کالمز

شندور میلہ ۔۔۔۔ایک بار پھر بائیکاٹ؟

 دردانہ شیر
اپنی ہی سرزمین میں پھر سے مہمان گلگت بلتستان کی حکومت نے ایک بار پھر سہ روزہ شندور میلہ کا بائیکاٹ کردیاگلگت بلتستان کو کے پی کے کی حکوت نے بحیثیت مہمان شرکت کی دعوت دی جس پر گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت نے اس ایونٹ کا بائیکاٹ کردیا صوبے کی کوئی بھی پولو ٹیم ٹورنامنٹ میں حصہ نہیں لے گی۔سطح سمندر سے13700فٹ کی بلندی پر واقع دنیا کے بلند ترین پولو گراونڈ شندور میں ہر سال کی طرح اس سال پھر اس ایونٹ کو بھرپور طریقے سے منانے کی کے پی کے حکومت نے تیاریاں شروع کر دی ہیں اور اس سال پھر ہمیں یعنی گلگت بلتستان کے عوام کو بطور مہمان شرکت کی دعوت دی ہے

ذرائع کے مطابق گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت نے ایک بار پھر اس ایونٹ سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور جواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ ہم اپنی سرزمین میں بطور مہمان شریک کیوں ہوں دنیا کے بلند ترین پولو گراونڈ شندور میں ہر سال ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے علاوہ گلگت اور چترال کے شائقین پولوکی ایک بڑی تعداد دنیا کے اس بلند ترین پولو گراونڈ میں کھیلوں کا بادشاہ اور بادشاہوں کے کھیل سے لطف اندوز ہوتی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ چترال کی انتظامیہ نے صوبہ خیبر پختون خوا کے زیر سایہ اور چترال سکاوٹس کی طاقت کے بل بوتے پر نہ صرف سہ روزہ شندور میلہ کی میزبانی شروع کی بلکہ چترال اسکاوٹس کی زیر نگرا نی شندور میں تعمیرات کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے حالانکہ جنرل پرویزمشرف بحیثیت صدر جب بھی شندور تشریف لائے تو انھوں نے شندور میں تعمیرات پر فوری پابندی کا حکم بھی دیا تھا ۔مگر تاحال غیرقانونی طور پر تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے ہر سال کی طرح اس سال بھی سہ روزہ شندور میلے کی تاریخ کا اعلان ہوا ہے اور 22جولائی سے یہ اہم ایونٹ شروع ہورہا ہے

اس بارپھر حسب سابق گلگت بلتستان کی صوبائی حکوت نے موقف اختیار کیا ہے کہ جب تک برابری کی سطح پر اس ٹورنامنٹ کا انعقاد نہیں ہوتا اس میلہ میں گلگت بلتستان کی ٹیمیں شرکت نہیں کریں گی ۔جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس سال پھر بائیکاٹ ہوگا ۔کیا بائیکاٹ سے ہم اپنا اپنی سرزمین حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے؟ چونکہ تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو شندورگلگت بلتستان کا حصہ ہے اس کا واضح ثبوت بین الاقوامی قوانین واٹر شیڈ کا قانون ہے۔ شندور جھیل سے پانی کا ایک قطرہ بھی چترال کی حدود کی طرف نہیں جاتا ہے پانی کا سارا بہاؤ غذر کی طرف ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ پورے شندور کا علاقہ گلگت بلتستان کا حصہ ہے مگرصوبہ خیبر پختون خوا اور چترال سکاوٹس کی آشیرباد سے چترال انتظامیہ نے نہ صرف شندور پر قبضہ کی کوشش ہے بلکہ تعمیرات کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے گلگت بلتستان کی حکوت نے بائیکاٹ کے نام پرجس انداز سے ایشو کو سامنے لایا ہے کیا اس سے ہم اپنی ملکیت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے؟ کیا ہمیں شندور میلے کا بائیکاٹ کر کے بیٹھنا چاہیے؟ اگر ایسا ہوا تو چترال کی انتظامیہ اور چترال اسکاوٹس ہر سال یہ میلہ منعقد کراتے رہیں گے اور ہمیں شندور کو اپنی ملکیت تصور کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اس حوالے سے گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو اس اہم نقطہ پر سوچنا ہوگا کہ اگرچترال انتظامیہ شندور میں سہ روزہ میلہ منعقد کراسکتی ہے تو گلگت بلتستان کی حکومت شندور میں سہ روزہ میلہ منعقد کیوں نہیں کراسکتی؟اگر وہ 22جولائی سے 24جولائی تک میلہ منعقد کراسکتے ہیں تو گلگت بلتستان کی حکومت شندور میں عید کے بعدکوئی تاریخ مقرر کرکے سہہ روزہ شندور میلہ کا انعقاد کرئے تاکہ یہ تو پتہ چل سکے کہ واقعی شندور گلگت بلتستان کا حصہ ہے اگر ایسا ممکن نہیں تو جب تک اس علاقے کی حد بندی نہیں ہوتی اس وقت تک وفاقی حکومت شندور کا علاقہ اپنے قبضے میں لیکر سہ روزہ میلہ کا انعقاد کرائے اور شندور میں چترال سکاوٹس کی بجائے پاکستان رنجیرز کو تعینات کیا جائے جس طرح بصری چیک پوسٹ پر کیا گیا ہے۔

