کالمز

خیبرپختونخوا کے چوہے اور گلگت بلتستان کے مینڈک

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے سپیکر فدامحمدناشاد نے گزشتہ دنوں ایک مقامی اخبار سے گفتگو میں اپنے سمیت قانون ساز اسمبلی کے ممبران کو انتہائی لاچار اور بے بس قراردیتے ہوئے خود کو کنوئیں کے مینڈک کی مانند قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک پاکستان کی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کے نمائندے نہیں ہونگے اس وقت تک اس خطے کے حوالے سے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جتنا مرضی شور مچائیں وفاقی حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہم کنوئیں کے مینڈک کی طرح ہیں،ہماری آواز سننے والا کوئی نہیں۔
سپیکر صاحب کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب گلگت بلتستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت کواپوزیشن جماعتوں اور عوام الناس کی جانب سے ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ خان کی قانون ساز اسمبلی میں کئی گئی دھواں دار تقریر پر شدید تنقید کا سامنا تھا۔ جس میں ڈپٹی سپیکر کا یہ رونا تھا کہ خطے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں آئے ایک سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود وہ یعنی عوام کے منتخب نمائندے عوامی فلاح وبہبود اور علاقے کی تعمیر وترقی کے لئے کوئی خاطرخواہ اقدامات نہیں کرسکیں‘ جس باعث عوام کے سامنے کی ندامت ہورہی ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے ببانگ دہل اس بات کا اعتراف کیا کہ گلگت بلتستان کی طاقور بیوروکریسی عوام کے منتخب نمائندوں کو کسی خاطر میں لائے بغیر اپنے من چاہے فیصلے کرتی ہے جوکہ صوبائی حکومت کے لئے بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حاجی فدا محمد ناشاد اور جعفراللہ خان کا شمار گلگت بلتستان خاص طور پر حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک نمایاں مقام حاصل ہے جبکہ بلحاظ عہدہ بھی انکی ایک خاص اہمیت ہے۔یہ دونوں رہنما ہمیشہ سچائی ،حق گوئی اور دلائل پر مبنی بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں‘ اسی لئے ان کی باتوں میں وزن اور کھراپن موجود رہتا ہے۔ ان کی جانب سے میڈیا میں آنے والی خبریں وقتی طور اعلیٰ حکومتی قیادت پر ناگوار گزی ہونگیں مگرحقیقت میں یہ حکومتی ذمہ داران کے لئے انکی کارکردگی کا آئینہ دار ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں جب تک ایوانوں کے اندر حکومتی بنچوں سے سوالات نہیں اٹھائے جاتے ‘اقتدار کے نشے میں مست حکمرانوں کو اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے کی توفیق نہیں ہوتی ۔پھر جب پانی سرپر سے گزرجانے کے بعد ہوش آجائے تو حکومتی مدت اختتامی سفرپر گامزن ہورہی ہوتی ہے۔
یہی کچھ گلگت بلتستان کی سابق صوبائی حکومت کے ساتھ ہوا ‘جس دوران فدا محمد ناشاد اور جعفراللہ خان کی طرح اس وقت کے سپیکر قانون ساز اسمبلی وزیربیگ اپنی ہی جماعت کی حکومت پرایوان کے اندر اور باہر کھول کرتنقید کرتے نظر آتے تھے۔ وزیربیگ صاحب کی اس تنقید کو سیاست میں پی ایچ ڈی کے دعویدار سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ نے انا کا مسلہ سمجھ لیتے تھے اوربلا تاخیر جوابی بیانات کے زریعے خود کو صاف ظاہر کرنے کی کوششوں کرلیتے۔ جس کا نتیجہ گزشتہ انتخابات میں بدترین شکست اور پیپلزپارٹی کے صوبائی صدارت کے عہدے سے برطرفی کی صورت میں عوام کے سامنے عیاں ہوا۔کاش اگر اس وقت سابق وزیراعلیٰ اپنے سپیکر کے بیانات کا جواب دینے اور ان سے بے رخی کا رویہ اختیار کرنے کی بجائے چند لمحے کے لئے اپنی حکومتی کارکردگی کا جائزہ لے چکے ہوتے تو ہوسکتا تھا کہ نوبت اس نہج تک نہ پہنچ چکی ہوتی۔
بہرحال جو ہوا سو ہوا‘ تاہم سابق وزیراعلیٰ کی اس لاپرواہی سے پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت کو ایک تلخ تجربہ ضرور حاصل ہوا‘ تبی تو پارٹی کے موجودہ صدر امجد حسین ایڈوکیٹ قیادت سنبھالتے ہی’’ ماضی کی غلطیوں پر مٹی پاؤ اور بٹھو خاندان کو پھر سے زندہ کرواؤ‘‘والی پالیسی کے تحت مختلف اضلاع کے دوروں پر رخت سفر باندھ چکے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کی بدترین کارکردگی صرف اور صرف مہدی شاہ کی مرہون منت تھی۔بلکہ بات یہ ہے کہ مہدی شاہ چونکہ اس وقت حکومتی سربراہ اور خطے کے چیف ایگزیکٹیو تھے اسی لئے سب انگلیاں ان کی جانب اٹھ رہی ہیں۔ان سے سب سے بڑی غلطی یہ سرزد ہوئی کہ انہوں نے اپنی حکومت میں احتساب کا عنصر سرے سے شامل نہیں کیا۔ ان کے لئے لازمی تھا کہ وہ اپنی کابینہ کے وزراء ،بیوروکریسی اور اپنے چہیتوں کے کرتوت پر نظر رکھ لیتے کہ کون کس قسم کی سرگرمی میں ملوث ہے۔ بے شک وہ خود دودھ میں دھلے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں۔
