Uncategorized

یاسین کے زینت شاہ پیپلزپارٹی کی زینت تھے

صفدرعلی صفدر

اسلام آباد سے آئے ہوئے دوست نورپامیری صاحب کے اعزاز میں گلگت کے صحافی دوست عبدالرحمن بخاری کی جانب سے ڈنر کا اہتمام تھا ۔اطلاع ملنے پرمیں بھی بن بلائے مہمان کی مانند ان کی محفل میں حاضرہوا ۔ان کی محفل میں بیٹھنے کا فائدہ یہ ہے کہ دونوں سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کوضرورمل جاتا ہے۔نورصاحب کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے اور وہ ایک حساب سے علم اور نالج کا خزانہ ہیں۔جبکہ بخاری صاحب ہمیشہ مصدقہ خبروں اور تازہ ترین معلومات سے لیس رہتے ہیں۔

ٹیبل پرکھانے کے انتظار میں علاقائی حالات وواقعات پر گفتگو جاری تھی کہ اچانک موبائل پر وکیل دوست اسلام الدین ایڈووکیٹ کا ایس ایم ایس موصول ہوا،جسے پڑھ کر معلوم ہواکہ یاسین کے بزرگ سیاستدان وپاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے بانی رہنماء زینت شاہ صاحب اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔

ایس ایم ایس پڑھ کرانتہائی دکھ اور افسوس ہوا۔سوچا کہ زینت شاہ صاحب سے آخری بار گفتگوتو نصیب نہ ہوئی لیکن آخری دیدار تو کرہی لیا جائے۔یوں محفل برخاست ہوتے ہی سیدھے کنوداس گلگت میں واقع زینت شاہ صاحب کی صاحبزادی زبیدہ زینت کی رہائش گاہ کی جانب چل پڑا۔وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ زینت شاہ صاحب کی جسدخاکی کو آخری رسومات کی ادائیگی کی غرض سے کنوداس میں واقع اسماعیلی جماعت خانے کے احاطے میں لایا گیا ہے اور رسومات پوری ہونے کے بعدآدھی رات کو ان کی میت تدفین کے لئے آبائی گاؤں یاسین روانہ کردی جائیگی۔

کنوداس میں زینت شاہ صاحب کی رحلت کی خبرسن کر ان کے عزیزواقارب اور اہل محلہ کا ہجوم جمع تھا۔کچھ دیر وہی ٹہر جانے کے بعد میں واپس گھرروانہ ہوا اور زینت شاہ صاحب کی میت یاسین روانہ کردی گئی۔ جہاں پرصبح انہیں سینکڑوں اشکباروں کی موجودگی میں آبائی قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا۔

زینت شاہ صاحب سے غائبانہ تعارف تو بچپن ہی سے تھا ۔1992میں جب ہم سکول کے طالب علم تھے تو زینت شاہ صاحب ڈسٹرک کونسل کے انتخابی مہم کے سلسلے میں راستے میں کہیں نہ کہیں نظر آرہے ہوتے تھے ۔زینت شاہ صاحب اس وقت ضلع کونسل کے الیکشن کے لئے امیدوارتھے اورپارٹی بنیادوں پر انتخابات منعقد نہ ہونے کے باوجود پیپلزپارٹی کے جھنڈے تلے انتخابی مہم چلارہے تھے۔

ان دنوں زینت شاہ صاحب کے ساتھ میرے گاؤں کی ہردلعزیز شخصیت و پیپلزپارٹی کے بانی رہنماء راجہ کاکاجان صاحب(مرحوم) سیاسی میدان میں خاصے سرگرم تھے۔راجہ کاکا جان صاحب کا یاسین کے عوام میں سیاسی شعوراجاگر کرنے کے علاوہ علاقے کے ثقافتی ورثے کے تحفظ اور قدیم تہذیب وروایات کو زندہ رکھنے میں بھی نمایاں کردارتھااورآخری دم تک وہ اپنی ثقافتی سرگرمیوں کامحور بنے رہیں۔ راجہ کاکاجان اور زینت شاہ صاحب میں بہت گہری رفاقت تھی۔دونوں کی پاکستان پیپلز پارٹی سے دیرینہ وابستگی رہی اورمرتے دم تک انہوں نے یاسین میں جمہوریت کی صدا بلندکرنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی۔

