محمد جاوید حیات
چاچو کا کیا ہے کئی سالوں سے صاحب کے گھر میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں ۔خاندان روایتی تھا بڑے صاحب کے زمانے میں ایسا نہیں تھا ۔۔گھر میں چھوٹے بڑے مرد عورت کا الگ الگ مقام تھا ۔۔الگ الگ حیثیتیں تھیں ۔احترام ، لحاظ ، برداشت، صبر ، قناعت،ہمدردی،ایثار جیسے اوصاف سے سب متصف تھے ۔ ناز نخرے نہیں تھے ۔ بے سکونی نہیں تھی فضولیات کا اتا پتا نہیں تھا ۔۔ عجیب بات تھی۔ سب خواتیں شرم و حیا کی پیکر تھیں ۔ سب مرد شا ن و وقار کے مجسمے تھے ۔ عجیب بات تھی خواتیں ان پڑھ تھیں ۔۔پڑھی لکھی کوئی نہیں تھی۔اگر تھی بھی تو وہ پانج یا سات پڑھی تھی ۔۔صرف خواندہ تھی ۔۔مگر کردار کی دھنی ہوا کرتی تھی ۔۔چاچو کی جوانی اس گھر میں گزری تھی ۔مگر چاچو آج کے اس چکاچوند دور سے سخت نالان تھا ۔ اس زمانے میں باپ کی پسند بیٹے کی پسند نہیں ۔بھائی کی پسند بہن کی پسند نہیں ۔۔پسند پر اس وقت بھی قدغن نہیں تھی ۔مرضی اس وقت بھی تھی ۔مگر اس بات پر فخر ہوتا کہ یہ میرے بھائی نے میرے لیے خریدی ہے ۔یہ میرے ابو کی پسند ہے ۔یہ میرے بیٹے نے لایا ہے ۔اس وقت ناراضگی کو بہت اہمیت دیا جاتا ۔۔آج کل ناراضگی کو ’’مائنڈ‘‘ کہتے ہیں ۔اس وقت ناراضگی بڑھوں کی ہوتی آجکل ’’مائنڈ‘‘ چھوٹوں کی ہوتی ہے ۔۔اس وقت پسند دبی خواہش تھی آج کل پسند کلچر ہے ۔۔۔۔چاچو جب اس زمانے اور آج کے زمانے کا مقابلہ کرتا ہے تو دل ہی دل میں کڑتا ہے ۔۔مگر چاچو کی غربت نے اس پسند کو دبی خواہش ہی رہنے دی تھی ۔۔اس کے بچوں کی اپنی کوئی پسند نہ تھی۔۔اس کی بیوی کی اپنی کوئی خواہش نہ تھی ۔۔آج چاچو کو بھی روزہ لگ رہا تھا ۔۔صاحب کی بوڑھی ماں زندہ تھی ۔وہ کبھی چاچو سے اس زمانے کی باتیں کر کر کر کے دل بہلاتی ۔آج صاحب کا سارا خاندان عید کی شاپنگ پے تھا ۔۔۔عصر کے وقت گاڑی آکے رکی ۔ننگے سر بیبیاں ۔پینٹ شرٹ میں بچے ۔۔نظر کی عینک لگائے افسردہ صاحب ۔۔تھکی ماندی موٹی بیگم صاحبہ بڑے طمطراق سے گاڑی سے اترے ۔۔۔پالندے اُتارے گئے ۔بڑے ہال نما کمرے میں سامانوں کے ڈھیر لگائے گئے ۔۔چاچو کھڑے اور دادی اماں بیٹھی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی ۔۔اب بحثیں تھیں ۔پسند کی تعریفیں تھیں ۔ایک دوسرے پر تنقید تھی ۔۔بہوبیٹی منہ بنائے بیٹھی تھی ۔کہ جولری کی خریداری میں اس کی پسند کا لحاظ نہیں رکھا گیا تھا ۔چھوٹے کو ماں نے ڈانٹی تھی ۔۔منا کی ضد تھی کہ وہ تین جوڑا کپڑا خریدے گی ۔۔ایک بے ہنگم شور تھا ۔