تاریخی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو گلگت کے پوسٹ آفس سے 132میل کا علاقہ کوہ غذر کا حصہ ہے یہ فاصلہ شندور جھیل کے آخری سرے تک جاتا ہے جبکہ شندور جھیل کے آخری حصے تک سڑک بھی راجہ گوپس حسین علی خان مرحوم نے تعمیر کرائی تھی موجودہ پولو گراونڈ جہاں چترال اسکاوٹس نے قبضہ جمارکھا ہے 1945,46میں گلگت کے پولیٹکل ایجنٹ ایچ بی کاف نے غذر کے عوام کے ذریعے تعمیر کرایا تھا۔چترال اسکاوٹس نے جو ریسٹ ہاؤس تعمیر کیا ہے ماضی میں وہ غذر کے گورنر کا کیمپ ہوا کرتا تھا 1982ء میں اس جگہ کو اس وقت کے چیرمین ضلع کونسل گلگت لطیف حسن مرحوم نے بطور کیمپ استعمال کیا تھا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ گراونڈ گلگت بلتستان کا حصہ ہے وقت کا تقاضہ ہے کہ وفاقی حکومت اس حوالے سے ایک کمیشن تشکیل دے تاکہ وہ تاریخی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے حد بندی کا تعین کر سکے۔اگر وفاقی حکوت اس طرح خاموش رہی تو دو صوبوں کے درمیان سخت دوریاں پیدا ہوسکتی ہے اور کسی بھی وقت شندور کا مسلہ دونوں علاقوں میں ایک تصادم کی شکل اختیار کرسکتا ہے اگر کمیشن نے حد بندی کا تعین کیا تو شندور میں سالانہ ہزاروں کی تعداد میں ملکی وغیر ملکی سیاح اس خوبصورت علاقے کا رخ کرینگے جس حکومت کو کروڑوں کا فائدہ ہوگااورسیاحوں کی ایک بڑی تعداد اس پر فضاء مقام پر کھیلوں کا بادشاہ اور بادشاہوں کا کھیل سے محظوظ ہوگی آخر میں وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان سے گزارش ہے کہ وہ غذر کو بھی گلگت بلتستان کا ایک حصہ تصور کرتے ہوئے اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر شہدا کی سر زمین کا دورہ کریں اور یہاں کے عمائدین کے ساتھ مل بیٹھ کر شندور کی حدبندی کے حوالے سے بھی معلومات حاصل کریں اور اگر مصروفیات ذیادہ نہ ہوں تو کارگل کے ہیرو شہید لالک جان نشان حیدرکے مزار پر بھی حاضری دیں چونکہ ضلع غذر کے عوام آپ کے دورے کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں اگر مسلم لیگ (ن) نے اس ضلع سے کوئی سیٹ حاصل نہ کر سکی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں کے عوام نے (ن) لیگ کو ووٹ نہیں دیا ہو حالانکہ الیکشن کے دوران غذر عوام نے ہزاروں کی تعداد میں مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیا تھا اج صورت حال یہ ہے کہ اس ضلع کو جس انداز میں نظر انداز کیا جارہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) غذر کے سینئر رہنما بھی گوشہ نشینی کی زندگی گزرانے پر مجبور ہوگئے ہیں اپ سے ایک بار پھر گزارش ہے کہ شندور کا مسلہ بائیکاٹ سے حل نہیں ہوگا اس کے لئے ہمیں تاریخی حقائق کو سامنے لاکر اپنا حق حاصل کرنا ہوگا اگر اس طرح خاموش رہے تو بہت جلد شندور ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا جس کو ہماری انے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کرئے گی

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button