کالمز

ایک غریب کی افطاری کی دعا

 محمد جاوید حیات

میں تڑپ تڑپ جاؤں گا تو تیری رحمت کے سمندر میں ایک طلاطم اٹھے گا تیرا عرش ہلے گا تو اپنے فرشتوں کو مخاطب کرکے کہے گا ’’لو میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ‘‘تیری بخشش تیری شان کے مطابق ہوگی۔ ۔تیری شان کبریائی کی قسم مجھے اتنا نہ تڑپا ۔۔میں چیخ کر تیری رحمت کو پکاروں گا۔۔یہ صبر کا مہینہ ہے کہیں میرے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہوجائے۔یہ وسیع کائنات یہ وسیع و عریض کائنات تیرے ایک اشارے کا منتظر ہے ۔تیری رحمت جوش میں آئے تو اشارہ کرے اور یہ میرے سامنے جھک جائے۔آقا نوحؑ نے کہا ۔۔آقا میری قوم بات نہیں مانتی تو نے بارش کو حکم دیا پل میں جل تھل زمین ظالموں سے پاک ہو گئی ۔۔موسیٰ ؑ نے کہا آقا فرعون ظالم ہے تو نے اپنے سمندر کو حکم دیا پلک جھپکنے میں فرعون اپنی فوج کے ساتھ صفحہ ہستی سے مٹ گیا ۔۔لوط ؑ نے پکارا آقا تو نے ا پنے فرشتوں کو حکم دیا ۔۔لیکن تیری رحمت کا کیا ؟ابراہیم ؑ آگ میں ،یوسفؑ کوین میں ،یونس ؑ مچھلی کے پیٹ میں ،موسیٰ ؑ سمندر میں فخر موجوداتﷺ پہاڑی کی گھاٹی میں تیری رحمت کے سائے میں رہے۔تو جو چاہے تو گدا کو شاہ، احمق کو دانا ،بیکس کو چوکس ، بے ز ر کو زردار ،محروم کو مختار،اور عاجز کو ہوشیار بنا دیتا ہے ۔مجھے پتہ ہے کہ تیری رحمت اخلاص مانگتی ہے ۔تو بندگی کی اس شان کو پسند کرتا ہے جس میں علام صرف تیرا ہو ۔تو آزما کر امتحان لے کر پاس کرکے ایک نا چیز کی شان بڑھاتا ہے ۔۔تو حکم دے کر دیکھتا ہے ۔تو پنہان رہ کر دیکھتا ہے ۔تو درد کی تہیں اتار اتار کر کان لگا کے اس آہ کا منتظر رہتا ہے ۔جو کسی ٹوٹے دل سے نکلے ۔اور سیدھا تیرے عرش تک پہنچے ۔تجھے عارضی رنگینی،دو دن کی دلکشی ،چند روزہ عیاشی پسند نہیں ۔تو قائم و دائم ہے اور عطا بھی ایسا کرنا چاہتا ہے ۔۔آقا تو خوب جانتا ہے کہ میرے حصے میں تیری دنیا سے کچھ نہیں آئی ۔گھر جھونبڑی ،شخصیت بے رونق، بیوی افلاس کی پلی ،بچے سوکھے سہمے،پاؤں ننگے ،کپڑوں کے چھتڑے ،جیب خالی ،آنکھوں میں افسردگی،کھانے کو کچھ نہیں ۔۔میں حیران و پریشان ۔۔مگر آقا۔۔جب جب تیری دنیا میں سرگردان پھرتا ہوں ۔۔۔۔تو آقا۔ لمحے لمحے تو ہی یاد آتا ہے ۔۔تیری شان کی قسم ہنستا ہوں ۔۔۔’’گاڑی والے‘‘ کی ’’گاڑی ‘‘مجھے ہنساتی ہے ۔’’جاگیردار‘‘ کی’’ حویلی ‘‘مجھے ہنساتی ہے ،’’مال مستوں ‘‘کی ’’بے کلی ‘‘مجھے ہنساتی ہے ۔’’اقتدار والوں‘‘ کی ’’بے دلی ‘‘نجھے ہنساتی ہے ۔’’اسودہ حالوں ‘‘کی ’’بے رخی ‘‘مجھے ہنساتی ہے ۔۔کہیں سے آواز آتی ہے ’’ایک دن سب فنا ہو جائے گا۔ایک رب کا نام باقی رہے گا ‘‘۔۔میں ہنستا ہوں ۔میرے پاس کچھ نہیں مگر میرا رب میرے لئے کافی ہے ۔آقا کسی نہ کسی لمحے میرا خلوص اور میری بے کس عبودیت تیری رحمت کے سمندر میں ہلچل مچا دیگی ۔۔مجھے پتہ ہے کہ تو مجھ سے بے خبر نہیں ۔میرے پل پل کا تمہیں پتہ ہے ۔اگر مجھے تیری رحمت کے سائے میں آنے سے کوئی چیز روکتی ہے تو وہ اپنی جگہ ۔اگر کوئی تجھ سے سوال کرنے کی جرائت کرتا ہے کہ تو نے فلان کو کیوں بخشا ؟تو پھر مجھے میری عربت کی قسم سوال نہیں کروں گا۔۔مگر آقا تو تو خود مختار بادشاہ ہے ۔تیری مرضی کے آگے کسی کا کیا چلے تو خالق سب مخلوق۔۔۔۔یہ تیرا روزہ عشق ہے تو نے کہا ’’نہ کھاؤ‘‘ہم نے کہا ’’ نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں ‘‘جلوت خلوت دونوں میں تیرے عشق کا تقاضا پورا کر رہے ہیں ۔۔اگر تنہائی میں کھا پی لیں تو تیرے سیوا دیکھنے والا کون؟۔۔

