کالمز

گالی اور گولی

ندیم احمد فرخ

سقراط ایک عظیم فلاسفر تھا ۔سقراط کے جدلیاتی مکالمات سقراط کو فلسفہ کا استاد ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں مثلا ایک مکالمہ ہے۔ مکالمہ ملاحضہ فرمائیے۔

(۱)ہم جنس پرستی خدا کو نا پسند ہے اس لئے برا عمل ہے۔

(۲)ہم جنس پرستی برا عمل ہے اس لئے خدا کو ناپسند ہے۔

اگر آپ کا جواب اول الذکر ہے تو آپ ایک اچھے مقلد اور فرمانبردار ہیں مگر نیکی اور بدی میں خود تمیز کرنے والے نہیں ہیں۔

اور اگر آپ کے عقیدہ کے مطابق یہ دنیا اچھائی برائی میں تمیز کرنے کی امتحان گاہ ہے تو انصاف کے تقاضوں کے مطابق آپ اس امتحان میں ناکام ٹھہرے اور اگر آپکا جواب مؤخر الذکر ہے تو مذہب کو بیچ میں لائے بغیر منطقی اور سائنسی بنادوں پر بتائیے کہ یہ عمل برا کیوں ہے۔

سقراط کے اسی طرز کے سوالات نے ہی ایتھنز کے نواجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور ایتھنز کے لوگوں کو نئے پہلوؤں کی طرف سوچنے اور سمجھنے اور سوال کرنے کی طرف توجہ دلائی سقراط کا مکالمہ ہی تھا جس نے ایتھنز کے نواجونوں میں نئی روح پھونکی اور انہیں میں سے ارسطو اور افلاطون جسے عظیم شاگرد پیدا ہوئے۔

مگر دوسری طرف اس کے مکالمات نے اپنے دشمنوں کو بھی جنم دیا جنہوں نے بل آخر سقراط کو زہرکا پیلاپینے پر مجور کردیا اگر آپ مکالات افلاطون کو پڑھیں آپ دیکھیں گے کہ سقراط نے اپنے مقابل لوگوں کو اپنے سوالات اور اپنے علم سے لاجواب کردیا تھا ۔ مگر وہ اپنی باتوں اور نظریات پر اڑے رہے، اور سقراط کو جان دینا پڑی،

سوال کرنے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی اسلام میں بہت اہمیت ہے سوال کو ادھا علم اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کو جہاد قرار دیا گیا ہے ۔ مگرہمارے معاشرے میں سوال کرنا اوراختلاف رائے کا اظہار کرنا کسی مظلوم پر ہونے والے ظلم پر آواز بلند کرنا ناقابل بردارشت جرم ہیں کسی بھی سوال یا بات کا جواب دلیل سے نہ دینا بلکہ دلیل کے مقابل پر ذلیل کردینا ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔

آپکے سوال کے جواب کی جگہ، یا تو گالی ملے گی یا گولی ملے گے اگر تو آپ نے سوال کیا تو پہلے آپ کو گالی ملے گی جو کہ بطور تنببہ ہے اور اگر آپ پھر اس کانڈ سے باز نہ آئے تو اس سے اگلہ مقام گولی ہے جو آپکا مقدر ہوگا۔

پاکستان میں باضمیر لوگ اٹھتے ہیں اور سوال کرتے ہیں ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور پھر ایک اور آواز ان کو گالیاں دیتی بلند ہوتی ہے اور پھر تیسری آواز گولی کی آتی ہے اور وہ باضمیر آواز خاموش ہو جاتی ہے اور باقی آوازیں بقول جالب، انساں ہیں کے سہمے بیٹھے ہیں، خونخوار درندے ہیں رقصاں کا منظر پیش کررہی ہوتی ہیں،

