گلگت بلتستان

چینی وفد نے شگر میں مصروف دن گزارا

شگر(عابد شگری)اکنامک کوریڈور کو چائینہ سے مشتاق لاء کے ذریعے شگر اور سکردو س ہوتا ہوا استور شونٹر سے مظفر آباد کو ملانے کیلئے چائینہ حکومت غور کرینگے اور مثبت تجاویز کو عمل کرنے کیلئے پر عزم ہے۔متبادل طور پر کوریڈور کی راستے کو شگر سے گزارنے سے نہ صرف 355 کلومیٹر فاصلہ کم ہوگا بلکہ محفوظ اور پرامن راستہ ملے گا۔چائیز سرمایہ کار شگر میں سیاحت، منرل ،تعلیم سرمایہ کاری کریں۔ان خیالات کا اظہار چائنیز سرمایہ کاری گروپ کی وفد نے شگر دور ے میں کہی ۔سابق گورنر سینکیانگ ژان ژی من کی سربراہی میں چائینز سرمایہ کاری گروپ نے شگر کا دورہ کیا شگر پہنچنے پروزیر تعلیم گلگت بلتستان ابراہیم ثنائی، ممبر اسمبلی عمران ندیم،اقبال حسن،میجر امین، سابق صوبائی وزیر راجہ اعظم خان،ڈپٹی کمشنر شگر نے ان کا استقبال کیا۔جہاں انہیں شگراور چائنہ کے درمیان تاریخی تعلقات اور شگر سرمایہ کاری کے مواقع پر ڈپٹی کمشنر شگر ڈاکٹر فہد ممتاز اور سابق صوبائی وزیر راجہ اعظم خان نے بریفنگ دی۔ڈی سی شگر نے چائینز وفد کو شگر کی جعرافیائی اور قدری وسائل ک بار میں بتایاانہوں ن کہا کہ شگر کا بارڈر چائینہ کیساتھ ملا ہو ہے اور یہ دنیا کی قیمتی پتھروں کی کانیں ، دنیا چھ اونچی چوٹیاں واقع ہے جبکہ دنیا کے بڑے گلیشئر بھی یہاں واقع ہے۔جبکہ منرل اور جیمز سٹون کی بڑی بڑی کانیں واقع ہے یہاں نکلنے والی معدنیات دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہیں۔چائینز کو اس خطے میں لانے کیلئے اب تک سرکاری یا نجی سطح پر کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئی۔ اگر چائینز یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں توہیلتھ،منرلز،ایجوکیشن اور سیاحتی شعبے وافر مواقع موجود ہیں۔

سابق صوبائی وزیر راجہ اعظم خان نے شگر اور چائینہ کی قدیم اور تاریخی تعلقات پر تفصیلی گفتگو کی۔انہون نے کہا کہ 1840میں یہاں ڈوگروں کی حکومت آنے تک چائینہ اور شگر کے بہترین تعلقات تھے۔جوکہ ڈوگروں کی آمدکے بعد ختم ہوا۔انہوں نے کہا کہ شگر کی راجہ خانداں اماچہ چائینہ کی ہوتنگ صوبے سے آیا تھا اور اب بھی وہاں اماچہ اور اماتیہ کے نام سے آباد ہے۔جبکہ شگر کی ابتدائی آبادی بھی چائینہ کی ہی راستے آکر آباد ہوا۔اس لئے برالدو وادی میں منگول قبائل اب بھی آباد ہے۔حیدر خان اول کے دور میں شگر اور چین کے درمیاں تاریخی تعلقات تھے۔اور تجارتی روابط موجود تھے۔شگر اور چائینہ کے درمیان مشتاق لاء سے راستہ موجود تھے جہاں سے لوگ یہاں اور وہاں جایا کرتا تھا۔شگر کے پھل اور پھول بھی چائینہ کے نام سے رکھا گیا۔حیدرخان اول نے چائینہ اور شگر کی تعلقات کو بہتر اور قریب لانے کیلئے برالدو کے مقام پر پولوگراؤنڈ بنایا جہاں دونوں خطوں کے کھلاڑی پولو کھیلتے تھے۔حسن خان اماچہ نے 1638میں جب شگر فورٹ کی بنیاد رکھی تو انہوں نے یارقند سے بلخ سے ہوتا ہوا ہندوستان تک گئے انہوں نے یارقند میں اپنا سفیر بھی نامزد کیا ہوا تھا۔علی قلی خان کی دور حکومت میں شاہ یارقند کی بہن ایک وفد کیساتھ یہاں آئے اور کچھ عرصہ یہاں شاہی مہمان بن کر رہا۔1705میں راجہ اعظم خان اول نے اپنے بھائی راجہ حسین خان کو یارقند میں اپنا سفیر بناکر بھیجااور وہاں سے جنگی سامان اور گھوڑے بھی منگواتے تھے۔آزاد شگر اور چائینہ کے درمیان 1832تک تعلقات قائم رہا تاہم ڈوگروں کی آمد کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوا۔انہوں نے تجویز دیا کہ اکنامک کوریڈور کی موجودہ راستہ انتہائی دشوار گزار،ہونے کیساتھ ساتھ خطرات سے بھری ہوئی ہے عطا آباد حادثے کے بعد یہ راستہ انتہائی غیر محفوظ ہوچکا ہے جبکہ مانسہرہ،کوہستان وغیرہ سے گزرتے ہوئے سکیورٹی کے حوالے سے بھی غیر محفوظ ہیں لہذا اگر شگرمشتاق پاس سے ٹنل کے ذریعے چائینہ ملایا جائے اور استور سے ہوتا ہوا مظفر آباد سے گزرے تو نہ صرف 355کلومیٹر فاصلہ کم ہوگا بلکہ ہر موسمی اور جعرافیائی حالات اور سکیورٹی کے حوالے سے محفوظ ترین ہوگا ۔ چائینہ حکومت کو کوریڈور کی متبادل روٹ کیلئے شگر کی راستہ پر غور کرنا چاہئے۔جبکہ شگر میں قیمتی پتھروں کی تجارت اور مائننگ کے وسیع تر مواقع موجود ہے جہاں وہ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔انہوں نے تجویز دی چائینہ یونیورسٹی کی کیمپس کھول کر لوگوں کو چائینز زبان سکھانے کیلئے اقدامات کرنی چایئے۔سکردو اور چائینہ کے درمیان براہ راست فلائٹ شروع کیا جائے تو دونوں ملکوں کے تاجروں کو آسانی ہوگا۔ چائینزوفد نے کہا کہ شگر اور چائینہ کی ماضی کی تعلقات ان کیلئے نئی اضافی معلومات تھی ہم چائینز حکومت کو ان تجاویز پر عملدرآمد کیلئے زور دینگے۔اور کوریڈور کی متبادل راستے کو شگر سے گزارنے کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کرینگے۔چائینز وفد نے فروٹ نرسری ہشوپی کا بھی دورہ کیا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button