کالمز

امامت ڈے پرنس کریم آغا خان

حضرت آدم سے لیکر اب تک کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ انسانی تاریخ میں لاتعداد مذاہب گزر چکے ہیں ۔ اور ہر دور میں انسان کسی نہ کسی مذہب کا پیروکار رہا ہے۔بہت سارے مذہب اپنی موت آپ مر گئے ہیں ۔ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ اس وقت  دنیا میں جو مذہب پائے جاتے ہیں ان میں اسلام۔عیسائیت،یہودیت۔ہندومت،سکھ مت،بدھ مت،جین مت،زرتشت،کنفیوشس مت،تاﺅ مت، ایسے مذاہب ہیں  جن کا وجود پایا جاتا ہے۔ان مذاہب  کے درمیان  اختلافات لاکھ صحیح  لیکن ایک بات جو  ان سب مین مشترک  ہے وہ یہ کہ  ایک اللہ ہی اس کائنات کا مالک ہے ۔دور جدید میں دنیا کا پہلا بڑا مذہب عیساعیت ہے  اور اسلام کا دوسرا نمبر ہے۔جنہیں ادیان ابراہیمی کہا جاتا ہے۔مذہب اسلام  کے  ماننے والے دنیا کے ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔اس کی مقدس کتاب قرآن ہے۔اسلام کے دو بڑے فرقے شیعہ اور سنی ہیں ان فرقوں کے اندر  بھی بہت ساری شاخیں ہیں ۔مذہب اسلام کے ان دو فرقوں  میں فرق یہ ہے کہ  ایک فرقہ  امامت اور دوسرا خلافت   کا قائل ہے۔میرا مقصد  یہاں مذاہب یا فرقوں کا تقابلی جائزہ  کا مقصد نہیں  صرف آغا خان  کی امامت  کی تخت نشینی  اور آغا خان  کی خدمات    کے حوالے سے بات کرنے کا ہے اس لئے  ضمنی طور پر تذکرہ  کیا جا رہا ہے ۔اسلام کے دوسرے بڑے فرقے شیعہ کی ایک شاخ   اسماعلیہ مذہب کا سلسلہ حضرت اسماعیل  سے شروع ہوتا ہے اور اسے شیعوں کا دوسرا بڑا فرقہ تصور کیا جاتا ہے۔موجودہ  امام   شاہ کریم الحسینی آغا خان چہارم اسماعيلى مسلمانوں کے سب سے بڑے گروہ نزاریہ قاسمیہ جو اب آغا خانی کہلاتے ہیں کے امام ہیں۔۔

گلگت بلتستان میں  اس مذہب  کی ابتدا کے بارے کہا جاتا ہے کہ تاج مغل نامی حکمران  جو  اسماعلیہ عقیدہ  رکھتا تھا گلگت میں حملہ آور ہوا اور گلگت ہنزہ میں  اسماعلیہ مذہب کی بنیاد پڑ گئی۔  مغل  حکمران  کے نام کی نسبت سے ہی مغلی یا مولائی  کہا جانے لگا لیکن آج کل سب اس مذہب کے ماننے والوں کو اسماعلیہ یا آغا خانی کہتے ہیں۔اس مذہب کے ماننے والے  بڑے ہی پُر امن لوگ ہیں    ۔دور جدید میں اگراسماعلیوں کی نشانیاں گنی جائیں تو  نمایاں طور پر تین  چیزیں سامنے آتی  ہیں   تعلیم، کاروبار اور فلاحی ادارے۔اس  فرقے کی سب سے بڑی شاخ آغا خانی ہے جو تقریبا دو تہائی اسماعیلیوں پر مشتمل ہے۔اسماعیلیوں کا دوسرا بڑا گروہ بوہرہ جماعت ہے جن میں امامت کی بجائے داعی مطلق کا سلسلہ ہے۔ اور وہ آغا خان کو امام نہیں مانتے۔