زینت شاہ صاحب 1930کو سنٹریاسین میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد1950میں گلگت سکاوٹس میں ملازمت اختیارکرلی۔چند سال بعد ملازمت سے استعفیٰ دیکرگھرواپس لوٹنے کے بعد عملی سیاست میں قدم رکھا۔ 1970کی دہائی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹوکی کاوشوں سے گلگت بلتستان میں عوامی وسیاسی اصلاحات لائے جانے کے بعد زینت شاہ نے بھی دیگر رہنماؤں کی طرح گلگت میں پیپلزپارٹی کے اولین کنونشن میں بھٹو صاحب کی موجودگی میں باضابطہ طورپرپی پی پی میں شمولیت اختیارکرلی۔اس دوران انہیں سیاسی میدان میں بہت سے نشیب وفراز کا سامنا رہا۔خاص طورپر جنرل ضیاء الحق کے بدترین آمریت کے دورمیں دیگر جمہوری شخصیات کی طرح زینت شاہ اور ان کے ساتھیوں کو بھی سخت مشکلات سے گزرنا پڑا ،مگر ان تمام ترمشکلات کے باوجودوہ جمہوریت کی بالادستی اور عوام کی سربلندی کے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔

سیاست کے علاوہ وہ علاقائی سطح پر سماجی کاموں اورعوامی مسائل کو حل کرنے میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے۔دو مرتبہ ضلع کونسل کے الیکشن میں ناکامی کا سامنا رہا لیکن تیسری بار پھر ہمت نہ ہاری اور1992کے بلدیاتی انتخابات میں زینت شاہ یاسین کے موجودہ رکن قانون ساز اسمبلی راجہ جہانزیب صاحب کے مقابلے میں ضلع کونسل غذر کے رکن منتخب ہوئے۔

2004کے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے ضلع کونسل غذر میں خواتین کی مخصوص نشست پراپنی بہادر بیٹی زبیدہ زینت کواپنی سیاسی جانشین کے طور پر میدان میں اتار،جس میں انہیں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی۔ یوں 2004سے2009تک زبیدہ زینت نے ضلع کونسل غذر کی خاتون رکن کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دیں۔

زینت شاہ صاحب کا پاکستان پیپلزپارٹی بہت گہرا لگاؤ تھا اورپارٹی کی خاطر وہ کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔زینت شاہ اور ان کے قریبی دوست راجہ کاکاجان تادم ازمرگ باالترتیب پیپلزپارٹی یاسین کے صدر اور جنرل سکریٹری کے عہدوں پر فائزرہیں۔

2009کے عام انتخابات سے چندماہ قبل راجہ کاکاجان سے اپنی ملاقات میں جب میں نے مذاقاً یہ پوچھا کہ راجہ صاحب پیپلزپارٹی والے کیا آپ اورزینت شاہ صاحب کی کچھ زیادہ ہی خاطرداری کرتے ہیں، طویل عرصے تک صدر اور جنرل سکریٹری کا عہدہ آپ دونوں کے سرکوہی جاتا ہے۔جس پر راجہ صاحب ہنس کر بول دیئے کہ’’ بیٹا یہ ایک جنون ہے،اس میں ہمیں کچھ ملتا نہیں بلکہ ہماری جیب سے بہت خرچ ہوتا ہے ۔ میں اور زینت شاہ بڑے دل گردے والے لوگ ہیں، اسی لئے ہم پر یہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ہمارے سوا کسی اور میں یہ ہمت کہاں کہ اتنی بڑی ذمہ داری سنبھالیں‘‘۔

یہی الفاظ زینت شاہ صاحب کے بھی تھے۔گزشتہ برس جب وہ علاج کے سلسلے میں گلگت کے آغاخان میڈیکل سنٹر میں ایڈمٹ تھے تواطلاع ملتے ہی میں ان کی تیمارداری کے لئے حاضر ہوا۔تھوڑی دیر گپ شپ کے بعد بولے کہ ہسپتال سے ڈسچارچ ہونے پرگھرتشریف لے آنا، آپ کے ساتھ خصوصی نشست کا ارادہ ہے۔

