کالمز

مرغیوں کے بہکاوے میں مت آئیں

ایم ایم قیزل

یہ کہانی آپ نے ضرور سنا یا پڑھا ہو گا کہ ایک مرتبہ ایک کسان نے عقاب کے انڈے کو اپنے فارم میں لے آیا اور اسے اپنی مرغیوں میں سے ایک کے ڈربے میں رکھ دیا ۔ ایک دن اس انڈے میں سے ایک پیارا سا ننھا عقاب پیدا ہوا جس نے اپنے آپ کو مرغی کا چوزہ سمجھتے ہوئے پرورش پائی اور مرغی سمجھ کر بڑا ہوا۔ وہ زندگی بھر اپنے آقا کا دیا ہوا دانہ دنکا چگتا رہا اور پوری زندگی اس صحن کی مٹی میں لٹ پٹ ہو کر کیڑے مکوڑے کھاتا رہا۔

ایک دن باقی مرغیوں کےساتھ کھیلتے ہوئے اس نے آسمان کی بلندیوں پر کچھ عقاب اڑتے دیکھے۔اور حسرت سے ایک آہ بھری اور خود  سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ’’کاش میں بھی ایک عقاب پیدا ہوا ہوتا اور آسمان کی ان بلندیوں کا پرواز کرتا ۔  جب اس  خواہش کا اظہار دوسری مرغیوں پر عیان ہوا  تو انہوں نے اس کا تمسخر اڑایا اور قہقہے لگاتے ہوئے کہا تم ایک مرغی ہو اور تمہارا کام عقابوں کی طرح اڑنا نہیں۔تم ایک پالتو حقیر پرندہ ہو، تمہارا کام آقا کا دیا ہوا سستا اناج کھانا اور انڈے دینا ہے ۔ یو ں اگر باغیانہ روش اختیار کرو گے تو نہ  صرف تم لقمہ اجل بنو گے بلکہ ساتھ ساتھ ہمیں بھی زندان نما پنجرے کی صحبتیں سہنے پڑئنگے۔ یہ سن کر اس عقاب نے اڑنے کی حسرت دل میں دبائے مرغیوں کی طرح جیتا رہا، راہ چلتے جس کسی نے بھی خیرات میں جو دانہ ڈالا چگتے اپنی حسرتوں پہ روتا رہا  اور ایک  دن ہوا یوں کہ ایک دانا و بینا شخص کا یہاں سے گزر ہوا ۔ دیکھتا کیا ہے  کہ ایک شاہین مرغیوں کے ساتھ اپنی شناخت بھولے دانے چگ رہا ہے ۔ دانا شخص اس عقاب سے گویا ہوا ۔

آخر تمہیں ہوا کیا ہے تم ایک عقاب ہو،تمہارے اندر خدا نے پرواز کی صلاحیت رکھا ہے ،تم  سمندر میں غوطہ مارنے کی صلاحیت رکھتے ہو، تمہارا خوراک تمہاری محنت و خون پسینے کا حاصل تازہ غذا ہے اور تم پرندوں کا بادشاہ ہو۔ تم ایک آذاد مخلوق ہو جسکا نشیمن بلند و بالا پہاڈوں کی چوٹیاں ہے ، تو کہاں ان مرغیوں کی باتوں آئَے ہو،  چل میں تجھے پہاڈ کی چوٹی پر لےجاتا ہوں جہاں تیرے آباواجداد کا نشمین ہے۔ تجھے اس پہاڈ کی چوٹی سے پھنک دو گا اگر تو ڈر گیا تو زمین سے ٹکرا کر مر جاوگے اور اگر ہمت کی توبادِ مخالف تجھے آسمان کی بلندیوں میں لے جائے گا۔تجھے تیرا کھویا ہوا شناخت مل جائَے گا۔

عقاب یہ باتیں سن کر پہلے تو ڈر سا گیا کہ کہیں دوسرے مرغیوں کو پتہ چلے تو وہ اسکا شکایت کہیں اس ظالم کسان سے نہ کرئے جو اسے زندان میں ڈال کر ظلم کی انتہا کرے گا۔ مگر عقابی روح جو ایک بار اس میں بیدار ہوئی تو کہاں کا ڈر اور کس کا ڈر، اور اس دانا، ںڈر و بہادر آدمی کے ساتھ چل دیا، اس عقلمند انسان نے اسے پہاڈ کی چوٹی سے پھنک دیا، عقاب تیزی سے زمین کی طرف گرنے لگی لیکن جونہی اپنے پر کھول دیَے آسمان کی بلندی کی طرف اڈان بھرنے لگی ۔