پرنس کریم   موجودہ امام اسماعلیہ فرقے کے  انچاسویں امام ہیں  آپ سر سلطان محمد شاہ آغا خاں سوئم کے سب سے بڑے صاحبزادے پرنس علی خاں کے فرزند ہیں۔ پرنس کریم آغا خان 13 دسمبر 1936 ء کو سوئٹزرلینڈ کے مشہور شہر جنیوا میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم گھر پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر مصطفی کامل سے حاصل کی۔ اس کے بعد سوئٹزر لینڈ کے لے روزا اسکول میں داخل ہوگئے۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کچھ عرصہ انگلستان میں قیام کیا۔ پھر 1954ء میں ہارورڈ یونیورسٹی (امریکہ) میں داخلہ لے لیا۔ وہاں زیر تعلیم تھے کہ آغا خان سوئم کی رحلت پر اسماعیلی فرقے کی امامت کا بار ان کے کندھوں پر آپڑا۔منصب امامت پر فائزہونے کے بعد آپ کی گدی نشینی کی پہلی رسم 13 جولائی 1957ء کو جنیوا میں ادا کی گئی۔ اس کے بعد یہ رسومات دارالسلام، نیروبی، کمپالا، کراچی، ڈھاکہ، بمبئی، کانگو اور مڈغاسکر وغیرہ میں ادا کی گئیں۔ ان تمام رسومات میں آپ کو امامت کی مہردار انگوٹھی، تلوار اور حبہ پیش کیا گیاء۔انہوں نے اکتوبر ۱۹۶۹ء میں سلیمہ نامی لڑکی سے شادی کی، جس سے تین بچے پیدا ہوئے: (۱)پرنسس زہرہ۔ (۲)پرنس رحیم۔ (۳)پرنس حسین۔ مگر ۲۵سال کے بعد اس کو طلاق دیدی۔آپ انگریزی، فرانسیسی، اردو، فارسی، اطالوی اور ہسپانوی زبانوں میں خاصی استعداد رکھتے ہیں۔ آپ کو مشرق وسطیٰ کی تاریخ سے خاص شغف ہے۔ فٹ بال، ٹینس، کشتی رانی اور اسکیٹنگ آپ کے پسندیدہ کھیل ہیں۔ آغا خان سوم مرحوم شروع ہی سے آپ کو منصب امامت پر فائز کرنے کے متمنی تھے۔ چنانچہ انہوں نے آپ کی دینی تربیت پر خاص توجہ کی اور ان میں اسماعیلی فرقے اور عام مسلمانوں کے دینی مسائل سے دلچسپی لینے کا جذبہ پیدا کردیا۔شہزاد کریم آغا خان اپنے  دادا آغا خان سوئم کی طرح اصلاحی کاموں میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں آپ ہی کی ہدایت پر آغا خان فائونڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے زیر نگرانی دنیا بھر میں مدارس، اسپتال اور تحقیقاتی ادارے وغیرہ قائم کیے گئے مختلف ممالک میں سماجی اور معاشی ترقی کے لیے انڈسٹریل پروموشن سروسز شروع کی گئی جس کی خدمات نہ صرف اسماعیلی صنعتکاروں اور تاجروں کے لیے بلکہ ان ممالک کے لیے بھی نمایاں ہیں جہاں اسماعیلی برادری بڑی تعداد میں آباد ہے۔ کراچی میں آغا خان ہیلتھ سروسز نے ایک عظیم الشان اسپتال اور میڈیکل یونیورسٹی قائم کی ہے جو ملک میں اپنے طرز کی پہلی یونیورسٹی ہے اور فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی فن تعمیر کی ترویج کے لیے آپ نے 1980ء سے ہر تیسرے سال نوبل انعامات کی طرز پر ایسی عمارات کو جو کسی بھی اسلامی ملک میں تعمیر ہوئی ہوں اور اسلامی فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہوں، انعامات دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلہ میں پیرس میں ایک فائونڈیشن قائم کیا گیا ہے۔گلگت بلتستان اور چترال  کے حوالے سے بھی ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔

پرنس کریم آغا خان کو مختلف ممالک نے مختلف خطابات اور اعزازات سے بھی نوازا ہے، جس میں حکومت برطانیہ کی جانب سے ہزہائی نس کا خطاب اور حکومت پاکستان کی جانب سے نشان امتیاز کا اعزاز بھی شامل ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button