کالمز

جشنِ آزادی مبارک

 الواعظ نزار فرمان علی

’’اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور تمہاری رنگتوں کا الگ الگ ہونا بھی اُس کی نشانیوں میں سے ہے یقیناًاس میں علم والوں کے لئے ضرور کئی نشانیاں ہیں۔۔۔‘ اور (وہ وقت یاد کرو ) جب کہ تمھارے پروردگار نے سُنا دیا تھا کہ اگر تم شکر کرو گے تو ضرور میں تمہیں بڑھا دوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقین جانو کہ میرا عذا ب بڑا سخت ہے۔‘‘( القرآن)

جشنِ آزادی کے پُر مسرّت یومِ سعید پر آپ سب کو لاکھوں لاکھوں مبارک باد۔ ربِ کریم کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ ہمارے پیارے ملک پاکستان اور اہل وطن کو ہمیشہ شاد ، آباد اور کامیاب و کامران بنائے۔ اہل وطن کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے احترام، محبت اور خیر خواہی کے پاکیزہ جذبات میں بے پناں اضافہ ہو، قیامِ پاکستان اور بقائے پاکستان میں اپنا مالی ،جانی، اخلاقی نذرانے پیش کرنے والوں کو ظاہری و باطنی رحمتیں و برکتیں نصیب ہوں۔ اللہ پاک ملک و ملّت کا بول بالا رکھے ۔ آمین یا رب العالمین۔ الحمد اللہ ، آج ہم سب پاکستان کا ۷۰ واںیومِ آزادی شایان شان طریقے سے منا رہے ہیں۔دیکھا جائے تو ستر برس کا یہ طویل اور صبر آزما سفر اہل وطن اور عظیم لیڈروں کے ایمان و یقینِ محکم، عزمِ صمیم و اعلیٰ ہمتی اور سعئ پیہم کی ایک جیتی جاگتی داستان ہے۔ لِہٰذا آج کا یہ مبارک تاریخی دن سرزمینِ پاکستان سے اپنی بے غرض وفا داری،بے لوث خدمت اور حب الوطنی کے ارفع جذبے کو تر و تازہ کرنے اور تعمیر وترقیِ پاکستان میں کوئی بھی دقیقہ فروگذاشت نہ کرنے کے عہد کی تجدید کا دن ہے یہ شکرگزاری کا بھی دن ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں نیلے آسمان تلے ایسی سرزمین عطا فرمائی جہاں پر ہم اپنی مذہبی ، معاشرتی، اخلاقی، روحانی اورتہذیبی اقدار کا اظہارنہایت پُر سکون اور پُر اعتماد انداز سے کر سکتے ہیں۔ یقیناًآزادی ایک انمول نعمت ہے یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے لئے ایک منفرد تحفہ ہے ۔ ساری مخلوقات میں صرف انسان ہی آزادی کے لطیف اور پُر لطف احساسات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ اگر اس کا مول جاننا چاہتے ہو تو کھلے سمندر کی مچھلی سے پوچھو جسے تالاب میں قید کر دیا گیا ہے، اُس پرندے سے جانئے جس کے پر کاٹ کر پنجرے میں بند کیا گیا ہے، وہ شخص جو سلاخوں کے پیچھے ناکردہ گناہوں کی عمر قید کاٹ رہا ہے، ننھا چوزہ جو انڈے کے خول سے نکلنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے ،نرم و نازک بیج جسے مٹی کے تہوں میں دفنایا گیا ہے جو روشنی کی تلاش میں زحمتیں جھیل رہا ہے اور ذرا اپنے اردگرد، مشرق و مغرب کی جانب نظریں پھیلائیں اور دیکھیں کہ دنیا کے مختلف خطّوں کے متنازعہ علاقوں میں آزادی کی جنگ لڑنے والے سپاہیوں اور کارکنوں سے دریافت کیجئے کہ آزادی کس قدر قیمتی اور گراں قدر دولت ہے آغاز میں ہدیہ کی گئی آیتِ قرآنی کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم اللہ کی عطا کردہ نعمتوں(آزادی) کی قدر دانی اور اس کا صحیح مصرف بجا لائیں گے تو اللہ پاک اس میں برکت اور کشادگی عنایت فرمائیں گے اور ناشکری ، نافرمانی، ناقدری یعنی کفرانِ نعمت کی ایسی مثالیں ہیں کہ جس سے وہ نعمت مختصریا چھن جاتی ہے۔ خدا وند مہربان آزادی کی عظیم نعمت سے دینی اخلاقیات کے مطابق کما حقہ ہو مستفیض ہونے کی اعلیٰ ظرف عطا فرمائے۔ آمین

