کالمز

دین و دانش …اور دینی قیادت کی بے بصیرتی

سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک ایک اوپن فورم ہے۔فیس بک کی افادیت اور نقصانات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ مستند کالم نگاروں نے فیس بک کے فوائد و مضرات پر تفصیلی گفتگوئیں گی ہیں۔ سال پہلے میں نے ایک انگلش ارٹیکل ’’ فیس اوپن یونیورسٹی ‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا جو احباب میں بہت ہی مقبول ہوا تھا۔ میں گزشتہ پانچ سال سے فیس بک استعمال کررہا ہوں۔ مجھے اپنے خیالات دوسروں تک فوراً پہنچانے اور بہت سے اہل علم و فکر اور ادباء و محققین کو چانچنے اور ان سے رابطہ نکالنے اور انہیں پڑھنے اور سمجھنے کا ،اور اپنی رائے قائم کرنے کے لیے سب سے بہترین جو فورم ملا ہے وہ فیس بک ہے۔ اس لیے میں نے اوپن یونیورسٹی سے تعبیر کیا ہے ۔ گزشتہ دنوں میں نے دینی قیادت کی بے بضاعتی اور بے بصیرتی پر مبنی ایک مختصر پوسٹ لکھی۔ احباب نے بہت ہی پسند کیا۔ جید اسکالر ز اور اہل علم و محققین نے اس پر اپنے اپنے تبصرے لکھے اور مستقل تحریریں رقم کی۔میں اپنی پوسٹ اور اس پر لکھی گئی دو اہم تحریریں اس کالم کا حصہ بنانا چاہتا ہوں تاکہ یہ تلخ حقائق اور وقت کی ضروریات اور ملی تقاضوں کا ادارک کیا جاسکے اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر مستقبل کے لیے کوئی پلان تشکیل دیا جاسکے۔ سوشل میڈیا کی افادیت کا اندازہ ان چند بصیرت افروز کمنٹس سے لگایا جاسکتا ہے۔میری مختصر پوسٹ ملاحظہ کیجیے گا۔
’’مذہبی قیادت۔۔۔۔سنت و بصیرت سے مکمل عاری‘‘
”درمیانی شخص” کو عزت دینا، اس پر اعتماد و بھروسہ کرنا رسول اللہ کی سب سے بہترین سنت ہے۔ غزوہ خندق کے موقع پر مسلمان انتہائی مشکل حالت میں تھے۔ نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ پکے مسلمان تھے لیکن سابقہ تعلق کی وجہ سے قریش اور یہودیوں کے ہاں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔۔۔۔عین مشکل وقت میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعر ض کیا کہ میں کردار اد اکرسکتاہوں۔۔ آپ ﷺ نے ایجنٹ کہہ کر بھگایا نہیں بلکہ ارشاد کیا ”انما انت فینا رجل واحد’ اور ان کو استعمال کیا اور درپیش مشکل کا حل نکالا۔اور مسلمانوں کو ظفریابی ہوئی۔ یہ سنت و بصیرت کا اعلیٰ پہلوں ہے۔
ہماری موجودی مذہبی قیادت اور ان کے کارکنان اور چمچہ گیران ان درمیانی اشخاص کی قدر کرنے اور ان سے کام لینے کی بجائے انہیں ایجنٹ، غیروں کا آلہ کار، اپنوں کا دشمن اور نہ جانے کیا کیا القابات رذیلہ سے نواز کر دور بھگا رہے ہیں۔اور تو اور اپنے شاگردوں اور ہم عقیدہ و مسلک لوگوں پر بھی اعتماد و بھروسہ کے بجائے کاسہ لیس کا خطاب دے کر بہت دور کررہے ہیں۔ ہم نے ابوالکلام آزاد اور سرسید احمد خان اور عبیداللہ سندھی کے ساتھ یہی کیا۔ابوالکلام آزاد مسلمانوں اورہندوں کے بیچ درمیانی شخص کا کردار ادا کرسکتے تھے مگر ہم نے اس سے ”شو پیس” کا خطاب دیا۔سرسید احمد خان انگریز اور مسلمان کے درمیان پل بنے مگر ہم نے سختی سے مسترد کردیااور عبیداللہ سندھی کو تو مسترد کرنا ثواب ہی سمجھا۔شیخ الہند کی نصیحتیں اور وصیتیں بھی کام نہیں آئی۔ ہماری وفاق المدارس کی قیادت نے ڈاکٹر طفیل ہاشمی کے ساتھ یہی کیا۔کاش !ہاشمی صاحب پر تھوڑا سا بھی بھروسہ کیا جاتا۔ ہم نے ہر ایک کو اپنے سے دور رکھا ہوا ہے۔ ابلاغ کے وسیع ترین ذرائع کو اپنا کر اپنے موقف و نظریہ و فکر کی ترویج و تبلیغ کے بجائے ان اداروں میں کام کرنے والے مخلص لوگوں کو بھی ایجنٹ کا لقب دے کر دور بھگایا ہوا ہے۔۔۔ بخدا یہ صرف اور صرف سنت رسول ﷺ سے لاعلمی اور بصیرت و بصارت کی کمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔ سینکڑوں نام ہیں جن کو ہماری مذہبی و مدارسی قیادت نے دور کیا ہوا ہے۔ وہ ہمارے لیے بہترین خدمات انجام دے سکتے ہیں مگرایک دفعہ ہی دل سے ان کو خوش آمدید کہا جائے اور ان پر بھروسہ کیا جائے۔۔ اے کاش ایسا نہ ہوتا!احباب کیا کہتے ہیں؟