چند دن بعد وعدے کے تحت کنوداس میں زبیدہ زینت صاحبہ کے گھرپرحاضر ہوا تو اپنی زندگی کی داستان تفصیلاً سنادی ۔ہماری ملاقات کے دنوں میں گلگت بلتستان میں 2015کے عام انتخابات کی تیاریاں عروج پر تھیں۔میں نے موقع کی مناسبت سے زینت شاہ صاحب سے

سوال کیا کہ اس دفعہ کے الیکشن میں کس کا ساتھ دینے کا ارادہ ہے،تو جواباً عرض کیا’’ بیٹامیں پیپلزپارٹی کا ایک ادنیٰ ساکارکن اور بھٹو خاندان کاجانثار سپاہی ہوں، کبھی وقتی لالچ میں پارٹی سے بے وفائی کا نہیں سوچا، مرتے دم تک اسی پارٹی کا ساتھ نبھاتا رہوں گا،چاہے پارٹی قیادت الیکشن کے لئے ٹکٹ جس کسی کو بھی کیوں نہ دے‘‘۔

پھر بولے ویسے تو میری اپنی بیٹی زبیدہ بھی پارٹی ٹکٹ کے لئے امیدوار ہے، لیکن اگر پی پی کا ٹکٹ لئے بغیر وہ بھی میدان میں آئے تو بھی میں اپنی پارٹی کے امیدوارکوہی ووٹ دینے کو ترجیح دوں گا۔

’’ نورحق شمع الہٰی کو بجاسکتا ہے کون،جس کا حامی ہوخدااس کو مٹاسکتا ہے کون‘‘ان کا بہت پسندیدہ شعرتھا۔کسی جلسے سے خطاب کرناہو یا عام سیاسی بحث ومباحثہ،وہ اپنی گفتگوکا آغاز اسی شعرسے ہی کرلیتے۔ان میں ایمان کی پختگی بھی حد سے بڑھ کرتھی اسی لئے ہرفیصلے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا کرتے تھے۔

پیپلزپارٹی کی سابق صوبائی حکومت کی کارکردگی سے وہ بالکل مطمئن نہ تھے اور ہمیشہ یہی شکوہ کیا کرتے کہ چندلوٹواورکرپٹ عناصر نے شہیدوں کی پارٹی کوبہت نقصان پہنچادیا۔ پیپلزپارٹی کے بانی رہنما جوہرعلی(مرحوم)،قربان علی، سیدجعفر شاہ،سیدپیرکرم علی شاہ اورامجدحسین ایڈووکیٹ کا بار بار ذکر کیا کرتے تھے ۔اللہ کا کرنا کہ زندگی کے آخری لمحات میں پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر امجدحسین ایڈووکیٹ پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ ان کی عیادت کی غرض سے ہسپتال میں موجودرہے۔

وہ پیپلز پارٹی کے دوسرے رہنماؤں اور اپنی صاحبزادی زبیدہ زینت کو ہمیشہ پارٹی سے بے وفائی اور ضمیرکی سودے بازی سے باز رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ مجھے ان کے فرزند انجنیئرقیوم صاحب اور انکے فرمانبردار داماد علی جان صاحب کی وساطت سے معلوم ہواکہ زینت شاہ صاحب آخری سانسیں لیتے وقت بھی اپنا پسندیدہ شعرنوک زبان کرتے اور پارٹی میٹنگ کے حوالے سے باربار پوچھتے رہے۔زبیدہ زینت نے بتایا کہ زینت شاہ صاحب کو ان کی وصیت کے تحت پاکستان پیپلزپارٹی کے جھنڈے میں لپیٹ کر ابدی زندگی کے سفرپر روانہ کردیا گیا۔

زینت شاہ صاحب یاسین کی سیاست کے رونق اور پاکستان پیپلزپارٹی کی زینت تھے ۔ان کی وفات سے پیپلزپارٹی ایک نڈر، باضمیر اور حقیقی جیالے سے محروم ہوگئی ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی روح کو اپنے جواررحمت میں اعلیٰ مرتبہ عنایت فرمائے۔(آمین)

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button