قارئینِ کرام ! تاریخِ پاکستان کے معتبر مصنفین کی رائے میں جنوبی ایشیاکے اس خطّۂ ارضی پر نورِ اسلام کی کرنیں ابتدائی عرب تاجروں کی وساطت سے پڑیں تاہم اسلامی تہذیب و تمدن کا بھر پور اظہار اُس وقت دیکھنے میں آیاجب محمد بن قاسم نے 712ء میں سرزمینِ سندھ پر حملہ کرکے راجہ داہرکو شکست دے کر یہاں اسلامی نظرےۂ حیات پر مبنی عادلانہ نظامِ حکومت تشکیل دیا جو ملتان تک محیط تھااس کے بعد یہاں پر سرآمد اولیا کی تشریف آوری کا سلسلہ شروع ہو گیا جن کے ذریعے لاکھوں نفوس کو دینِ اسلام کی روشنی نصیب ہوئی ان صوفیائے کرام میں حضرت علی ہجویری، حضرت داتا گنج بخش، میراں حسین زنجانی، خواجہ بختیار کاکی، بہاء الدین ذکریا، بابا فرید گنج شکر ،حضرت نظام الدین اولیا، خواجہ معین الدین چشتی، پیر مکی اور سید جلال بخاری کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں ان کے بعد جن خاندانوں اور سلسلۂ سلاطینِ نے تاریخ کے مختلف ادوار میں حکومت کی اور بڑے اثرات مرتب کئے ان میں سلاطینِ غزنویہ، سلاطینِ غوری، خاندانِ غلاماں، خلجی سلاطین، سلاطینِ تغلق، سلاطینِ سیّد، خاندانِ لودھی اور خاندانِ مغلیہ جو ظہیرالدین بابر سے شروع ہوکر آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی غلط حکمتِ عملی اور اسلامی اقدار سے انحراف کی بنا ء پرروبہ زوال ہو کر ایسٹ انڈین کمپنی کے ذریعے برطانوی حکومت کے حوالے ہوگئی۔ 1857 ء میں مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف بھر پور کارروائی کی مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بلا شبہ اس سے مسلمانوں میں آزادی حاصل کرنے کا شعور و جذبہ توانا ہو گیا۔19ویں صدی کے آغاز تک برصغیر پاک و ہند کے مسلمان زندگی کے ہر میدان میں تنزل کا شکار ہوتے چلے گئے، دور ظلمت میں بزرگانِ دین کی اصلاحی تحریک مینار ۂ نور ثابت ہوئی،حضرت شاہ ولی اللہ، شاہ عبد العزیز اور سید احمد بریلوی نے مسلمانوں کی مذہبی و معاشرتی کمزوریوں کو دور کر کے اسلامی تشخص کا احیاء کیا۔ اس کٹھن دور میں سر سید احمد خان نے مسیحا بن کر مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا ، آپ نے تلقین کیاکہ دشمن کو شکست دینے کے لئے تلوار کی نہیں قلم کی ضرورت ہے جب تک ہم اپنے مسلم تشخص کو تھامے ہوئے جدید علوم اور مروجہ بین الاقوامی زبانوں پر دسترس حاصل کر کے ہی آزادی کی نعمت سے بہر مند ہو سکتے ہیں اس سلسلے میں علی گڑھ کالج کا قیام جو بعد میں عظیم مادر علمی بنا اور تحریک پاکستان کے لئے عظیم سنگ میل ثابت ہوا آپ نے اپنے رسالہ تہذیب الاخلاق میں منطقی لب و لہجے میں قوم کو چوکنا کیا اور اپنی حالت زار کا بغور جائزہ لینے ، غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ذاتی اغراض سے بالاتر ہو کر دو قومی نظریے کی روشنی میں منزل مقصود کو پانے کے لئے مسلسل رہنمائی فرمائی۔ اس رسالے کے ایک اہم مضمون "اپنی مدد آپ "میں کئی اہم آزمودہ نسخے بتائے ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ سچی ترقی کی بنیاد دراصل اپنی مدد آپ کرنے کے جوش و جذبے میں ہے اور قومی ترقی دراصل شخصی محنت ، عزت، ایمانداری اور شخصی ہمدردی میں مضمر ہے جبکہ قومی تنزل مجموعہ ہے شخصی سستی ، بے عزتی، بے ایمانی، خودغرضی اور شخصی برائیوں کا۔داخلی خرابیوں کو بیرونی دباؤ سے مٹانا ممکن نہیں اصلاح احوال کے لئے شخصی زندگی اور شخصی چال چلن کی حالت کو بہتر بنانا نا گزیر ہوتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی اصلاح حیات کے لئے حکیم الامت، شاعر مشرق اور ترجمان حقیقت حضرت علامہ اقبال کا کردارلازوال و بے مثال ہے آپ کی تعلیمات میں زندگی کا محور و مرکز کلمہ شہادت ہے، قرب خدا وندی کے حصول کے لئے عشق مصطفیؐ اور کلام خدا کو رہنما بنانا لازمی ہے۔آپ ؐ کی کامل اتباع و عشق کے ذریعے رجائیت و مایوسی کو ترک کر کے امید ، ہمت، حریت اور جرات کے ساتھ تعمیر ملت و

