کالمز

دیامر میں گھوسٹ ملازمین اور جعلی ادویات کی بھرمار

تحریر:عمرفاروق فاروقی

گلگت بلتستان کا سب سے پسماندہ ضلع دیامر چلاس میں سینکڑوں گھوسٹ ملازمین جن کا عمومی تعلق محکمہ تعلیم ،محکمہ صحت ،محکمہ تعمیرات اور محکمہ برقیات سے بتایا جاتا ہے ،کئی سالوں سے گھروں میں بیٹھ کر یا دوسری نوکریاں کرتے ہوئے الگ الگ جگہوں سے تنخواہیں لے رہے ہیں ۔پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت حاجی حیدر خان نے گزشتہ روز چلاس کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ ایک سمینار میں تازہ انکشاف یہ کیا ہے کہ محکمہ صحت دیامر کے اندر سینکڑوں لیڈی ہیلتھ ورکرز گھر بیٹھ کر تنخواہیں لے رہی ہیں ، دیامر کے عوام کو معلوم ہی نہیں کہ دیامر میں کوئی لیڈی ہیلتھ ورکرز کام کررہی ہیں ،یہاں کے لوگ کسی بھی لیڈی ہیلتھ ورکر کو جانتے تک نہیں ہیں ۔یقیناًدیامر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لے رہی ہیں ،جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔بدقسمتی یہ ہے کہ ان لیڈی ہیلتھ ورکرز میں ایک کثیر تعداد ان پڑھ خواتین کی ہے ،جن میں درجنوں لیڈی ہیلتھ ورکرز سابق دور حکومت میں سفارش اور رشوت کے بل بوتے پر بھرتی ہوئی ہیں ،اور درجنوں خواتین نے ٹیسٹ انٹرویوز اپنے بیٹوں ،بہنوں اور بھائیوں کے ذریعے دلا کر لیڈی ہیلتھ ورکرز بن گئیں ہیں ۔ ان پڑھ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی وجہ سے دیامر میں زچگی کے دوران اموات میں کافی آضافہ ہوا ہے اور اس وقت گلگت بلتستان میں ضلع دیامر اموات زچگی میں سب سے پہلے نمبر پر ہے ،کیوں کہ ضلع دیامر میں ان پڑھ لیڈی ہیلتھ ورکرز حاملہ خواتین کو انجکشن تک لگانا نہیں جانتی ہیں ،اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ لیڈی ہیلتھ ورکر اپنے پردے کو جواز بنا کر فرائض سرانجام نہیں دے رہی ہیں اور یہ کہہ رہی ہیں کہ ہمارے شوہر ہمیں گھر سے باہر نہیں چھوڑتے ہیں ،میں ان لیڈی ہلتھ ورکروں اور ان کے شوہروں سے یہ سوال کرتا ہوں کیا اپنی ڈیوٹی سے غافل گھر میں بیٹھ کر تنخواہیں لینا حلال ہے؟ اور پھر وہی تنخواہ اپنے بال بچوں کو کھلانا کیا حرام نہیں ہے ۔؟ دیامر میں لیڈی ہیلتھ ورکروں کی موجودگی کے باوجود م محکمہ صحت کے حکام ان سے ڈیوٹی نہیں لے رہے ہیں اور ضلع غذر سے لیڈی ہیلتھ ورکروں کو چلاس میں بغیر کسی قسم کے سہولیات دیئے ان سے ڈیوٹی لیا جارہا ہے۔ دیامر میں 135سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکروں کو دیانت داری اور اللہ کے خوف سے اپنے فرائض سر انجام دینا چاہے ،اور ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کی شوہروں کو چاہے کہ وہ بھی اللہ کا خوف کھا کر اپنی بیویوں کی تنخواہوں کو حلال کرائیں ،اگر وہ اپنے ماوں ،بہنوں اور بیویوں کو ڈیوٹی پر نہیں بھیجنا چاہتے ہیں تو پھر ان لیڈہیلتھ ورکروں کو اپنی اپنی نوکری سے استفعی دلائیں ۔دیامر میں محکمہ صحت کی طرح محکمہ تعلیم کے اندر بھی درجنوں فیمیل اساتذہ گزشتہ کئی سالوں سے گھر بیٹھ کر تنخواہیں لے رہی ہیں ،ان خواتین اساتذہ میں سب سے زیادہ تعداد تحصیل چلاس کے نواحی گاوں گوہرآباد کے مختلف سکولوں سے ہے۔