غالب کی غالبیت
ندیم احمد فرخ
کون جانتا تھا مغلوں کے دور میں کہ بلی مارا کے محلے اور گلی قاسم خان میں ٹاٹ کے پردوں کے پیچھے بیٹھا وجود جس کا نام اسد تھا وہ آنے والے زمانہ میں اردو کے میدان کا اسد( شیر) بننے والا ہے اور ایسا اسد بنے گا جو کہ تمام سامنے آنے والوں پر غالب آجائے گا۔ اور کوئی داغ اس کی اردو شاعری میں اہمیت کو کم نہیں کر سکے گا ۔ اور شاہ کے مصاحبوں سے زیادہ مغل دور کی نشانی غالب بن جائے گا۔
اسی لئے تو شیخ محمد اکرم نے لکھا ہے کہ تاج محل سنگ مرمر کی تراش خراش کا بہترین امتزاج ہے اسکی نقش و نگاری کو ہیرِ جواہرات کی جڑاؤ کاری نے بہترین مرقع بنا دیا ہے اسی طرح غالب کی شاعری اور ان کا کلام ہے جس طرح مغلوں کا نام روشن رکھنے کے لئے ایک تاج محل کا نام کافی ہے اس طرح اردو غزل گوئی کو حیات جاوداں بخشنے کے لئے غالب کا دیوان کافی ہے ۔
تمام شاعر اپنے نام کا استعمال اشعار میں کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ معروف ہو جاتے ہیں اسی طرح اسد اللہ نے شروع شروع میں اپنے اشعار میں اسد کا لفظ استعمال کیا مگر اس زمانہ میں اس نام کے اور بھی شعراء تھے جس کہ وجہ سے اس بات کا خدشہ تھا کہ اسد اللہ کے اچھے اشعار دوسرے اسد کے نام سے منسوب نہ ہو جائیں اور دوسرے اسد کے برے اشعار کہیں اس اسد سے منسوب نہ ہو جائیں اس لئے اسد نے غالب لکھنا شروع کیا اور شعری میدان میں غالب آگیا اگر اردوشاعری کی تاریخ دیکھیں تو اس میں غالب کے نام سے بھی کئی اشعار آئے
غالب تخلص کے اور کئی شاعر اردو شاعری کی تاریخ میں ان کے دوش بدوش موجود رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جس شہرت اور جس مرتبہ کو مرزا غالب پہنچتے وہ کسی دوسرے غالب کو میسر نا آیا ورنہ ان میں صاحب کلام شاعر بھی موجد ہیں جو اساتذہ قدیم کی صف میں آتے ہیں۔ غالب کے تخلص رکھنے والوں میں۔
مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب،مکرم الدولہ بہادر بیگ خان دہلوی،غالب علی خان غالب،نواب مرزا امام علی خان غالب،نواب سید الملک اسد اللہ خان غالب(مرزا نوشہ کے ہم تخلص ہونے کے ساتھ ساتھ ہم عصر بھی تھے )، حکیم محمد خان غالب،انور علی غالب، لالہ موہن لال غالب،حاجی میاں غالب،دکنی غالب
مگر بلی مارا کے محلے والے مرزا اسد اللہ خان غالب نے جو عزت و شہرت پائی اس میں ان کاکوئی ہم پلہ نہیں ہے اسی لئے تو
پروفیسر رشید احمد صدیقی فرماتے ہیں
عہد مغلیہ نے ہندوستان کو تین چیزیں عطاء کیں تاج محل، اردو زبان اور مرزا اسد اللہ خان غالب
موجدہ زمانہ میں موبائل ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا نے چند شعراء کے نام سے منسوب اشعار کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے ان میں غالب اور فراز سر فہرست ہیں یہ دونوں شعراء عہد ساز شعراء تھے پرانے زمانہ میں غالب اور موجودہ زمانہ میں فراز صاحب مگران دونوں شعراء کو بدنام کرنے میں سوشل میڈیائی شعراء نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور بے وزن اور بے تکے اشعار میں غالب یا فراز لگا اردو و ادب کا جنازہ خوب دھوم سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔
خیر غالب کی اردو ادب میں چھاپ کو مٹانا اور اسے بدنام کرنا اب اتنا بھی آسان نہیں ہے غالب کے اشعا ر کو لوگوں نے کئی طور سے دیکھا ہے اور ان کی بہت ساری تشریحات بھی لکھی گئی ہیں غالب کے اشعار میں ہمیں زندگی کا ہر رنگ ملتا ہے غالب کے اشعار میں موجود الفاظ سے متاثر ہو کر لوگوں نے اپنی تصانیف کو نام دیئے ہیں جو کہ غالب کی غالبیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں مثلاً
