گلگت بلتستان

ہربن اور تھور کے قبائل براہ راست مذاکراتی میز پر بیٹھنے کو تیار

کوہستان (شمس الرحمن کوہستانیؔ )دیامر بھاشا ڈیم حدود تنازعہ ،مقامی جرگوں اور حکومتوں کی ثالثی کی ناکامی کے بعد ہربن اور تھور کے قبائل براہ راست مذاکراتی میز پر بیٹھنے کو تیار ہوگئے ، دو نکات پر اعتراض باقی ،قبائلی دشمنی کے خاتمے سمیت آٹھ کلومیٹر متنازعہ علاقے پر باہمی رضامندی سے حد بندی کے خواہاں ہیں، کبھی’’ ڈیم نامنظور‘‘کا نعرہ نہیں لگایا، دو طرفہ قبائل کو وعدوں کی پاسداری کرنی ہوگی ۔ عمائدین ہربن بھاشا کی میڈیا سے گفتگو۔تفصیلات کے مطابق ہربن بھاشا (کوہستان) اور تھوردیامر(گلگت بلتستان) کے قبائل کے مابین چھ سال شدت سے جاری کشیدگی اور دشمنی دوستی میں بدلنے جارہی ہے ۔ ایک دوسرے کو اپنی سرزمین پر قدم نہ رکھنے دینے والے سخت گیر قبائل آخر کار جان گئے کہ اُنہیں اپنے مسائل خود حل کرنے ہیں۔2011سے جاری سخت کشیدگی جو دیامر بھاشا ڈیم کے آٹھ کلومیٹر زمینی ٹکڑے سے شروع ہوئی اورفروری2013 میں چار انسانی جانوں کو نگل گئی جبکہ کئی زخمی ہوئے جن میں تین جاں بحق اور سات زخمیوں کا تعلق ہربن اور ایک جاں جاں بحق اور ایک زخمی کا تعلق تھور سے تھا، مقامی مشران اور جرگے نے کردار ادا کرتے ہوئے قبائل کے مابین ہاتھ بندی (مندڑ)کی،بعدازاں خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان حکومتوں نے متنازعہ علاقے پر کمیشن مقرر کرکے علاقے کو رینجرز کے حوالے کیا،کمیشن کے عام ہونے کے انتظار میں دونوں طرف کے لوگ بیٹھے رہے اور یوں سال 2016کے آغاز سے ہربن بھاشا کوہستان کے قبائل نے ایک رکنی کمیشن عام کرنے کا پرزور مطالبہ کیا اور شاہراہ قراقرم کو کئی دنوں تک بلاک کئے رکھا،سکیورٹی فورسز نے مداخلت کرتے ہوئے تین ماہ کے اندر کمیشن عام کرنے کا یقین دلایا جو آج تک عام نہ ہوسکی۔ ادھر ہربن کوہستان اور تھور گلگت بلتستان کے قبائل کے مابین متعدد جرگے معاملے کا حل نہ نکال سکے اور نہ ہی گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ کی حکومتیں مفاد عامہ کے اس پروجیکٹ پر مسلہ حل کرسکی ،اسی سال رمضان سے قبل تھور قبائل نے اپنے خواتین کے ہمراہ سینکڑوں لوگوں اور دس بھینسوں کے ساتھ ہربن کوہستان کے گاوں کا رخ کیا اور فیصلہ ہربن قبائل کے سپرد کیا گیا، قبائلی روایات کے مطابق ہربن کے باسیوں نے اپنے دشمنوں کی اپنے گھر پر خوب مہمان نوازی کی اور اپنے مقتولین ورثاء کا خون معاف کرنے کا عندیہ دیا تاہم متناعہ علاقے کے حوالے سے کچھ شرائط بھی پیش کیں،جن پر انہوں نے حکومتوں اور مقامی جرگوں کے بجائے خود میز پر بیٹھ کر بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں مذاکراتی دور کا آغاز ایبٹ آباد میں ہوگا۔ گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے ہربن بھاشا کے عمائدین میں سے مولوی محمد قدیر، اسداللہ قریشی ، حاجی عبدالعزیز، حاجی شیر غازی ،حاجی ستبر شاہ و دیگر نے بتایا کہ اہلیان تھور (دیامر) کے ساتھ طے شدہ معاہدوں کی بنیاد پر فیصلہ چاہتے ہیں ، خلاف ورزی راہ فرار سمجھیں گے ، ہم نے کبھی ڈیم نامنظور کا نعرہ نہیں لگایا،واپڈا نے کسی مسلے پر ہمین اعتماد میں نہیں لیا، بھا شا ڈیم کی تعمیر چاہتے ہیں جس سے پاکستان روشن ہوگا۔ واپڈا نے چودہ نکاتی معاہدے پر عمل نہیں کیا جس کے خلاف جدوجہد کریں گے۔ہم نے بھاشا ڈیم منظور کمیٹی بنائی کیونکہ ہم پاکستان کی خوشحالی چاہتے ہیں۔دو نکات کے علاوہ تمام مسائل پر باہمی رضامندی مکمل ہے ، اہلیان تھور بڑے پن کا مظاہرہ کرے تو جلد فیصلے ک اعلان کریں گے۔4500میگاواٹ پیداواری صلاحیت کا مجوزہ میگاپروجیکٹ دیامر بھاشا ڈیم اسی تنازعے کی بنیاد پر پچھلے چھ سال سے تاخیر کا شکار ہے ،جس کا افتتاح ہر دور حکومت کا حکمران کرتا آیا ہے لیکن تعمیر اور مقامی متاثرین کے مسائل اور اُن کے باہمی تنازعوں کا حل کسی نے نہیں کیا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button