کالمز

کھوکھلے نعرے۔۔اور۔۔قیامتِ صغریٰ

حمزہ گلگتی

حقائق اوردعوؤں کی دنیا الگ الگ ہوا کرتی ہیں۔کبھی دعویٰ سے حقیقت بدلی اور نہ حقیقت کے لئے دعویٰ کے دلیل کی ضرورت پڑی۔ حقیقت اپنا آپ منواتی ہے۔ کبھی سورج کی کرنیں روئے ارضی کو اپنی لپیٹ میں لے تو یہ کہنے کی ضرورت پڑی ہے کہ دیکھو یہ دن کی آمد ہے؟ نہیں ۔۔اس کی کبھی ضرورت نہیں پڑی۔کیونکہ سورج کااپنی کرنوں کا جلوہ دکھانا بذاتِ خود دن کے آمد کی دلیل ہے۔ اسی طرح کسی کی کارکردگی دیکھنا ہو تو اس کے اخباری بیانات، یا کھوکھلی دعوؤں اور بے سروپا نعروں کو مت دیکھو۔ بلکہ حقیقت کی دنیا میں اس کے کئے ہوئے کاموں اور کارناموں کو دیکھو۔یہ دیکھو کہ وہ اخبار کے صفحوں پہ زندہ ہے، جذباتی کارکن کے نعروں میں زندہ ہے، اپنی کھوکھلی دعوؤں میں زندہ ہے یا اپنی کارکردگی سے عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔ اخبار کے صفحوں پر، جذباتی کارکن کے نعروں میں اور کھوکھلی دعوؤں میں زندہ رہنے کی عمر ہمیشہ سے ہی بہت کم رہی ہے۔مگر عوام کے دلوں میں زندہ رہنے کی عمر کی مدت اگر ابدتک نہیں تو لمبے عرصے تک ضرور ہوا کرتی ہے۔ ترکی میں حالیہ بغاوت کوئی معمولی نوعیت کا نہیں تھا۔ وہ ایک بہترین اور منظم انداز پر تیار کی گئی بغاوت تھی جس کے پسِ پردہ بہت سارے محرکات تھے۔ بعض حقائق بتا رہے ہیں کہ اس کی پشت پر عالمی طاقتوں کے مضبوط کرداروں کا ٹولہ بھی تھا۔ مگر اسے کچل کس نے دیا؟ طیب اردگان نے؟ یا علی ابن یلدرم نے؟ نہیں ۔۔اسے طیب اردگان کی حقیقت نے کچل ڈالا۔۔ وہ حقیقت کیا تھی ۔۔یہ کہ اس نے کھوکھلے نعرے نہیں لگایا تھا۔۔۔ صرف اخبارات کے صفحوں یا فیس بک پر زندہ رہنے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ وہ عوام کی دلوں پر زندہ رہنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے عوام سے کئے گئے وعدے پورے کئے۔ اپنی عیاشی کو عوام کی سہولت پر قربان کر دیا۔حقیقت کی دنیا میں دکھا دیا کہ وہ عوام کی بھلائی کے لئے حکمرانی کرتا ہے نہ کہ اپنے پیٹ، ذات اور خاندان کے لئے۔ اسے عوام کا سکون عزیز تھا۔ اس حقیقت کو اخبارات یا فیس بک یا پھر جذباتی کارکن کے نعروں کی ضرورت نہیں تھی یہ حقیقت اپنا آپ منوایا تھا۔ترکی کے عوام کو پتہ تھا کہ یہی ہمارا حقیقی لیڈر ہے جو ہماری بھلائی کا سوچتا ہے۔ یہی ہمارا حقیقی لیڈر ہے جو اس ملک کو مضبوط کر سکتا ہے۔ انہیں معلوم تھا ترکی کی معیشت کا پہیہ تیزی سے اسی طیب اردگا ن نے گھومایا ہے۔ انہیں پتہ تھا کہ ان کے بچوں کامستقبل مضبوط ترکی سے وابستہ ہے۔وہ جانتے تھے جب دوبارہ پہلے والے حالات پیدا کر دئے گئے تو معیشت کا پہہیہ رک جائے گا۔اس لئے عوام نے ایک چھوٹی سی پیغام پر لبیک کہا۔ بہر نکل گئے گلیوں ،بازاروں ،کوچے کوچے میں پھیل گئے، ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔بغاوت کرنے والوں کی ایک نہ چلنے دی اور انہیں واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ یہ حقائق کا جواب تھا۔حقیقت کا بدلہ تھا۔

