کالمز

مذہبی یا سیکولر ریاست؟

تحریر :فدا حسین

پاکستان کی ریاست کی ہیت کے بارئے میںدانشوروںکی طرف سے ہر وقت سوال اٹھایا جاتا رہتا ہے ۔ایک طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان کو برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا اس لئے اسے اسلامی ریاست ہونا چاہیے اور دوسرئے طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان کو مسلمانوں نے حاصل ضرور کیا ہے مگر اس کے بانیوں کے ازہان میں اسلامی ریاست ہرگز نہیں تھا۔دونوں طبقے اپنے اپنے دعوئے کو درست ثابت کرنے کیلئے زیادہ تر قائد اعظم کے اقوال کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ قائد اعظم کے جس قول کو دونوں فریقوں کے نزدیک شرف قبولیت حاصل ہے وہ  "اب آپ مسجد یا مندر جانے میں آزاد ہیں”ہے۔ اور اسی طرح پاکستان میں جب کبھی کوئی پر تشدد واقعہ پیش آتاہے تو اس وقت ریاست کی ہیت ترکیبی پر اٹھنے والے سوالات میں شدت آجاتی ہے۔یعنی دوسرئے طبقے کے خیال میں ان پرتشدد وقعات نے دینی (اسلامی) ریاست کے بیانیے کے کوکھ سے جنم لیا ہے۔یہ بھی درست ہے کہ آئینی طور پر پاکستان اسلامی ریاست ہے کیونکہ آئین میں اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے۔ ان کے خیال میں ریاست کو سیکولر ریاست قرار دیا جائے تو ملک میں جاری پر تشدد واقعات میں کمی ہوگی۔

قطع نظر اس کے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کا مقصد کیا تھا یہ بات تسلیم شدہ  ہے کہ پاکستان میں رہنے والوںکی اکثریت اس سے اسلامی ریاست (خدو خال میں اختلاف کے باوجود) ہی دیکھنا چاہتی ہے۔ ورنہ قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو آئین میںاسلام پاکستان کا سرکاری مذہب والا شق ہرگز شامل نہ کرتے ۔اگرچہ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بھٹو نے ایسا ملاؤں کو خوش کرنے کیلئے کیا تھا ایسا کہنے والے خود پیپلز پارٹی اور اس کے حامی دانشوروں میں بھی موجود ہیں۔جو لاشعودی طو پرر بھٹو کے قد کاٹھ کم کرنے کا موجب بنتا ہے۔کیونکہ اگر وہ مجبوری میں ایسے کرنے والے ہوتے(بے گناہ ہونے کے باوجود) توکم از کم وہ ضیاء الحق سے زندگی کی بھیک ضرور مانگتے ۔اس لئے ہمیں یہ ماننا پڑئے گا کہ یہ تو ہو سکتا ہے کہ بھٹو دلی طور پر نہ چاہتے ہوں مگر انہوںنے جمہوری اصولوں کی پاسداری میں آئین میں یہ شق شامل کر دیا تھا اسی وجہ سے 73کے آئین کو متفقہ آئین سمجھا جاتا ہے۔جسے منسوخ کرنے کی جرات ضیاء الحق جیسے آمر بھی نہ کر سکے۔اس لئے ہماری رائے میں پاکستان کوسیکولر ریاست قرار دینے کو تمام مسائل کا حل سمجھنا خوش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بلکہ ہماری رائے میں تو ایک مکمل دینی(اسلامی) ریاست ہی تمام مسائل کے حل میں ممد ومعاون ثابت ہونگے۔(جب اسلامی ریاست کی بات ہو تو اس سے ہماری مراد سعودی عرب یا ایران قطعا نہیں ہے۔) کیونکہ بہت سارئے لوگوں کی طرح ہماری رائے میںدین( اسلام) ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔یہ دین (اسلام) تین اہم ستونوں پر کھڑا ہے جواعتقادات،عبادات اور معاملات پر مشتمل ہے۔ ریاست کو پہلے دو یعنی ایک فرد کیا اعتقاد رکھتا ہے یا وہ فرد اپنی عبادات کس طرح بجا لاتا ہے پر ریاست کو کو عمل دخل نہیں ہونا چاہے۔ لیکن جب معاملات کی باری آئے تو ریاست ہرگز خاموشی اختیار نہیں کر سکتی۔کیونکہ جب معاملات کی بات کی جائے تو اس کا دائرہ بھی بہت وسیع ہو جاتا ہے۔ جو بین الاقوامی اور ملکی سیاست سے لیکر فرد کی نجی زندگی تک کا احاطہ کرتا ہے ہے ،کسی امام کے قول کے مطابق کسی کے مومن ہونے کا معیار اس کے طویل سجدوں کے بجائے اس کے لین دین کو قرار دیا ہے۔اسی طرح حضرت علی سے منسوب ایک قول میں کسی کے جنتی یا جہنمی ہونے کا معیاراس کے گرد وپیش کے لوگوں میں اس شخص کے بارئے میں پائے جانے والی عمومی رائے ہے ۔ آپ  نے ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا ہے کہ لوگوں میں اس طرح رہو اگر تم نہ رہے تو لوگ تمہارئے لئے روئیں۔یہاں پر حضرت عمر(رضی) کا وہ قول بھی ذہن نشین رہے کہ اگر دریا ئے دجلہ کے کنارئے کوئی کتا بھوکا مر/رہ جائے تو قیامت کوعمر(رضی) سے پوچھا جائے گا۔اس لیے یہاں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اچھا مسلمان وہ نہیں جو نماز ،روزہ ،حج اور دیگر عبادات وغیرہ تواتر سے بجالائے ،بلکہ اچھا مسلمان وہ ہے جو دوسرے لوگوں کے حقوق کا خیال رکھے ۔مزید برآں یہ کہ اسلامی عبادات کی اصل روح حقوق الناس کا خیال رکھنا ہے۔لہذا ریاست کے اسلامی ہونے کامطلب اسلامی اصولوں کے مطابق اس کے تمام رعایا کے حقوق کا تحفظ بلا قیدو مذہب کرنا ہے ۔ اس کے علاوہ اسلام حصولِ رزق میں حلال کا تصور پیش کرتا ہے ،عبادات بجا لانے کا تعلق ذاتی فعل ہے لیکن بجا لائی گئی عبادات کی قبولیت رزق حلال سے مشروط ہے۔ روزہ رکھنا ذاتی فعل ضرور ہے مگر اس روزئے کی قبولیت کیلئے فطرانہ ضروری ہے۔جج فرض ہونے میںکوئی دو رائے نہیں مگر حج کی ادائیگی کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ رقوم حلال طریقے سے حاصل کی گئی ہو۔اور اس حلال کمائی پر بھی ریاست کو مداخلت کا اختیار یوں دیا جا سکتاہے کہ حج کی سعادت حاصل کرنے کے خواہش مند آدمی کے  اپنے قریبی رشتہ دوں میںضرورت مند نہ ہو۔قریبی رشتہ دروں میں ہمسائے بھی شامل ہو خواہ وہ رشتہ دار نہ بھی ہوں ۔اس مقصد کیلئے ملک خدا داد پاکستان میںضروری قانون سازی کی ضرورت ہے یعنی حج پر جانے سے پہلے  جب تک کم از کم پانچ افراد اس شخص کے قرب جوار میں مستحق نہ ہونے کی گواہی نہ دے اس وقت تک اسے حج پر جانے کی اجازت نہ دی جائے۔