اس مختصر سی تحریر پر دوستوں نے مجھ سے بہت سے پہلوں ڈسکس کیے اور بہتوں نے اوپن فورم میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔انتہائی علمی شخصیت مولانا لقمان حکیم صاحب(سینئر جج و مترجم رحماء بینہم عربی) نے کمنٹس کے ساتھ استفسار کیا کہ ڈاکٹر طفیل ہاشمی کی کیا خدمات کیا ہیں؟ میں نے مختصر عرض کیا۔’’ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب پاکستان میں اسلامی علوم میں ایم فل کروانے کا بانی ہے۔پاکستان میں بہت سے علماء و شیوخ (تمام مکاتب فکر کے)نے ان کی نگرانی میں علوم اسلامیہ میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب 1966 ء میں جامعہ اشرفیہ لاہور سے فاضل ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کا آغاز کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایم فل علوم اسلامیہ متعارف کروایا اور کورس ڈیزائن کیا اور گائیڈ بکس لکھی ۔پنجاب یونیورسٹی میں بھی اس کے اسٹائل کو اپنایا گیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے درس نظامی کا اغاز کیا۔درجنوں کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں۔اور اگر وفاق المدارس والے تمام مراحل طے ہونے کے بعد آخر میں یہ کہہ کر پوری سکیم مسترد نہیں کرتے کہ یہ سازش ہے تو آج تمام مدارس وجامعات کے طلبہ کے پاس میٹرک، ایف اے اور بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی باقاعدہ ڈگری ہوتی اور یہ سب کچھ اپنے مدرسے و جامعات میں بیٹھ کرتے۔ یونیورسٹی والے صرف انگریزی اور مطالعہ پاکستان کا ایگزام لے کر (رسے میں ہی) ان کو ڈگری دیتی، اور ہرمدرسے کے چند اساتذہ کو تھوڑی بہت تنخواہ بھی اوپن یونیورسٹی سے ملتی اور اسائمنٹ کی چیکنگ کی شکل میں بھی اساتذہ کو کچھ نہ کچھ ملتا‘‘۔
پھر جب بات کھل گئی تو بہت دور تک چلی گئی اور ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب نے تلخ حقائق پر مبنی یہ مفصل تحریراپنی وال سے شیئر کیا۔ قارئین کی نذر کررہا ہوں۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ؟
آج مدت بعد امیر جان حقانی (راقم الحروف)نے وہ زخم پھر سے ہرے کر دئے جو بتدریج مندمل ہو رہے تھے ۔مجھے نہ معلوم کیسے شروع سے یہ احساس تھا کہ پاکستان بر صغیر میں اسلام کی بقا کے باعث وجود میں آیا ۔انگریزی انتداب کے بعد جس طبقے نے اسے سپین ہونے سے بچایا حقیقتا وہی لوگ اس ملک کے خالق ہیں اور اس کا نظم چلانے کے اولیں مستحق بھی۔ لیکن تاریخی ارتقا کے نتیجے میں ملکی نظم و نسق چلانے کے لئے کچھ مخصوص مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ مدارس کا ایک طبقہ تقسیم ملک کے بعد بھی اس ذہنی کیفیت سے نہیں نکل سکا جو غیر ملکی تسلط کے باعث پیدا ہوئی تھی اور ایک حد تک فطری اور نا گزیر تھی ۔دوسرا طبقہ کنجے گرفت و ترسے خدا را بہانہ ساخت کا پیکر ہو گیا ۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ دینی طبقات کو ملکی نظام چلانے کی اہلیتوں کے حصول کے مواقع فراہم کئے جائیں ۔