کبھی اس گالی اور گولی کا سامنا سلیمان تاثیر کوکرنا پڑتا ہے اورکبھی ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ سبین محمود کو بلوچستان میں مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے اور اختلاف رائے کے مہذب اظہار کو اپنانے کی طرف توجہ دلانے کی وجہ سے گالی اور گولی ملتی ہے۔

ملتان میں ایڈوکیٹ راشد رحمان تھے وہ انسانی حقوق کی بات کرنے والے اور ایک ممتاز قانون دان تھے جنہوں نے توھین مذہب کے جھوٹے الزام میں گرفتار گئے فرد کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا اور راشد رحمان نے اس بھاری ذمہ داری کوا ٹھانا چاہا مگر پہلے ملتان کے بازروں میں مسجدوں کے منبروں پر سے ہوتے ہوئے گالیوں نے راشد رحمان کا پیچھا کیا اور پھر ایک دن ان کے آفس میں گولیوں نے ان کا سینہ چھنی کردیا۔ اور ان کی ہلاکت کے بعد کسی نے دوبارہ اس ذمہ داری کو ٹھانے کی کوشش نہ کی۔

چند ہفتوں قبل کی ہی بات ہے کہ کراچی میں مشہور صحافی اور انسانی حقوق کے علمبردار زخرم زکی کو ظلم اور مذہبی انتہاپسند ی کے خلاف آواز بلند کرنے کی وجہ سے گالیوں کو سامنا کرنا پڑا اور پھر ایک شام ہوٹل پہ کھانا کھاتے ہوئے ان کو گولیاں بھی کھانی پڑ گئیں اور انسان دوست پھر سہم کے بیٹھ گئے ۔

سلیمان تاثیر،سبین محمود،راشد رحمان، خرم زکی کو گالی اور گولی ملی کیونکہ وہ قصور وار تھے، کیونکہ انہوں نے ہم کو اصول پرست جانا ، اور پاکستان کو پرامن اور خوشحال بنانے کی بات کی ، اقلیتوں کے تحفظ کی بات کی۔ اور اندھوں کے دیس میں شیشوں کے دکان کھول لی اور ٹوٹے کانچ اٹھانے شروع کئے تھے ہاتھ تو زخمی ہونے تھے ، گالی تو پڑنے تھی گولی تو ملنی تھی۔

اور اب سلیمان تاثیر،سبین محمود،راشد رحمان، خرم زکی کے بعد مشہور اداکار حمزہ علی عباسی نے احمدیہ کمیونٹی پر ہونے والے مظالم پر آواز بلند کرنے کی کوشش کی اور سوال کیا تو اس کے اس سوال کا جواب تو نہ ملا ،گالی ضرور ملی، قتل کا فتوی ضرور ملا اور اس کا پروگرام بند کردیا گیا ۔ اگر حمزہ علی عباسی بھی اپنے پروگراموں میں اداکاری کرتا، لوگوں کو ناچتا نچاتا، ٹھمکے لگواتا، اور لیاقتیں بانٹتا ، گوٹے کناریوں والے سوٹ اور رنگ برنگ کی ٹوپیاں پہنتا تو مزے سے پیسے کماتا اسے نہ گالی ملتی نہ گولی کا فتوی مگر اس نے سوال کیوں کیا آواز بلند کیوں کی اسی لئے اس کو گالی ملی اور گولی کا فتوی بھی ملا۔

سلیمان تاثیر،سبین محمود،راشد رحمان، خرم زکی، اور اب حمزہ علی عباسی جیسے لوگ اپنے ضمیر کی آواز بلند کرتے رہیں گے لیکن ان کو خاموش رکھنے والے اپنی زبانیں حلق سے باہر اور اپنی تلواریں نیاموں سے باہر ہی رکھیں گے ۔مگر جو قوم اپنے باضمیر لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ ایسے ہی ناکامی میں رہتی ہے ۔

روح جالب سے معذرت کے ساتھ

یہ دیس ہے بند دماغوں کا
اے شعور یہاں پہپاں نہ کے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button