ایک بے ربط اجتماع تھا ۔۔بوڑھے اماں کے سر پہ ہتھوڑے پڑ رہے تھے ۔چاچو سہما ہوا تھا کہ ان سے کہا گیا ۔کہ منا کو راضی کرے ۔۔منا کو چا چو سے بڑا انس تھا ۔۔چاچو نے منا کے سر پہ ہاتھ پھیرا ۔۔اور کہا بیٹا ۔۔۔اب تم سولویں میں پڑھتی ہو چھوٹی نہیں ہو ۔۔مگر پھر بھی منا ہو ۔۔تم تعلیم حاصل کر رہی ہو ۔تعلیم تہذیب اور ترتیب لاتی ہے ۔۔صبر ،قنا عت اور شکر لاتی ہے ۔شرافت کردار لاتی ہے ۔انسا ن کو مثالی بناتی ہے ۔بیٹا میں اس خاندان میں اس وقت سے کام کر رہاہوں ۔جب یہ دادی امی جوان تھی ۔۔بیگم صاحبہ میرے سامنے بیاہ لائی گئی ۔اس وقت تیرے خاندان میں تعلیم نہیں تھی ۔لوگ سکول پڑھے نہیں تھے ۔مگر ہر طرف شرافت تھی ۔مسکراہٹیں تھیں ۔پسند ابو کی بھائی کی امی کی ہوتی ۔۔اپنی نہ ہوتی ۔شاپنگ پہ خواتیں نہ جاتیں ۔شور و غوغا نہ تھا ۔’’برانڈ ‘‘کا تصور نہ تھا ۔۔لوگ خواہشات کے پیچھے پاگل نہ تھے ۔بے سکوں نہ تھے ۔۔سر پہ دوپٹا ،آنکھوں میں حیا ،بدن پہ کپڑے تھے۔ لیکن بیٹا آج ہم یہ کیا دیکھ رہے ہیں ۔۔دولت کو ٹھوکریں ماری جا رہی ہیں ۔حیا کا جنازہ نکلا ہوا ہے ۔احترام کفنا یا دفنایا گیا ہے ۔رشتے بوسیدہ ڈوریاں ہیں ۔پل کو ٹوٹ جاتی ہیں ۔منا منا نہیں رہی ۔بابا بابا نہیں رہا ۔امی روبو ٹ ہے ۔بھائی کھیلونا ہے ۔۔بیٹا آو۔۔ ان سب خریدی ہوئی چیزوں کو ایک جگہ ڈھیر لگا کر آگ لگا دیں اور پاس میں سر پکڑ کر بیٹھ کر اپنی مری ہوئی تہذیب کا ماتم کریں ۔اپنے ماضی کو رویءں ۔اپنی خوشیوں کو یاد کریں ۔۔دیکھو بیٹاتم میں سے کسی کے چہرے پر بھی مسکرا ہٹ نہیںَ تم سب ٹوٹ چکے ہو ۔۔گویا عید نہیں خوشیوں کا ماتم آرہی ہے ۔۔کیا گھر یوں ہوتا ہے ۔۔کیا خاندان اس کا نام ہے ۔کیا رشتے یوں ہوا کرتے ہیں ۔۔۔۔منا سندر منا۔۔۔۔۔۔۔۔
چاچو کی آنکھوں میں آنسو تھے اتنے میں ننھاا اپنا کھیلونا اٹھائے لڑکھڑائے اس کی طرف آیا ۔۔اور توتلی زبان میں کہا ۔۔۔’’چاچو یہ تیلونا اپنے گڈو کو لے جاؤَ۔۔‘‘اتنے میں بیگم صاحبہ اُٹھی سب نے اپنے سروں کو چادروں سے ڈھانپ لی۔۔بیگم صاحبہ نے اپنا جوڑا چاچو کے سامنے رکھی۔اور کہا چاچو یہ اپنی بیوی کے لیے لے جاؤ ۔۔۔۔اتنے میں منا اٹھی اور اپنی تین میں سے دو جوڑے چاچو کے سامنے رکھ دی اور کہا چاچو اپنی بچیوں کے لیے لے جاؤ ۔۔اور ہاں چاچو مجھے تہذیب کی پہلی جماعت میں داخل کرو ۔۔مجھے تہذیب پڑھاؤ چاچو میں آن پڑھ ہوں۔۔۔۔مجھے ان روایات سے باخبر کرو جو خاندان جوڑا کرتی ہیں ۔مجھے اس چکاچوند سے نکالو ۔۔میں پڑھنا چاہتی ہوں چاچو میں ان پڑھ ہوں ۔