کالمز

گلگت بلتستان اسمبلی کے اگلے انتخابات

بھارت اور گلگت بلتستان کے سیاسی نظام میں ایک بات مشترک ہے یعنی وہاں بھی ایک حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد نئے الیکشن کے لئے نگران حکومت نہیں ہوتی اور گلگت بلتستان کے امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈ ر میں بھی نگران حکومت کا آپشن نہیں ہے۔ وہاں جمہو ریت اس قدر مضبوط ہو گئی ہے کہ لوگ غیر جمہوری راستوں کا انتخاب نہیں کرتے ہیں۔ وہاں ایک منتخب حکو مت کا دور ختم ہونے سے ایک ماہ پہلے الیکشن شیڈول کا علان ہونے کے ساتھ ہی روایتی اور اخلاقی طور پر وزیر اعظم اپنی کابینہ سمت مستفی ہوتے ہیں اس دوران اکثر صدر مملکت وزیر اعظم سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ الیکشن کے بعد نئی حکو مت کے قیام تک اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں اور پھر وزیر اعظم ایسا ہی کرتے ہیں جبکہ ان کی کابینہ فارغ ہو جاتی ہے اور جب الیکشن کے بعد نئی حکومت بنتی ہے تو نئے وزیر اعظم اپنے عہدے کا حلف لیتے ہی پرانے فارغ ہو جاتے ہیں۔ قبل از وقت مستفی ہونے کی روایت اس لئے ضروری خیال کی جاتی ہے کیونکہ عوام یا اپو زیشن کو یہ خدشہ نہ ہو کہ حکومت اپنی پارٹی یا حامی لوگوں کی الیکشن کے دوران ان کو جتانے کے لئے پشت پناہی کر سکتی ہے۔

israrہمارے یہاں نہ تو جمہوریت مضبوط ہے اور نہ ہی ہم سیاست کو اخلاق یا اچھی روایات کی پابند سمجھتے ہیں۔اور شاید سیلف گورننس آرڈر تیا ر کرنے والوں کو بھی ہمارے ان غیر جمہوری رویوں کا ادراک نہیں تھا اس لئے انہوں نے اس بات کا ادراک نہیں کیا کہ یہاں ایک دفعہ الیکشن جیت کے آنے والوں کو کسی اصول کا بابند نہ کیا گیا تو وہ اپنے عہدے چھوڈنے سے کترآئیں گے اور اس سے جمہوری عمل کو نقصان پہنچے گا اور آئندہ آنے والی حکومتیں ان کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے ان کی قانونی مدت ختم ہونے کے بعد ایک ایک سال اضافی گزارنے کی ضد کرتی رہیں گی۔ ساتھ ساتھ اپوزیش اور حکومت میں اس دوران تناؤ بھی بڑھے گا جیسا کہ آج کل یہاں ہو رہا ہے۔

ٓایک بات تو طے شدہ ہے اور دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں یہ روایت ہے کہ کوئی بھی جمہوری حکومت اپنی مدت کے ختم ہونے کے بعد ایک دن بھی اضا فی نہیں گزراتی ہے۔ یا اپنی مدت کے ختم ہونے سے پہلے مستفی ہو کر الیکشن کا اعلان کرتی ہے یا اپنی مدت پوری کرکے عنان اقتدار نگران حکومت کے حوالے کرکے گھر چلی جاتی ہے۔ اب ہمارے ہاں اگر نگران حکومت کا آپشن نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت سے کچھ عرصہ قبل مستفی ہو جائے اور گورنر کی درخواست پر وزیر اعلیٰ اپنی مدت پوری ہونے تک عہدے پر قائم رہے اور مدت پری ہونے سے پہلے اقتدا ر نو منتخب حکومت کے حوالے کرکے فارغ ہو جائے۔ یا آخری آپشن یہ ہے کہ وفاق سے گزارش کرکے گورننس آرڈر میں ترمیم کرائی جائے اور نگران حکومت کا آپشن اس میں شامل کرادیا جائے تاکہ جس دن اسمبلی کے پانچ سال مکمل ہو جائیں تو اقتدار نگران حکومت کے حوالے کی جائے پھر حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق سے بنی ہوئی نگران حکومت ہی الیکشن منعقد کرالے گی۔ 

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کا چناؤ 11 دسمبر 2009 کو عمل میں آیا تھا اس حساب سے11 دسمبر 2014 کو ہماری حکومت اور اسمبلی کے پانچ سال مکمل ہونگے۔ اس مدت کے اندر یا تو موجودہ حکومت کو انڈیا کی طرح انتخابات کراکے اقتدار نئے لوگوں کے حوالے کرنا ہے یا وفاق سے کہہ کے نگران حکومت کا آپشن گورننس آرڈر میں شامل کراکے ٹھیک 11 دسمبر 2014کو اقتدار نگران حکومت کے حوالے کرنا ہے۔ دونوں صورتوں میں اقتدار مقررہ وقت کے اندر منتقل ہونا لازمی ہے تاکہ آنے والے وقتوں میں یہ ایک اچھی روایت کے طور پر جاری رہ سکے۔ محض چند روز مذید اقتدار میں گزارنے کے لئے اس مدت کو طول دینا ایک غیر جمہوری عمل ہوگا جس کا سامناکل کو اس پارٹی کو بھی کرنا پڑھے گا جو آج اقتدار میں ہے۔ عوام نے آپ کو پانچ سال دئیے تھے ان پانچ سالوں میں اچھا کیا یا برا اس کا فیصلہ عوام ووٹ کے ذریعے کریں گے آپ کے پاس قانونی، اخلاقی اور جمہوری اصولوں کے تحت کوئی جواز نہیں ہے کہ آپ خود سے اقتدار کو طول دیں۔ اگر پھر بھی آپ نے اپنے شو ق کی خاطر ایسا کیا تو آپ پھر خود کو جمہوریت کے آمین کہنے کے حقدار نہیں ہونگے۔پھر عوام آپ سے یہ بھی پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آپ نے پانچ سالوں میں کونسا تیر مارا ہے جو اگلے چند ماہ میں گلگت بلتستان کی تقدیر بدل دیں گے لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ آپ خود کو جمہوری اصولوں کے پابند رکھیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button