اب شادی کو ہی لے لیں ،جس کا اسلام نے تاکید سے حکم تودے رکھا ہے۔مگر معاشرئے میں جہیز کے بڑھتے ہو ئے رجحان اور اسی شادیوں پر ہونے والی بے پناہ اخراجات کی وجہ سے غریبوں کی بیٹیاں بن بیاہی بوڑھی ہو جاتی ہیں جس میں مداخلت دینی ریاست کا تقاضا ہے۔

پاکستان میں سلمان تایثر (مسلمان ہے) اور احمدیوں سمیت دیگر بہت سارئے غیر مسلموں کے قتل کی زمہ داری مذہبی ریاستی بیانئے کو ٹھرایا جاتا ہے ان کا مانا ہے کہ اگر پاکستان کو اسلامی ریاست قرار نہ دیا جاتا تو ملک میں اتنے سارئے قتل کے واقعات رونما ہو نہ چکے ہوتے۔ احمدیوں کوغیر مسلم قرار دینے کو وہ دلیل کے طور بھی لیتے ہیں۔  وہ لوگ ایسا کہتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیںکہ نہ تو اسلام نے کسی کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے اور نہ ہی پاکستان کے آئین کے اندار اس بات کی گنجائش موجود ہے۔آئین میں احمدیوں کوغیر مسلم قرار دینے والی بات آدھا سچ ہے، پورا سچ یہ ہے کہ ایک مسلمان کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرنے کے ساتھ حضرت محمد ص کو اللہ کے آخری نبی مانتا ہو۔اس آئین میں انہیں قتل کرنے کی کہاں اجازت دی گئی ہے راقم سمجھنے سے قاصر ہے۔رہی بات وہ قتل ہو جاتے ہیں اس کا ذمہ دار مذہبی بیانیہ نہیں بلکہ ریاست کا سزا وجزا کے قانوںپر مکمل عمل درآمد کرنے میں ناکامی ہے۔اگر ریاست کو سیکولر قرار دینے سے مذہب کے نام پر ہونے والے قتل میں کمی واقع ہوتی تو بھارت میں ایسا واقعہ ہرگز پیش نہ آتا۔ جبکہ بھارتی ریاست گجرات میں ہونے والے  فسادات کے بارئے میں کون نہیں جانتا۔جبکہ سیکولرزم میں مذہب  انسان کا ذاتی فعل ہے جس پر ریاست کی مداخلت تسلیم نہیں کی جاتی ۔جسے پاکستان میں لاگو کیا جائے تو مزید خرابیوں کا موجب بنے گا ۔قائد اعظم کی طرف سے مسجد یا مندر جانے میں آزاد والے قول کا منشا کسی طور پر بھی سیکولر ریاست نہیں ہے بلکہ یہی عین اسلامی ہے کیونکہ قرآن پہلے ہی لا اکراہ فی الدین کہ چکا ہے۔جو عبادت کی بجا آوار ی میںآزادی ہی کو ظاہر کرتا ہے۔

اس لئے اگر ریاست کی فرد یا افراد کی نجی زندگی میں مداخلت کاحق حاصل ہے تووہ تمام ادیان کی طرف سے منع کی گئی چیزوں کی طرف جانے سے ہے ۔ مثال کے طور پر شراب نوشی کی اجازت کسی دین نے بھی نہیں دی ہے مگر سیکولر ریاست اسے فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیتا ہے۔ تاہم دینی ریاست میں اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔  لہذا مذہی یا دینی ریاست کا مطلب مذہب کے معاملے میں بے جا مداخلت کا نام نہیں بلکہ اس میں اصلاح کے پہلو لے کر مداخلت کی جائے تاکہ معاشرہ کے تمام افراد کے عزت نفس قائم رہے ۔ان سب باتوں عمل پر در آمد ہونا مشکل ضرور ہے لیکن نیت اور ارادہ ہو تو ناممکن نہیں ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button