کی مٹی کے زرے زرے موتی کو گماں ہوتا ہے۔اسی لمحے میرا کوئی شیردل پائلیٹ پنے جہاز کی کاک پٹ میں بیٹھ رہا ہوتا ہے۔کوئی چہتا جگر اپنی بندوق قل رہا ہوتا ہے۔میرے باورچی خانوں میں ناشتے تیار ہورہے ہوتے ہیں۔میرے نونہال اپنے بستے درست کررہے ہوتے ہیں۔میرے وکیل اپنی فائلیں سنبھال رہے ہوتے ہیں۔میرے ججزز عدل وانصاف کا عزم لے کے دارالعدل کی طرف جانے کی تیاری کررہے ہوتے ہیں۔میرے ڈاکٹرز انسانی جانوں کی حفاظت کے خیال میں مست ہورہے ہوتے ہیں۔میرے اساتذہ چہروں پر تکریم انسانیت کی چمک سجائے اپنے کمروں سے نکل رہے ہوتے ہیں۔میری مائیں اپنے بچوں کو رخصت کررہی ہوتی ہیں۔میری مسجدیں نمازیوں کو الوداع کہہ رہی ہوتی ہیں۔میرے دہقان کھیتوں کی طرف جارہے ہوتے ہیں۔زندہ لوگوں کی یہ سرزمین اب روشن ہورہی ہوتی ہے اب میری پشانی خود بخود اس مٹی کو چوم رہی ہوتی ہے۔میں سجدے میں ہوتا ہوں میری آہیں آواز سے الفاظ میں ڈھلتی ہیں۔میں پکارتا ہوں میرا سجدہ قبول فرما۔میرے رب میری پاک سرزمین کو زندہ تابندہ رکھ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button