اتفاق سے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تھا اور اوپن یونیورسٹی اصلاً ان لوگوں کے لئے بنائی گئی تھی جو کسی بھی وجہ سے باقاعدہ کالجز یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تھے تاکہ اس یونیورسٹی کے ذریعے انکے لئے تکمیلی تکنیکی فنی اور دیگر انواع کی تعلیم کا فاصلاتی طریق پر انتظام کیا جائے ۔
میں نے سوچا کہ دینی مدارس کے طلبہ اپنی تعلیمی مصروفیات کے باعث رسمی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف ہماری جامعات معمولی درجہ میں تفسیر حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم دے کر ایم اے کی اسناد دیتی ہیں تو کیوں نہیں یہ کیا جائے کہ دینی مدارس کے نصاب کو یونیورسٹی میں درجاتی کریڈٹ دیا جائے مدارس کے اساتذہ کو یونیورسٹی ٹیوٹر مقرر کیا جائے اور دینی مدارس کے بعض متروک مضامین جو وقت کے تقاضوں کے مطابق ضروری ہیں فاصلاتی طریقہ سے پڑھا دئے جائیں اور یونیورسٹی امتحان لے کر میٹرک سے پی ایچ ڈی تک ڈگری دیا کرے ۔۔مدارس کے نظم کو محفوظ رکھنے اور ان کا مالی تعاون کرنے کے لئے یہ بھی سوچا کہ طلبہ کے داخلے مدارس کے توسط سے کئے جائے اور مدارس کے اساتذہ کو یونیورسٹی کا ٹیوٹر لگا کر ان کی آمدنی میں اضافے کی راہ نکالی جائے ۔
یونیورسٹی اتھارٹیز اس پروگرام کے خلاف تھیں ۔ایسے میں مجھے باہر سے صرف مرحوم ڈاکٹر محمود غازی اور ڈاکٹر ایس ایم زمان کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔آخر بہت مشکل سے اتھارٹیز کو رضامند کرنے کے بعد میں نے مختلف وفاقوں اور مدارس سے رابطے کرنا شروع کئے ۔مجھے بریلوی اہل حدیث اور شیعہ وفاقوں کی طرف سے بھر پور یقین دہانی کرائی گئی ۔لیکن دیوبندی وفاق کو اس کی افادیت باور کروانے میں مجھے بہت وقت محنت اور وسائل خرچ کرنا پڑے، ایک سے زائد مرتبہ وفاق کے اجلاسوں میں بھی پروگروام پیش کیا ۔کراچی جاکر مولانا سلیم اللہ خان سے بھی ملاقات کی اور باقاعدہ ایک معاہدہ طے ہوا ۔اس کے مطابق مجھے 8–9 ماہ کے بعد یہ پروگرام لانچ کر دینا تھا ۔لیکن ایک دن اچانک میرے آفس میں وفاق المدارس کے ایک نمائندہ وفد کے ارکان یکے بعد دیگرے آنا شروع ہو گئے ۔جب سب تشریف لا چکے تو میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ ہم اس لئے آئے ہیں کہ جو پروگرام ہمارے درمیان طے ہوا اس پر فورا اور اسی سمسٹر سے عمل در آمد کیا جائے ۔میں نے اپنی مشکلات اور یونیورسٹی کا طریق کار سب کچھ عرض کیا لیکن وفد میں موجود استاذ گرامی قدر مولا نا نذیر احمد صاحب ؒ کی وجہ سے میں نے ہامی بھر لی اور قہر درویش بر جان خویش کے مصداق دن رات کام کر کے پروگرام شروع کر دیا ۔جب میرے پاس داخلوں کی تفصیل آئی تو معلوم ہوا کہ دیوبندی وفاق سے کوئی طالب علم داخل نہیں ہوا ۔
مرے تھے جن کے لئے ۔ ۔ ۔ ۔
حیرت ہوئی۔مولانا محمد زاہد(فیصل آباد والے) سے معلوم کیا تو انہوں نے صرف یہ کہا کہ
’’علما ء کرام نے رجوع کرلیا ‘‘
بعد میں دیگر ذرائع سے معلوم ہوا کہ مولانا سلیم اللہ خان نے تمام مدارس کو ایک سرکلر جاری کر دیا تھا کہ طفیل ہاشمی کا پروگرام مدارس کے خلاف حکومت کی سازش ہے اس میں کوئی طالب علم داخل نہ کروایا جائے ۔اگرچہ میرے پاس ثبوت کوئی نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ یونیورسٹی کی جس میٹنگ میں یہ پروگرام منظور کیا گیا اس وقت کے وفاقی سکریٹری ایجوکیشن بھی اس کے ممبر تھے ۔میٹنگ کے بعد انہوں نے تنہاء میں مجھے کہا
یہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ مدرسوں کے مولوی اگر ڈگری لے کر سی ایس ایس کر کے بیورو کریسی میں آجائیں گے تو ہمارے بچے کہاں جائیں گے ۔میں نے انہیں جواب دیا کہ کہاں سی ایس ایس؟ بیچارے تعلیمی اداروں میں چلے جائیں تو بھی بسا غنیمت لیکن وہ بہت منجھے ہوئے اور سینئر بیورو کریٹ تھے اور مستقبل کو دور تک دیکھ سکتے تھے ۔مجھے شبہ ہوتا ہے کہ مولانا سلیم اللہ خان تک سازش تھیور ی انہوں نے نہ پہنچائی ہو، اور دیوبندی علما ء سازش کے خوف کا بآسانی شکار ہو جاتے ہیں ۔ اس حادثے کے نتیجے میں مختلف اہل علم اور اہل اللہ کے تقوی دانش کردار کی بلندی اور بے شمار خوبیوں سے متعارف ہو کر ایک نظریہ نہ بنانا میرے بس میں نہیں تھا ”
میرے قلم کار دوست عنایت شمسی صاحب نے اس پوسٹ پر یوں تبصرہ کیا:
’’بالکل حق بجانب ہے آپ کا خیال۔ یہ حضرات گرامی لوگوں کو صرف اور صرف مولوی بنانے اور مدارس کی تعداد میں اضافہ کرتے چلے کے بجائے دعوت کا نبوی منہج اختیار کر کے زندگی کے ہر شعبے کو اہمیت دیتے تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی۔ ستر کی دہائی میں محمود شام نے جناب مفتی محمود کا ایک انٹرویو کیا۔ ایک سوال تھا مدارس سے ہر سال بڑی تعداد میں طلبہ نکلتے ہیں، کیا ان کے لئے روزگار کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا؟ مفتی صاحب جواب میں پوری قطعیت کے ساتھ کہتے ہیں:
"نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے، یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ معاشرے میں مدارس کے فضلا کی کھپت طلب سے کہیں زیادہ ہے۔ مدارس تو معاشرے کی ضرورت اور طلب کو ہی پورا نہیں کر پا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔”
بلاشبہ ستر کی دہائی میں صورتحال ایسی رہی ہوگی، مگر کیا آج کے حالات نے اس بات کی "بصیرت افروزی” پر سنجیدہ سوال نہیں کھڑا کیا ہے؟ روایتی دینی طبقہ صرف ایک شعبے کی لکیر پیٹنے کے بجائے ہمہ گیر محنت پر کاربند ہوجاتا تو نہ صرف آج مدارس کے طلبہ کو روزگار کے معاملے میں ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہونا پڑتا اور نہ ہی سرکاری اداروں اور ذرائع ابلاغ کے تئیں کوئی فرسٹریشن پیدا ہوتی۔
پاکستان میں کئی مکاتب فکر کے لوگوں نے انتہائی سنجیدگی اور مہارت سے اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے ۔ آج وہ قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مضبوط بنائے ہوئے ہیں۔ اقلیت میں بھی اکثریت کا روپ دھارا ہوا ہے۔ اور آپ کے حصے میں فقط رونا دھونا رہ گیا ہے۔ وہ اپنے تمام مفادات انتہائی عقل مندی سے محفوظ کر کے سکون سے بیٹھے ہیں۔ اور آپ کے مدارس کو اب بھی "تحفظ” کے خطرات کا سامنا ہے اور آپ کے اسلام کو ستر سال بعد بھی آج وقتا فوقتا ہنگامی "زندہ باد مہم” کی آکسیجن کی ضرورت رہتی ہے۔
جب آپ کا حال ہی یہ ہو کہ آپ سے محبت رکھنے والے ایک کلین شیو مسلمان کے ہاتھ پورے خطیبانہ طمطراق کے ساتھ انتہائی کراہت سے یہ کہتے ہوئے جھٹک دیے جائیں کہ "کیا شکل بنائی ہوئی ہے، یہودیوں کی شکل بنائی ہوئی ہے۔ ۔ ۔” (یہ میرا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے) تو بابا آپ کی قسمت میں صرف اور صرف دجالی میڈیا کا رونا رہ جاتا ہے۔ یقین کریں اس سوچ، اس رویے اور اس کردار کے ساتھ جتنا وقت آپ گزارتے چلے جائیں گے، اتنا ہی بے اثر، بے وقعت اور بے کار ہوتے چلے جائیں گے!شکریہ حقانی میاں، آپ نے اپنے حصے کا فرض نبھانے کی ایک اور اچھی کوشش کی ہے۔ یہ کوشش جاری رکھئے، آخر پتھر پہ جونک پڑ ہی جائے گی‘‘۔
بہت سارے احباب کے سنجیدہ کمنٹس اس لیے مقتبس نہیں کیے جاسکے کہ جو جگہ دل میں ہے وہ کاغذ کے ان اوراق میں کہاں؟ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button