غالب کا موجودہ دیوان جس شعر سے شروع ہوتا ہے وہ ہے
’’ نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصوریر کا ‘‘
’’نقش فریادی ‘‘ محترم فیض احمد فیض صاحب کا پہلا منظوم مجموعہ کلام ہے یہ کلام ۱۹۴۱ میں منظر عام پر آیا اسی مجموعہ میں فیض احمد فیض صاحب کی مشہور زمانہ غزل بھی ہے ’’ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب کا مانگ‘‘ فیض صاحب کی نظم ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز میں اتنی مشہور ہوئی کہ محترم فیض صاحب نے ایک موقعہ پر فرمایا تھا کہ یہ غزل اب میری کہاں ہے یہ تو ملکہ ترنم نور جہاں کی ہے ۔
غالب کے اسی شعر کے پہلے مصرے میں’’ شوخی تحریر‘‘ ہے اور اسی نام سے سید محمد جعفری کے مجموعہ کلام کا بھی نام ہے ان کی اصل وجہ شہرت شاعری اور مصوری ہے اور یہ اکبر الہ ٰ آبادی کی طرز پر بڑے شاعر تھے پیروڑی میں کمال حاصل تھا جس پیروڈی کو سب زیادہ شہرت ملی وہ نظیر اکبر آبادی کی نظم ’’ جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘ ہے ان کی وفات کے بعد مجموعہ کلام ’’شوخئی تحریر’’ منظر عام پر آیا
تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعہ خیال ابھی فرد فرد تھا
’’ نسخہ ہائے‘‘ وفا پاکستان کے کی سرزمین کے عظیم شاعر فیض احمد فیض کا مجموعہ کلام ہے
وہ میری چین جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
رازِ مکتوب بہ بے ربطی عنواں سمجھا
’’ چین جبین ‘‘ کے درمیاں بہ لگانے سے اردو کا محاورہ بن جاتا ہے ۔اس نام سے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کے 15روزہ دورہ چائنہ کے دوران ہونے والے تجربات پر مشتمل ایک سفر نامہ ہے جس کا نام انہوں نے ’’ چین جبین’’ رکھا ۔
دردِ دل لکھوں کب لگ جاؤں ان کو دکھلاؤں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا
ارود کے مزاحیہ شاعری کی تاریخ میں ایک عظیم شاعر دلاور فگار ہیں ان کے بہت سارے مجموعے کلام شائع ہوئے ان کے ایک شعری مجموعہ کا نام غالب کے اسی شعر سے مستعار لیا لگتا ہے ان کے شعرے مجموعہ کا نام ’’انگلیاں فگار اپنی ‘‘ ہے
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیان اور
غالب کے اس شعر میں لفظ سخن ور کے نام سے سلطانہ مہر کی چار جلدوں پر مشتمل ایک تصنیف ہے جس میں پاکستان کے اردو شعرا کا تذکرہ ہے اور اسی نام سے ایک ادبی ماہنامہ کوثر نقوی نکالتے ہیں
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
غالب کے اش شعر میں فقرہ ’’ وہ آئیں گھر میں ہمارے‘‘ عبد القوی ضیا علیگ کی خاکوں پر مشتمل ایک کتاب ہے
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں
بزم آرائیاں کے نام سے معروف مزاح نگار کرنل محمد خان صاحب کا مضامین کا ایک مجموعہ ہے اس کتاب کی ایک تحریر’’ قدرِد ایاز‘‘ کو ادرو زبان کی شہکار تحریروں میں شامل کیا جاتا ہے
تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں
ڈپٹی نذیر احمد کا اردو کا پہلا ناول ’’ بنات النعش‘‘ جو کہ بہت معروف ہوا یہ گھریلوں مسائل پر مشتمل ہے اور اصلاح معاشرہ پر لکھا گا ہے
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہوگئیں
پاکستان کے ایک مشہور کالم نگار عطاء الحق قاسمی جن کے دلیرانہ کالموں کا مجموعہ ہے’’ روزن دیوار‘‘ ایک اور برا نام شورش کاشمیری جو کہ سیاست ، خطابات اور صحافت و تاریخ کا ایک بڑا نام ہیں انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے موقع پر اپنی باغایانہ تقاریر سے آٹھ سال قید و بند کی صعوبت برداشت کئیں ان کی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب ’’ پس دیوار زنداں ‘‘
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کے اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
پروفیسررشید احمد صدیقی کے ہم عصروں کے خاکوں پر مشتمل ایک کتاب ہے جس کا نام ہے ’’ گنج ہائے گراں مایہ‘‘ ہے
کیا بیاں کر کے میرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری
پروفیسر رشید احمد صدیقی کی آپ بیتی’’ آشفتہ بیانی میری‘‘ ہے حکومت ہند نے پروفیسر صاحب کو متعدد اعزازات سے نوازہ تھا ان کی آرام گاہ علی گڑھ ہے
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
دنیا میرے آگے اور تماشا میرے آگے اردو کے معروف شاعر جمیل الدین عالی کے سفر نامے ہیں
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جمیل الدین عالی کے اظہاریوں کا انتخاب دو ضخیم مجموعوں ’’ صدا کر چلے‘‘ اور دعا کر چلے کی صورت میں شائع شدہ ہیں
تیرا اندازَِ سخن شانہ زلف الہام
تیری رفتار قلم جنبش بال جبریل
بال جبرئیل کے نام سے پاکستان کے مشہور شاعر علامہ محمد اقبال کا کلام ہے
بخشے ہے جلوہ گل ذوق تماشا غالب
چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا
پروفیسر شیخ محمد اقبال کی تصنیف کا نام ’’ ذوق تماشا‘‘ ہے یہ نابیناؤں کے انتالیس اہم مسائل پر مبنی ادبی مزاح کی حامل کتاب ہے
کہاں تک روؤں اس کے خیمے کے پیچھے قیامت ہے
مری قسمت میں یارب کیا نہ تھی دیوار پتھر کی
سید قاسم محمود صاحب جو کہ اردو کے مشہور افسانہ نگار اور کئی انسائیکلوپیڈیا کے مصنف ہیں ان کی دس کہانیوں کا مجموعہ ہے جس کا نام دیوار پتھر کی ہے
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
لطف اللہ خان جن کی وجہ شہرت یہ ہے کہ ان کے پاس بر صغیر کے نامور لوگوں کی آوازوں کا ایک خزانہ ہے اور انہوں نے کئی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں اور ایک سفر نامہ بھی لکھا ہے ۔ ’’ تماشائے اہل کرم ‘‘ کے نام سے ان کی ایک تصنیف ہے جس میں انہوں نے کئی شاعروں اور ادیبوں کے خاکے لکھے ہیں
وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مرگیا غالب آشفتہ نوا کہتے ہیں
ڈاکٹر آفتاب احمد خان کے مضامین کے مجموعے کا نام ہے یہ مضامین کلام غالب زندگی کے حادثات اس زمانے کے تاریخی حالات اور سماجی فضا سے متعلق ہیں ہیں
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
نوائے سروش کے نام سے مولانا غلام رسول مہر نے دیوان غالب کی بے مثل شرح لکھی ہے جو کہ غالب کی شاعری سے ذوق رکھنے والوں میں نہایت مقبول ہے ۔اردو میں غالب کے مقام کو شاید ہی کوئی پاسکے اور بلا شبہ غالب کا کلام بہت سے معنوں میں اور بہت ساری درجہ بندیوں میں بے مثل ہے اور یوں لگتا ہے کہ غالب کا یہ کہنا کہ
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں غالب کا ہے انداز بیان اور
ایک ایشائی مبالغہ نہ تھا بلکہ ا ن کو اپنے کلام کی طاقت کا شاید اندازہ تھا۔
نوٹ:(اس مضمون کی تیاری میں خاکسار نے کتب کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ سے کافی مدد لی ہے)