اگر دیکھا جائے تو ہماری قوم کا بھی حال کچھ ایسا ہی ہے قدرت نے جس احسن تقویم پر انسان کو جن خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ انسان اس معاشرےمیں کہیں ڈونڈھنے سے بھی نہیں ملتا۔ نہ جانے اس  سیدھی قامت اور دو ٹانگوں سے چلنے والی اس مخلوق کو کس قسم کے رائلر مرغی کے زیر سایہ پرورش  ملی ہے کہ جس کے ہاتھ سے علم کی دریا بہتی تھی۔ جس کے پیر ہزاروں میل کا راستہ چل کر بھی نہیں تھکتے تھے۔ جس کے خیال اور ہمت ایسی کہ وہ  بادل سے اوپر سیاروں تک کو تسخر کرنے کی جستجو میں رہتے۔اسکی تیراکی ایسی  کہ سمندری مخلوق  دھنگ رہ جاتے۔ اس کی آنکھیں ایسی کہ غیب کی رازوں کو نمایاں کرئے اورانکے کان ایسے ستاروں پر پہنچے انسانوں سے ہم کلام ہو جائَے ۔کبھِی پہاڑوں کے اندر سرنگیں بنائے تو کبھی آبشاروں کو ہوا میں معلق کر دے۔ کبھی سمندروں کا رخ موڈے تو کبھی ریگستانوں کو سیراب کرے ، وہ انسان آج مرغیوں کی طرح سبسڈی گندم کھانے پہ مجبور ہے  وہ انسان آج بنیادی انسانی حقوق سے محروم اپنی ہی صحن سے  آسمان پر ان ہی جیسے انسانوں کی اڈان دیکھ کر خواہشوں کی آگ میں جلنے ہر مجبور ہے ۔ وہ انسان آج خوف و ہراس میں مبتلا سہما ہوا ہے۔ ایک دنیا جہاں انسان تسخیر کائنات میں مصروف عمل ہے وہاں اس معاشرے کا انسان ذہنی غلامی کے اشکنجےمیں جھکڑا ہوا ہے۔ اس معاشرے  کی ذہن سازی بھی انہی مرغیوں کی طرح ہوئی ہے جو اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا ایک جرم سمجھتے ہیں، انہیں دانہ چکنا سکھایا گیا ہے۔انکی شناخت کو مسخ کر کے انہیں فارمی مرغی بنا دیا گیا ہے۔

تو ایسا میں کیا کیا جائَے ؟ایسے میں ایک ایسا باہمت ، ںڈر ، بے باک ، بہادر، دور اندیش ، عاقل، انسان پرست، رہمنا کی ضرورت ہے جو ہمیں بھِی اس عقاب کی طرح  خود شناس بنائَے ، جو اس معاشرے کو خودار بنائَے ، اور دانا و بہادر کسان سر زمین گلگت بلستان کا سپوت بابا جان ہے جو ہمیں مرغیوں کی بہکاوئے سے نکال کر ہمیں ہماری کھوئی ہوئی شناخت واپس دلائَے ۔  وہ جو ہمارے نمائندے بنے اسمبلیوں میں بٹھیے ہیں وہ پالتو فارمی مرغیاں ہے جن کا مطلب  و مقصد صرف دانہ چگنا ہے،

اگر آپ ذی شعوروعقلمند  انسان  ہیں اور آپ کے خواب آپکا زندہ ضمیر  تسخیر کائنات کے ہیں  آپ کو محنت و حلال کی روٹی کھانے کو جی چاہتا ہے عقلی عروج چاہتے ہیں انسانی عظمتوں کا ادراک چاہتے ہیں امن و انصاف چاہتے ہیں ۔ اپنے بچوں کو کرپشن و رشوت  سے آذاد روشن مستقبل چاہتے ہیں۔ اپنی کھوئی ہوئی شناخت چاہتے ہیں  تو پھر اپنے خوابوں کو عملی جامہ دیجیئے، کسی مرغی کی بات پر دھیان نہ دیجیئے کیونکہ انہوں نے آپکو بھی اپنے ساتھ ہی پستیوں میں ڈالے رکھنا ہے۔ اور یہ حکم خدا وندی  بھی ہے کہ إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا  ما  بأنفسهم یعنی یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے۔

 

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button