آقا اگر میں اکیلا ہوتا تو صحراؤں جنگلوں کی طرف نکلتا ۔اور کسی درخت کے سائے میںِ ،کسی چٹان کی کھو میں ،کسی پتھر کی اوٹ میں ،بیٹھ کے تیرے عشق کے تقاضے پورے کرتا ۔۔۔مگر آقا۔۔میں کسی کے ہاتھوں مجبور ہوں ۔ایک بے کس عورت ہے ۔معصوم اویس اور عمیر ہیں ۔ایک پھول سی شھلا ہے ۔جب ان کی افسردہ نگاہیں میری طرف اٹھتی ہیں تو میں اپنے آپ کو بھول جاتا ہوں ۔صرف تیری رحمت یاد آتی ہے ۔وہ کالی چائے ہاتھ میں لئے گرم روٹی کا تقاضا کرتے ہیں ۔وہ پھٹے جوتے ہاتھ میں لئے نئے جوتوں کی آرزو کرتے ہیں ۔وہ گھسے کپڑے میرے سامنے نمایان کرتے ہیں ۔تاکہ میں دیکھ سکوں ۔کہ گھٹنوں پہ شلوار گھسی ہے کہنیوں پہ قمیص گھسی ہے ۔کلر تار تار ہیں ۔آقا وہ جب باہر نکلتے ہیں ۔تو گرم پکوڑوں کی بو،چمکتی گاڑیوں کی دوڑ ،نئے کپڑوں کی لشکارے،تازہ پھلوں کی دکانیں ،ٹھنڈی مشروبات کی بوتلیں ،دیکھتے ہیں ۔۔اور تیری اس وسیع کائنات کی رنگینیوں سے محروم یہ بچے میرے سامنے سراپا سوال بن جاتے ہیں ۔آقا تو نے فرمایا ’’کہ روزہ میرے لئے ہے ۔اور اس کا بدلہ میں خود ہوں ‘‘آقا میرا روزہ تیرے لئے ہے ۔مجھے پتہ ہے کہ یہ صبر کا مہینہ ہے ۔مگر چھوٹے اویس کو یہ پتہ نہیں کہ صبر کیا چیز ہے ؟۔۔ میرے صبر کے راستے میں اویس کی افسردہ نگاہیں روکاوٹ ہیں ۔میرے مولیٰ مجھے یقین ہے کہ تو نے اپنی رحمت ،اپنی معفرت کے خزانے میری طرف کھول دئے ہیں ۔کہ میں نے تم پر ایمان لایا ہے ۔آقا میری طرف تھوڑی سی اپنے غیب کے خزانے کھول دے تاکہ اویس کی افسردہ آکھیوں میں چمک اتر آئے ۔۔۔آقا یہ معاشرہ پتھروں سے بھرا پڑا ہے ۔اس کو انسانوں سے بھر دے۔۔جذبہ انسانیت،جذبہ ہمدردی،اخوت،بھائی چارہ اور ایثار کی جو اس امت محمدیﷺکی میراث تھی سے پھر اس کو مالامال کردے۔اگر ایسا ہو تو اس معاشرے میں کوئی افسردہ اویس نہیں رہیگا ۔۔کسی کا ہاتھ خالی نہیں ہوگا۔کسی کا دامن تار تار نہیں ہوگا ۔کسی کے باورچی کا چولہا بجھا ہوا نہ ہو گا۔۔میرے مولیٰ یہ روزہ عبادت نہیں عشق ہے ۔۔محبوب کا حکم عاشق بجا لاتے ہیں ۔کیا ہی حسین منظر ہے مولیٰ ۔۔نگاہیں تیرے در پہ ہیں اور تیرے خزانے کے در کھلے ہوئے ہیں ۔۔اپنی رحمت کے صدقے میری جھولی بھر دینا اپنی رحمت کے خزانے سے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button