تحریر :اسلم چلاسی
یہ آگست1947ء کا ایک صبح ہے۔امریکہ کا صدر ٹرومین کا مراسلہ گورنر جنرل آف پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو موصول ہو تا ہے ۔جس میں امریکی صدر ٹرومین امریکی حکومت اور عوام کی طرف سے پاکستانی حکومت اور عوام کو مبارک باد کے ساتھ ڈھیر سارے نیک خواشہات اور تعاؤن کی یقین دہانی کرتا ہے جس پر قائد اعظم محمد علی جناح امریکی صدر کے نام اپنے پیغام قرطاس پر اتراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت اور عوام امریکی حکومت اور عوام کے اس جذبے کا خیر مقدم کرتے ہے اور پاکستانی عوام ایسی کسی چیز کی حصول کے خواہاں نہیں جو ان کی اپنی نہ ہو ۔وہ اقوام عالم سے اچھی تعلقات اور دوستی کے سواء کسی چیز کے طالب نہیں ہے ۔قائد اعظم محمد علی جناح کی اس خود دار اور با وقار پیغام کا نفی اس وقت ہو تا ہے جب پاکستان کا وزیر اعظم لیاقت علی خان روس کے خلوص بھرے دعوت نامے کو ٹھکرا کر امریکہ کی دعوت کو قبول کر کے واشنگٹن اےئر پورٹ پر اترتا ہے جہا ں اس کو بیجا ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نواز کر امریکی کانگرس میں دو شب کا موقع کیا ملتا ہے کہ پاکستان کے دس کروڑ عوام اپنے آپ کو آسمان کی بلندیوں میں پاتے ہیں اور یہاں سے ہمارے سو سالہ غلامی کے سفر کا آغاز ہو تا ہے۔ہم مشرقی سوچ کے حامل مغربی خود غرض اور مطلب کی یاری سمجھ نہیں پاتے ۔دو چار کوڑیوں کے عوض آس پٹروس کے حقوق ،جغرافیائی رشتے سبھی قربان کر کے بھی کچھ حاصل نہیں کر پاتے ۔امریکہ اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کیلئے روس کے خلاف ہمیں استعمال کر تا ہے ۔ہم بڑی دل جوئی سے لڑ کر روس کو افغانستان سے تو نکال دیتے ہے مگر امریکہ کو پاکستان میں ہمیشہ ،ہمیشہ کیلئے بسا دیتے ہیں ۔امریکہ پاکستان کے گردن پر پاوں رکھ کر روس کو بگانے اور چائینہ کو دبانے میں کامیاب ہو تا ہے ۔لاکھوں بے گناہ افغانی کٹ مرتے ہیں اور بے شمار جلا وطن ہو کر خانہ بدوشوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ہم روس کے خلاف تراش خراش کر جھوٹ موٹ کی من گھڑت کہانیاں گھڑ کر سادہ لو ح مسلمانو ں کو بین الاقوامی سامراجی ایجنڈے کے تکمیل کیلئے استعمال کرتے ہیں اور یہی مسلمان امریکہ کیلئے اس دور میں سب سے اہم ہوتے ہیں جن کی مدد سے امریکہ روس کو گرم پانیوں سے دور رکھتا ہے اور اپنے مقصد کے تکمیل کے بعد لاکھوں افغانیوں کے بوجھ پاکستان کے سر تھوپ کر افغانستان سے رفو چکر ہو جا تا ہے پاکستان بے یارو مدد گار مہاجرین کے بوجھ تلے دب کر تیسری دنیا کی نا کام ترین ریاست قرار پاتا ہے اور ساتھ ہی امریکہ کی وفا کا یہ عالم ہے کہ ادھر ہم افغانستان میں امریکی جنگ روس کے خلاف لڑ رہے ہیں اُدھر امریکہ ہماری ازلی دشمن بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ کر تا ہے جس میں دفاعی سازو سامان کے ساتھ برے وقت میں ایک دوسروں کے ساتھ نہ چھوڑنے کی قسمیں کھائی جاتی ہے ۔روس کے خلاف ہمیں میدان میں اتار کر دوسری جنگ عظیم کی نا کارہ اسلحہ کی معمولی کھیپ ہمارے حوالے کر کے امریکہ ہماری دشمن کو ایک کروڑ امریکی ڈالر بطور امداد دینے کا اعلان کر تا ہے ۔دوستی نما مکاری کے جھانسے میں ہم اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ ہمیں خود ہی معلو م نہیں ہو تا ہم کہاں کھڑے ہیں پھر اچانک 9/11 کا اسرائیلی اسکرپٹ سامنے آتا ہے مغرب سے تیز ہوائیں چلنے لگتی ہیں،بحر ارب سے ہوتے ہوئے پاکستان سے گزر کر افغانستان میں داخل ہوتی ہیں ۔ہمارا عظیم دوست ماضی کی رفاقت کو بھول کر غراتے ہوئے ہمیں پتھر دور تک دھکیلنے کی دھمکی دیتا ہے ۔ادھر ہمارے مضبوط قلعے اور فصیلیں زمین بوس ہو جاتی ہیں۔خوف و ہراس کے عالم میں ہم ایک بار پھر دوستی کی قصدیں گھڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہوائی اڈے ،بندر گاہیں ،شاہراہیں اور چھاونیاں سبھی یاری دوستی پر نچھاور ہو جاتے ہیں جن لوگو ں کو ہم نے امریکہ کے کہنے پر روس کے خلاف یکجا کیا تھا ان لوگوں کے خلاف امریکہ کی مکاری میں آکر ایک بار پھر ہم صف آرا ہو گئے حالانکہ یہ لوگ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہمارے ہمدرد تھے جن کی چند سالہ دور حکومت میں ایک بار بھی سرحدی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ۔