آج کیوں نہ ہم اپنے لیڈروں کے حقائق کو دیکھ کر فیصلہ کرے؟ہم ان کے کھوکھلی نعروں کو دیکھنے کے بجائے زمینی حقائق دیکھیں۔اگر ہمارے ملک کی حالت سھنبل گئی ہے۔اگر ہمارے نظام میں تبدیلی آگئی ہے۔ اگر ہمارے عدل کا نظام انصاف پر مبنی ہے۔اگر ہمارے ہاں غربت مٹ گئی ہے۔اگر ہماری بے روزگاری ختم ہو چکی ہے۔اگر ہمیں بجلی تسلسل سے مل رہی ہے۔اگر ہمارے سڑکیں مکمل پختہ ہو چکی ہیں۔اگر ہمارے ملک کے بنجر علاقوں میں پانی فراہم کی گئی ہیں ۔اگر ہمارے سفری سہولیات کو دنیا کے ترقی یافتہ لوگوں کے سفری سہولیات کے برابر لانے کی کوئی کاوش کی گئی ہے۔اگر ہمارے بچے بچے کو آسان اور برابری کی بنیاد پر تعلیم کا حق مل رہا ہے۔اگر ہمارے تعلیمی اداروں کا حال سنور چکا ہے۔اگر صحت کی سہولیات عوام کو ان کے دہلیز پر با آسانی مل رہیں ہیں تو آپ حکمرانوں کا گن گائیں بھلا سے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کا نام کا مالا جھپے،ان کے حق میں نعرے لگائے۔ان کے سچی کارناموں کی تشہیر کرے۔ان پر کوئی آنچ آجائے تو ترکی کے عوام کی طرح جان کی پرواہ کئے بغیر باہر نکے۔سینوں پرگولیاں کھائے، ٹینکوں کے سامنے لیٹے کچھ بھی کرے مگر اپنے حکمرانوں پر آنچ آنے نہ دے۔ نہیں اگر حالات ان کے برعکس ہیں تو ان کے جھوٹی افواہوں اور اخباری دعوؤں پر عش عش کرنا چہ معنی دارد!

ان سطور کو لکھ رہا تھا کہ کوئٹہ میں بپا قیامتِ صغریٰ نے نہ صرف سوچوں کا دھارا ہی بدل دیا بلکہ سوچوں کو مفلوج کر کے ہی رکھ دیا۔آگے ایک لفظ لکھنے کی سکت نہیں ہے۔ہر طرف سے مذمت کی خبریں اور غم کے ٹسویں بہانے کی خبریں آرہیں ہیں۔ان سے کیا ہوگا۔جبکہ شاطر دشمن ہمارا دل چھید کر چلا گیا۔اب سیکورٹی سخت بھی کرو تو لاحاصل ہے۔ بس ان سب آوازوں میں ایک توانا آواز پھر کچھ امید اور ڈھارس بندھوائی ہے۔جرنیل صاحب فرما چکے ہیں کہ ہم نے بہت سارے علاقوں سے ان کا صفایا کردیا یہاں سے بھی کر دینگے۔جرنیل صاحب ! قوم آپ کو سلام پیش کر رہی ہے۔آپ نے حقیقی معنوں میں اس بکھرے ہوئے قوم کے زخموں کا مداوا کیا ہے۔سچ ہے جرنیل کا کام سرحدات کی حفاظت ہوتی ہے مشرف ،ضیاء وغیرہ کی طرح تختوں کی نہیں۔آپ بھی اپنے اسی منصب پر رہ کر آگے بڑھیئے قوم مستقبل میں بھی آپ کا نام لے کر فخر کرے گی۔ اس شاطر دشمن نے ہمارے ملک کو آگ میں جھونک رکھا ہے۔کراچی سے لیکر فاٹا تک کوئی سلامت نہیں تھا۔آپ کی حقیقی کاوش نے امن کو دوام بخشا۔ اب بلوچستان میں بھی ان کے قدم جمنے نہ دے ۔قوم آپ کاساتھ دے گی انشاء اللہ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button