ان کے دور میں سرکاری محکموں میں کرپشن ،ٹھیکوں کی بندربانٹ ،اقرباپروری اور رشوت کے عوض ملازمتیں فروخت کرنے کی کہانیاں زبان زدعام ہونے کے باوجود بحیثیت حکومتی سربراہ کبھی بھی یہ جاننے کی زحمت نہیں اٹھائی کہ آخر اس صورتحال کے ذمہ دار کون ہیں اور کیونکر یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔ بلکہ انہوں نے تو بڑے مہربان کی حیثیت سے کرپشن میں مبینہ طورپر ملوث بیوروکریٹس کو اپنے دفتر میں پناہ تک دی جوکہ نئی حکومت قائم ہوتے ہی جیل کی سیلاخوں کے پیچھے چلے گئے۔
پیپلزپارٹی کی اس قدر بدترین حکمرانی سے ناصرف پارٹی کی نئی قیادت بلکہ اقتدار میں آنے والی پاکستان مسلم لیگ(ن) کی نوزائیدہ حکومت کو بھی سبق حاصل ہونا چاہیے‘ جس کا میں اپنے گزشتہ کئی کالموں میں بھی ذکر کرچکا ہوں۔ کیونکہ ہر اچھی اور کامیاب طرز حکمرانی کے لئے ماضی سے سبق حاصل کرنا انتہائی لازمی ہے‘ چاہے وہ اچھائی کی صورت میں ہو یا برائی کی۔
شائد مسلم لیگ نواز کے صوبائی حکمرانوں کوابتدائی سال کے دوران حکومتی ترجیحات کے تعین میں اس چیز کی طرف دھیاں نہ ہوئی‘ تبی تو خود حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو آواز اٹھانی پڑرہی ہے۔ تاہم ان حکمرانوں کے پاس ابھی بہت وقت باقی ہے ‘ان کو سپیکر،ڈپٹی سپیکر کے تحفظات دور کرنے کے علاوہ اپوزیشن اور عوام کے تحفظات بھی دور کرنے کیلئے اپنی ایک سالہ کارکردگی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔وہ اس لئے کہ بظاہر تو وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن اور صوبائی وزراء میڈیا کے زریعے اپنی سرگرمیوں اور حکومتی اقدامات سے عوام کو اگاہ کرنے میں خاصے سرگرم ہیں مگر عوام کی جانب سے یہ شکایات موصول ہورہی ہیں کہ صوبائی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے ثمرات سے عوام کو برا ہ راست کوئی فائدہ حاصل نہیں ہورہا ہے۔
عوام کو مختلف امور پر قانون سازی کرنے، اسمبلی میں بلات پیش کرنے،پالیساں بنانے،ایم او یوز پر دستخط کرنے اور تقاریب سے خطاب فرمانے سے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا جوکہ سڑکوں،پلوں،واٹر چینلوں،حفاظتی بند،بجلی گھروں اور دیگر املاک کی تعمیر ، ہسپتالوں،
سکولوں اورکالجوں کی حالت زاربہتری لانے،زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقعے پیدا کرنے،سرکاری ملازمتوں پر بھرتیوں میں صرف اور صرف میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھنے،سفارش اور رشوت کلچرکو دفن کرنے،غذائی اجناس کی قلت دور کرنے ، بنیادی ضروری اشیائے کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور سب سے بڑکر علاقے میں پائیدار امن کے قیام کے لئے موثر اقدامات سے پہنچ سکتا ہے ۔اس کے لئے مربوط پالیسی اور کڑا احتسابی عمل ناگزیر ہے۔
رہی بات سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی نہ ہونے کی ‘تو اس میں عوام کا کیا قصور ہوسکتا ہے۔ عوام نے تو انہی مقاصد کے حصول کے لئے اپنے حق رائے دہی کے زریعے نمائندے منتخب کرکے قانون سازاسمبلی میں بھجوا دئیے ۔ اب یہ ان کا کام ہے کہ وہ عوام کی جانب سے اس طرح کے مشترکہ ایشو پر اسمبلی کے فلور پر بحث کریں اور اسی کو بنیاد بناکر وفاقی حکمرانوں کا گریباں پکڑے۔کیونکہ فدا ناشاد صاحب کے بقول جس طرح صوبائی حکمران وفاق سے سامنے کنوئیں کے مینڈک کی مانند ہیں اسی طرح گلگت بلتستان کے عوام اپنے صوبائی حکمرانوں کے سامنے کنوئیں کے مینڈک کی مانند ہیں۔ عوام بھی اپنے حقوق اور بنیادی مسائل کا رونا روتے ہیں مگر ان مسائل کو سنجیدگی سے سننے اور ان کا معقول حل تلاش کرنے والا کوئی نظر نہیں آرہا ہوتا ہے۔
لہذا صوبائی حکمران پہلے عوامی مسائل کا حل تلاش کرکے انہیں اس بدبخت کنوئیں سے باہر نکال لیں‘ پھروفاق سے خود کو اس کنوئیں سے باہر نکالنے کا تقاضا کریں۔ورنہ خیبرپختونخوا کے آدم خور چوہوں کی طرح گلگت بلتستان میں کنوئیں کے مینڈک حکمرانوں کا جینا محال کردیں گے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button