کبھی بھی سرحد پار سے کوئی گولی نہ چلی ۔انسان تو کجاسرحدی پہاڑی نسل کے کتے کا بھی بال بیگا تک نہیں ہوا ۔ہم رفیق سے حریف میں بدل گئے ان کا دائرہ تنگ کیا اپنے روایت اور اجتماعی خواہشات سے ہٹ کر بغیر سوچے سمجھے ایک بار پھر امریکہ کی چرب سازی اور دباومیں آکر عالمی سازش کے نرغے میں آگئے ۔تب سے اب تک ہمارے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا ہمارے گلیوں میں پٹاخے نہیں پھوٹتے تھے اب تو بھرے بازاروں میں بم دھماکے ہوتے ہیں انسانی ایضامیلوں تک بکھر جاتے ہیں خود کش بمبار متعارف ہوئے مسجدوں ،میزاروں ،تفریحی مقامات ،تعلیمی اداروں ،دفاعی تنصیبات کچھ بھی محفوظ نہیں رہے ۔بڑے بزرگ خواتین تو چھوڑے سکولوں اور مدرسوں کے بچے بھی لقمہ اجل بن گئے ۔دن دیہاڑے بھرے بازار سر عام ہم نشانہ بن رہے ہیں ہمارے ہزاروں شہری غیروں کے جنگ کے بینٹ چھڑ گئے ۔کھربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوا امریکی عوام آرام سے قدرتی موسموں کا لطف اٹھاتے رہے ہم سال کے چاروں موسموں میں صرف ماتم کر تے رہے اور لاشیں اٹھاتے رہ گئے ۔سمندر پار کی جنگ آج ہم اپنی گلی محلوں میں لڑ رہے ہیں اچھے خاصے محب وطن شہری جو برے وقت میں بغیر تنخواہ کے ملک و ملت کیلئے دستیاب رہتے تھے وہ آج امریکہ کی وجہ سے ہمارے افواج کے ساتھ دو بہ دو ہے ۔پوری پختون پٹی پاکستان کیلئے قابل فخر اثاثہ کی حیثیت رکھتی تھی وہاں پر آج سخت بد دلی پائی جاتی ہے ۔کشمیر کا مسئلہ امریکہ جنگ سے قبل جس نہج پر تھا آج وہاں موجود نہیں ہے بھارت عالمی سطح پر پاکستان کے دوست برادر ملکوں کو ہائی جیک کر چکا ہے پوری دنیا میں پاکستان خوف کا علامت بن چکا ہے کوئی بھی تاجر ،سفارت کار یا سیاح یہاں آنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی ہمارا دوست ہمارے دشمن کی مفادات کے خیال رکھنے کا برملا اظہار کرتا ہے ۔بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیر اجازت کے باقاعدہ ریاست کے اندراپنے فوجیوں کو داخل کر کے اپریشن کرتا ہے اور ساتھ ہی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئندہ بھی ایسے اقدامات کرنے کی دھمکی دیتا ہے ۔ایسے دوست کی دوستی کو کیا کہے جس کی دوستی میں ہمارا دشمن مضبوط ہو رہا ہے ۔ساری نوازشات اور کرم کے دروازے ہمیشہ ہمارے دشمن کیلئے کھلتے ہیں ۔ہمارے دوست کی گود میں بیٹھ کر ہمارا دشمن ہمیں ہانکتا ہے ہم سے مزید کا مطالبہ کر کے ہمارے دوست امریکہ ہمارے دشمن کو موقع فراہم کر تا ہے لیکن ہم ہے کہ نثار پر نثار ہو رہے ہیں ۔بارو بار کی بے وفائی اور آزمائشوں کے باوجود بھی امریکہ کا اصیب ہمارے سر پر سوار ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی قائدین امریکہ سے یاری رکھ کر اپنے دشمن کو مزید مضبوط کر کے اپنے آپ کو کھوکھلا کر دیتے ہیںیا امریکہ کے ساتھ برابری کی بنیاد پرقائد کے فرمان کے مطابق اچھے تعلقات کے حد تک رہ کر 70سال کا صلہ پاتے ہیں ۔لیکن ماضی کا تجربہ بتایا ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ صرف اور صرف اپنے مقصد کیلئے پاکستان کو استعمال کیا ہے ۔ایسے مقصدی اور مطلبی دوست کی یاری سے دور رہنا بہتر ہے اس لئے قائد نے امریکی صدر ٹرومین کے پیغام پر جرات مند جواب دیا تھا کہ پاکستانی قوم کسی ایسی چیز کی خواہش نہیں رکھتے جو ان کی اپنی نہ ہو ۔چونکہ قائد امریکیوں کے نفسیات سے بخوبی آگاہ تھے ہم نے ان کی تعلیمات پر عمل نہیں کیا اس لئے آج ہم نقصان اٹھا رہے ہیں ۔امریکی فحش ترقی اور نام نہاد امریکی جنگ دونوں ہمارے نہیں ہے مگر ہم نے غیروں کی چیزوں کو اپنا بنایا اسلئے آج ہم لہو لہان ہے ہمیں صرف اپنے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ یہ بے جا یاری ہمیں فائدے کی بجائے مزید نقصان پہنچا سکتی ہےِں۔
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔
save the bears plzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzz