کالمز

دنیا کے بلند ترین میدان میں بادشاہوں کا کھیل

طلوع آفتاب کے وقت آسمان پر چھائے بادلوں کے ساتھ ہلکی ہلکی ہوائیں چل رہی تھیں ، ڈر یہ تھاکہ طویل سفر کے دوران راستے میں کہیں بارش برس کر مہم کو بے ذائقہ نہ کردے ۔اسی کشمکش میں ہم بھی یاسین اور گوپس کی حدبندی پر واقع چائینہ پل پہنچ گئے۔یہ پل سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بٹھو کی دوسری حکومت میں ایک چینی تعمیراتی کمپنی نے تعمیر کیا تھا۔اس وجہ سے یہ چائینہ پل کے نام سے مشہور ہوا۔پل پرالوداعی سیلفی لیتے ہی ہم نے شندورکی جانب رخت سفر باھاندلیا۔ روانگی کے وقت اس بات پر اتفاق ہوا کہ رات پھنڈرکی حسین وجمیل وادی میں کسی پرفضاء مقام پر گزاردی جائیگی۔گوپس پل سے سنٹرپھنڈرتک کم وپیش پچاس کلومیٹرکی مسافت ہے مگر شندور فیسٹول کے باعث سڑک پر ٹریفک کا رش زیادہ تھا۔باوجود اس کے ہم راستے میں چھوٹے چھوٹے خوبصورت علاقوں کا نظارہ کرتے ہوئے ٹھیک دو گھنٹے میں پھنڈرمیں داخل ہوگئے۔ پھنڈر پی ٹی ڈی سی سے نیچے کی جانب واقع چڑھائی شام کے وقت گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی لائٹوں کی روشنی اسلام آباد کی مارگلہ کی پہاڑی کا منظر پیش کررہی تھی۔چڑھائی کے اختتام پر ایک سیاسی جماعت کے کارکن ہاتھوں میں جھنڈے لئے پھنڈر تحصیل کے حدود میں داخل ہونے والے مہمانوں کا گرم جوشی سے استقبال کررہے تھے اورانجان مسافروں کی شندورکی جانب جانے میں رہنمائی بھی کررہے تھے۔ پھنڈر ٹاپ پر واقع سرکاری ریسٹ ہاوس کے پاس سے عنقریب پوری وادی کاعکس نظر آتا ہے۔ اسی مقام سے وادی پھنڈر کی تصویر کشی ہرآنے والے کی ایک اہم خواہش ہوتی ہے۔شام ڈھلنے کے باوجود ہم بھی اسی جگہ رکے اور چند تصاویر بناکراپنا سفر جاری رکھا ۔آسمان سے بارش برسنے کو تھی،دوستوں نے فیصلہ بدلتے ہوئے گلاغمولی نامی گاؤں میں واقع چھوٹے سے گیٹ ہاوس میں رات گزارنے کا اعادہ کیا۔ چند لمحوں بعدسنٹر پھنڈر کے آخر سے کچی سڑک پر داخل ہوتے ہی ہلکی ہلکی بارش شروع ہوئی اور گلاغمولی پہنچنے تک بارش کافی تیز ہوگئی۔ گلاغمولی کا وہ گیسٹ ہاوس کل تین کمروں،ایک ہال اور کچن پر مشتمل ہے جو شندور فیسٹول دیکھنے آئے ہوئے مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ گیسٹ ہاوس کا مالک چونکہ جاننے والا ایک سکول ٹیچر تھا اسی لئے یاری دوستی کی خاطر ہال ہمارے لئے خالی کروادیا۔جبکہ بعد میںآنے والے مہمانوں کو جگہ نہ ملنے پر گیسٹ ہاوس کے زیرتعمیر کمروں میں ٹہرایا گیا بہت سے لوگ وہی پر ڈنر کرنے کے بعدشندور کی طرف روانہ ہوئے ۔کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔وہ اس لئے کہ اس علاقے میں رہائشی گھر نما صرف دو ہی گیسٹ ہاوسز ہیں۔ لوگوں کے پاس سڑک کے آس پاس زمینیں توموجود ہیں مگران کے اندر ٹوریزم اور ہوٹلنگ کا شعورنہ ہونے کے برابر ہے۔ گلاغمولی کے اس گیسٹ ہاوس میں پرسکون نیند گزارنے کے بعد صبح چھ بجے ہم شندور کی طرف روانہ ہوئے۔یہاں سے آگے گلاغ توری،ٹیرو،بارست اورلنگرسے ہوتے ہوئے تقریباً دوگھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد شندور میں داخل ہونا پڑتاہے۔بارست نالہ میں ایک چیک پوسٹ پر گلگت بلتستان پولیس کے جوان مسافروں اورگاڑیوں کی انٹری کررہے تھے اور مشکوک افراد کی سخت تلاشی لی جارہی تھی۔ چوکی پر انٹریاں کرنے والے پولیس اہلکار سے میں نے جب یہ استفسار کیا کہ جناب ابھی تک آپ کے ریکارڑ کے مطابق کتنی گاڑیاں اور کتنے لوگ شندور فیسٹول کی طرف چل نکلے ہونگے،تو مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ’’ جناب اس سوال کے جواب کے لئے میرے پاس کوئی وقت نہیں،لہذا آپ اپنی انٹری کرواکر یہی سے رخصت ہوجائے تو بہتر ہے‘‘۔ باوجود اس کے میں نے اصرار کیا کہ اندازہً کتنے لوگ اندر گئے ہونگے ، تو انہو ں نے پھر شارٹ کٹ جواب دیا کہ’’جناب ہزاروں کی تعداد میں لوگ شندور گئے ہیں‘‘۔ بارست چیک پوسٹ پر انٹری کے بعد ہم شندور کی جانب روانہ ہوئے۔ جوں جوں ہم شندور ٹاپ کے قریب ہورہے تھے، موسم سرد اور ہوائیں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھیں۔میرا یہ شندور کا پہلا دورہ تھا اور بارست سے آگے کی دنیا سے کوئی شناسائی نہ تھی۔اسی لئے اپنے دوست اسلام الدین ایڈووکیٹ کو باربارتنگ کررہا تھا کہ شندور کہاں ہے۔ کچھ ہی دیر میں ہم ایک انتہائی خستہ حال سڑک پردشوارگزار چڑھائی چڑھنا شروع ہوئے جو مجھ جیسے ایک کمزور انسان کے لئے سخت کھٹن راستہ تھا۔ لیکن شکر کی بات یہ تھی کہ چڑھائی چڑھتے ہی اسلام الدین نے خوشخبری سنائی تھی کہ اس چڑھائی کا اصل نام شندورٹاپ ہے اورچڑھائی کے اختتام پر ہم شندورمیں داخل ہونے والے ہیں۔ اسی آس میں میرا حوصلہ برقرار تھا، یوں ہم چڑھائی کراس کرکے ایک میدان نما علاقے میں سڑک کے کنارے خوبصورت ہریالی میں بہتے ہوئے چشمے کے پانی پر کودپڑے۔چشمے کی ٹھنڈک سے ہاتھ منہ دھوکر تازہ دم ہونے کے بعد ہم نے اپنا سفر جاری رکھا اور چند لمحوں بعدایک گیٹ نما چیک پوسٹ میں داخل ہوئے۔ جہاں پر گلگت بلتستان سکاوٹس کے جوان مسافروں کی شناخت اور تلاشی لینے کی ڈیوٹی پر معمور تھے۔ چوکی پر تلاشی کے بعدہم12200فٹ کی بلندی پر واقع دینا کے بلند ترین پولو گراونڈ کے احاطے میں داخل ہوئے ۔شندور میلہ تین روز پر مشتمل ہوتا ہے، جو عموماً جولائی کے پہلے ہفتے میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس سال جولائی کے پہلے ہفتے میں رمضان المبارک اور عید کی تعطیلات کے سبب میلہ 29سے31جولائی کو منعقد کیا گیا تھا۔ ہم میلے کے دوسرے روز شندورمیں داخل ہورہے تھے۔ ہم سے پہلے ہزاروں کی تعداد میں شائقین شندور پہنچ چکے تھے اوربہت سارے لوگوں کی آمد جاری وساری تھی۔ صبح آٹھ بجکر دس منٹ پر ہم شندور گراونڈ کے احاطے میں پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر آرام کے بعدباہر گھومنے نکلے توایک طرف ٹینٹ ہی ٹینٹ نظر آئے، جن میں رنگ برنگ کے لوگ،قسم قسم کے سٹالز،ہوٹلز،کینٹین،کیبین اوردکانیں لگیں ہوئی تھیں،تو دوسری جانب شندور کی سرسبزوشاداب وادی کی ہریالی،خوبصورت پہاڑاور وسیع وعریض میدانیں ہزاروں شائقین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔ گراونڈ کے ایک طرف گلگت بلتستان جبکہ دوسری طرف چترال کے شائقین کی خیمہ بستیاں بسائی گئی تھیں۔گلگت بلتستان کی نسبت چترال کی جانب قیام وطعام کے انتظامات قدرے بہتر تھے۔ گراونڈ کومحکمہ سیاحت چترال اور ایک نجی کمپنی کے بینرز سے سجایا گیا تھا۔جبکہ محکمہ سیاحت گلگت بلتستان کا کہیں پر کوئی نام ونشان نظر نہیں آرہا تھا۔انتظامی معاملات اگرچہ ایف سی کے سپرد تھے مگر چترال انتظامیہ بھی اس میں برابرکی شریک تھی۔جبکہ گلگت بلتستان انتظامیہ کا کام سوائے اپنے علاقے کے وی آئی پیز کو پروٹوکول دینے اور سرکاری اہلکاروں میں لنگر تقسیم کرنے کی حد تک محدود تھا۔سیکورٹی کے انتظامات ایف سی، چترال سکاوٹس،گلگت بلتستان سکاوٹس اور پاک آرمی کے جوانوں نے سنبھال رکھی تھی۔ چترال اور گلگت بلتستان پولیس بھی معاونت کے لئے چوکس تھیں مگران کی کوئی نہیں سنتا تھا۔ دوسرے روز کا پولو میچ شروع ہونے میں ابھی وقت باقی تھا، اسی لئے شائقین میں سے کوئی پہاڑوں پر چڑھنے کی کوشش میں مصروف تھا تو کوئی چشموں کی ٹھنڈک سے لطف اندوزی میں،کوئی کھیل تماشے میں مگن تو کوئی آپس کے گپوں میں محو،کوئی قیام وطعام کی تلاش میں سرگرداں تو کوئی کاروباری معاملات میں مشغول۔ ہرطرف گہما گہمی اورشوروغل کے ماحول میں مٹی اورگردوغبارکا یہ عالم تھا کہ دور سے کسی کو پہچاننا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس گردوغبار سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے لوگوں نے چہروں پر سن بلاک،منہ پر ماسک اور سروں کو سکارف،چادروں اور ٹوپی سے صیح طرح ڈھانپ رکھا تھا۔
پولو گراونڈ کے عقب میں واقع آسمانی رنگ کا خاموش جھیل شندور کی خوبصورتی مزید نکھار رہی تھی ۔ موبائل فون سروس کی معطلی شائقین کے لئے سکون کا باعث بن چکی تھی۔لوگ اس سہہ روزہ فیسٹول اور جنت نظیر شندورکی تصویر کشی اور سیلفیاں لینے میں محوہوکر گھروں کو بھول بیٹھے تھے۔ گیارہ بجے کے قریب تمام سرگرمیاں معطل کرکے سب لوگ پولو گراونڈ میں جمع ہوگئے کیونکہ دوسرے روز کا پولو میچ ابھی شروع ہونے والا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد اسٹیج سے اعلان کیا گیا کہ آج کے میچ کے مہمان خصوصی گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر جعفراللہ خان ہونگے۔ اسی کے ساتھ ہی گلگت اور چترال کی سی ٹیموں کے مابین پولو میچ شروع ہوا۔ گراونڈ کے ایک طرف گلگت بلتستان کے جبکہ دوسری طرف چترال کے شائقین کا ہجوم جمع تھا،جونہایت گرم جوشی سے اپنی اپنی علاقائی ٹیموں کے کھیلاڑیوں کو داد دے رہا تھا۔ دونوں ٹیموں کے مابین بہت سنسنی خیز میچ کے بعد چترال سی کی ٹیم فاتح قرار پائی۔ میچ شروع ہونے سے قبل آسمان سے ہزاروں فٹ کی بلندی سے پیرا گلائیڈرز پیراشوٹ کے زریعے زمین پر اترنے کی شاندارکرتب دیکھا کر شائقین کو حیرت میں ڈال دیا۔جبکہ اس دوران گلگت سکاوٹس اور چترال سکاوٹس کے جوانوں نے علاقائی دھنوں پر رقص پیش کئے اور شائقین سے خوب داد وصول کی ۔میچ شروع ہونے سے قبل ضلع غذر سے تعلق رکھنے والے رکن قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان فداخان فدا نے سپاسنامہ پڑھ کرسنایا۔جبکہ ڈپٹی اسپیکر قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان جعفراللہ خان نے پائیدارامن کے قیام کے لئے کھیلوں کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔ میچ کے اختیام پرشائقین دوبارہ اپنے اپنے ٹھکانوں کی جانب چل دئیے اوراپنی اپنی مصروفیات میں مگن ہوئے۔ شام پانچ بجے چترال اور گلگت کی بی ٹیموں کے درمیان پولو میچ شروع ہوا۔ جس میں گلگت بی کو چترال بی ٹیم پر برتری حاصل ہوئی۔ رات نو بجے ایک جگہ چترال کاعلاقائی شو شروع ہوا تو دوسری جگہ گلگت بلتستان کے ڈھول بجنے لگے۔چترال کے کلچر شو دمیں شائقین کے لئے تل دھرنے کوجگہ نہ تھی جبکہ گلگت کی جانب چند ہی لوگ نظر آرہے تھے۔ زیادہ تر شائقین نے گلگت بلتستان کی بجائے چترال کے کلچرشو دیکھنے کو ترجیح اس لئے دی کہ وہاں پر شائقین کے لئے بیٹھنے کے لئے بہتر انتظامات تھے۔چترال کے کلچرشو میں گلگت بلتستان اور چترال کے علاوہ ملکی وغیرملکی شائقین کی بھی خاصی تعداد موجود تھی۔شو میں چترال کے معروف فنکار منصورشباب نے اپنی سریلی اور خوبصورت آوازمیں چترالی غزلیں گاکر محفل لوٹ لیا۔یوں فیسٹول کا دوسرا روز یہی پر اختتام پزیرہوا ۔ صبح دس بجے کے قریب ہزاروں کی تعداد میں لوگ دوبارہ گراونڈ میں جمع ہوئے جو گلگت اور چترال کی اے ٹیموں کے مابین فیسٹول کے فائنل میچ سے زیادہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھے۔ کچھ ہی دیر میں آرمی ہیلی کاپٹرز کے زریعے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن تشریف فرماگئے اور گلگت بلتستان انتظامیہ نے ان کا بھرپور استقبال کیا۔وزیراعلیٰ کی آمد کے ساتھ ہی دونوں ٹیموں کے مابین فائنل میچ شروع ہوا۔ پہلے ہاف تک گلگت کی ٹیم کو چترال کی ٹیم پر تین کے مقابلے میں چھ گول پر برتری حاصل رہی۔ہاف ٹائیم کے وقفے میں فائنل میچ بلکہ پورے فیسٹیول کے مہمان خصوصی آرمی چیف جنرل راحیل شریف تشریف فرماگئے۔جہاز سے اترنے پر پاک فوج کے افسران،جوانوں اور سول حکام نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور وہاں سے گاڑیوں کے قافلے میں انہیں اسٹیج تک پہنچادیا گیا۔ جونہی آرمی چیف اسٹیج پر نمودارہوئے تو شائقین نے زوردار تالیوں اور بڑی گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا اور سبہی جنرل راحیل کی طرف ہاتھ ہلائے نظر آئے۔ تھوڑی دیرمیں مہمان خصوصی کو دعوت خطاب دیا گیا۔ اپنے مختصر خطاب میں پاک فوج کے سپہ سالار نے گلگت بلتستان اور چترال کے لوگوں کی بہادری وشجاعت کو خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ حسب روایت دہشتگردوں کو دوٹوک الفاظ میں پیغام دیا کہ پاک سرزمین پر اب ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی قوم شندور جیسے بلندترین مقام پر بھی بلاخوف وخطرخوشیاں منارہی ہے۔اس سب سے بڑھ کر آرمی چیف نے یہ اعتراف کرکے شائقین کے دل جیت لئے کہ گلگت بلتستان اور چترال کے لوگ مشکل دور سے گزررہے ہیں، جوکہ ایک تلخ حقیقت ہے۔وقفے کے دوران آرمی کمانڈوز نے آٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی سے پیراشوٹ کے زریعے زمین پر اتر کراپنے سپہ سالار کو سلامی دی اور قومی پرچم پیش کیا جو انہوں نے چومتے ہوئے آنکھوں پر اٹھایا۔ آرمی چیف کے خطاب کے بعد دوسرے ہاف کا میچ شروع ہواتو چترال کے کھیلاڑیوں میں اچانک پھرتی آگئی اور گلگت کی ٹیم پر حاوی ہوگئے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے چھ کے مقابلے میں دس گول کرکے فیسٹول کا ٹرافی اپنے نام کرلیا۔ اسی کے ساتھ ہی گلگت بلتستان کے شائقین نے مایوسی اور اداسی جبکہ چترال کے لوگ فتح اور خوشی کا جشن منائے شندور سے واپسی کا رخ اختیار کرلیا۔ شندور اپنے قدرتی حسن اور دنیا کا بلند ترین پولوگراونڈ ہونے کی خاصیت کے باوجود حکومتی توجہ کا طلب گار ہے۔ یہ علاقہ تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے غذر گلگت بلتستان کا حصہ ہو یا چترال خیبرپختونخوا کا،اس بحث میں الجھنے کی بجائے دونوں اطراف کی صوبائی حکومتوں کوشندور پولوگراونڈ کو ایک بین الاقومی سطح کا شاندار اسٹیڈیم میں تبدیل کرنے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس میں دونوں علاقوں کا برابر کا فائدہ ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف سے شندور جانے والی خستہ حال سڑکوں کی بہترین مرمت اور پختگی،گراونڈ کے آس پاس مہمانوں کے لئے قیام وطعام کے مناسب انتظامات خاص طور پربیت الخلا کی تعمیر، پانی کا مناسب انتظام اور گندگی اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کا بندوبست فیسٹول کی کامیابی کے لازمی جزہیں۔تاکہ شندور کے قدرتی ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر فیسٹیول کو بہتر سے بہتر انداز میں منعقد کیا جاسکے ،کیونکہ کوئی عام جگہ نہیں، یہ دنیا کا بلندترین پولو گراونڈ ہے جہاں پر بادشاہوں کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button