ڈیوٹی نہ دینے والی ان خواتین اساتذہ میں سے بعض مختلف محکموں کے اندر اعلی عہدوں پر تعینات بااثر آفسران کے مائیں ،بہنیں اور بیوئیں ہیں ۔سابق دور حکومت میں مذکورہ خواتین اساتذہ اور لیڈی ہیلتھ ورکر ز نے گھروں میں بیٹھ کر خوب مزے اُڑائے او ر قوم کے معماروں کا مستقبل داو پر لگا دیا ،جس کی وجہ سے دیامر میں تعلیمی نظام بری طرح متاثر رہا ،اور ہنوز محکمہ تعلیم دیامر کے اندر خوتین اساتذہ سکولوں سے غیر حاضر ہیں ،مگر محکمہ تعلیم کے اعلی حکام خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔دیامر میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے عوام کو بے شمار مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے ۔اس بدقسمت شہر میں کیا کیا نہیں ہوتا ،یہاں پر تو میرٹ کا قتل عام سرعام ہوتا ہے ،یہاں پر انسانی جانوں کے ساتھ کھلے عام کھلواڑ جاری ہے ۔ضلع دیامر میں گزشتہ کئی سالوں سے غیر معیاری ،مضر صحت اور جعلی ادویات کی بھر مار جاری ہے اور ناقص ادویات کا کاروبار عروج پر ہے ۔یہاں پر مالداربننے کیلئے ہر شخص نے میڈیکل سٹور کھول رکھا ہے اور راتوں رات کروڑپتی بن رہا ہے ۔ دیامر میں جتنی بھی دوائی آرہی ہے وہ سوات سے لائی جارہی ہے ۔ دیامر چلاس سے خرید ی ہوئی دوائی کھانے سے مریض کو کوئی آفاقہ نہیں ہوتا ہے اور اگر یہی دوائی گلگت یا کسی دوسری جگہ سے خرید کر مریض کو کھلائیں تو مریض ٹھیک اورصحت مند ہو جاتا ہے ،چلاس لائی جانے والی دوائی اگر ایک نمبر ہے تو پھر مریض ٹھیک کیوں نہیں ہوتے ہیں ،دیامر کے عوام کو ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ چلاس کے تمام پرائیوٹ میڈیکل سٹوروں میں سوات سے لا کر ادویات بیچا جارہا ہے ۔جس کو استعمال کرنے سے مریض ٹھیک ہونے کی بجائے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے ۔ جعلی ادویات کا یہ کالا دھندہ نہ روکا گیا تو دیامر کے تما م لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔اس لیئے گلگت بلتستان حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر فارمسیوں کی جانچ پڑتال کرے اور جعلی ادویات بیچنے والوں اور قصورواروں کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیں اور ڈرگ کنٹرول کے زمہ داروں کی خلاف بھی کارروائی کریں جو میڈیکل سٹور مالکان سے مل کر جعلی ادویات بیچنے کی اجازت دیتے ہیں ۔تاکہ عوام کو غیر معیاری ادویات اور نیم حکیم خطرہ جان سے نجات مل سکے۔قارئین کرام دیامر میں عوام سے لیکر حکمران تک کسی میں بھی احساس زمہ داری نہیں ہے ،حالانکہ احساس اور زمہ داری دونوں اہم فکٹر ہیں ،جن کی عملی مظاہرہ سے معاشرے کا ہر فرد اور قوم عاری ہے۔احساس اور زمہ داری انسان میں تعلیم عام کرنے سے پیدا ہوتے ہیں ،لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ فرد اور قوم کی مجموعی تربیت بھی ضروری ہے۔تعلیم تربیت کے بغیر قوموں کو تباہ کردیتی ہے ،آج کل تعلیم یافتہ لوگوں کی عجیب عجیب حرکتیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button