معا شرہ کا حق ادا کر سکتے ہیں۔تاریخ پاکستان کے اہم کرداروں میں نواب محسن الملک، وقار الملک، مولانا حالی، سر آغا خان، نذیر احمد، جناب ذکاء اللہ، علامہ شبلی نعمانی، علی برادران اور ان کے دیگر رفقاء کار شامل ہیں۔جناب بشیر احمد کہتے ہیں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی سیاسی ، ثقافتی و معاشرتی نظام کو منطقی نہج تک پہنچانے میں کئی اہم شخصیات نا قابل فراموش ہیں ، حالی کی مسدس نے ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی میں انقلاب کی لہر دوڑا دی، علامہ شبلی نے اسلامی تاریخ کے آئینے میں اپنی گزشتہ عظمت دکھا کر ان کے دلوں کو گرما دیا ، جسٹس سید امیر علی نے اپنی انگریزی تصانیف کے ذریعے اہل مغرب کے سامنے اسلام کا عالمگیر پیغام بڑے مدلل انداز میں پیش کیا۔

مختصراً 23مارچ 1940کو لاہور میں ایک اہم قرارداد منظور کی گئی جو قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہے اس کی رو سے مسلمانان ہند کے لئے ہندوستان کے ایک حصے میں ایک خودمختار حکومت اور جدا گانہ آزاد وطن کے قیام کا فیصلہ تھاجو خد اکے فضل سے اس قرارداد کی منظوری کے تقریباً سات سال بعد آزاد خود مختار اسلامی جمہوری مملکت پاکستان وجود میں آگیا۔ ذرا غور کریں ہمارے ملک میں کیا کچھ نہیں ہے خدا کے فضل و کرم سے چہار موسموں،اہم فصلوں،رسیلے پھلوں،تیل ،گیس و کوئلے اورقیمتی پتھروں کے ذخائر،بہتے دریا،کھلے سمندر،فلک بوس پہاڑ K2، خنجراب ٹاپ سے چھانگا مانگا کے جنگلات تک،لواری ٹنل سے گوادر پورٹ تک،شاہراہ قراقرم سے انڈس ہائی وے تک،گندم ،کپاس خشک میوہ جات ،پھولوں،پھلوں اور بیج کی پیداوار ،کھیلوں کا سامان ہو یا آلات جراحی، دفاعی ساز وسامان ،دستکاری، چمڑے ، انجینئرنگ اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات، اور ایسی بیسیوں اشیاء مقامی طور پر تیار ہوتی اور برآمد کی جاتی ہے۔ہمارا ملک ٹیلنٹ کا خزانہ ہے۔ہر سال ملکی اور بین الاقوامی سطح کے امتحانات میں پوزیشن ہولڈرز پاکستانی بچے ہوتے ہیں،مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبہ اپنی نئی تحقیقات و انکشافات کے ذریعے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔پاکستان کی قابل افرادی قوت لاکھوں کی تعداد میں دنیا کے کئی ممالک میں اپنی خدمات پیش کر رہی ہے۔کرکٹ،ہاکی،سکواش،اسنوکر،باکسنگ ،ریسلنگ،کوہ پیمائی،اسپیشل گیمز میں عالمی ریکارڈ قائم کیے(ارفع کریم، ملالہ یوسف ثمینہ بیگ) ،موسیقی،گائیکی،اداکاری،نثر و شاعری ،مصوری (مہدی حسن ،نصرت فتح علی ،ملکہ ترنم، استاد امانت علی ،صادقین ،گل جی، امجد صابری اور خدمت خلق کے میدان میں عبد الستار ایدھی ایک لافانی کردار )اور دیگر اصناف میں بھی اپنی مثال آپ ہیں،بے شک یہ بات ساری دنیا مانتی ہے مختصر یہ کہ ہماری ترقی،کامیابی اور خوشحالی کا خواب اس وقت شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جب نہ صرف حکومت بلکہ اس کے شانہ بشانہ تمام ادارے / افراداپنی صلاحیت و استطاعت کے مطابق اپنا رول ادا کریں۔رشوت خوری ،جانب داری اور اقربا پروری کو ترک کر دے،اگر ہم کلمہ گو ہیں تو پھرنسلی ،لسانی اور مسلکی تعصب کی سیاہ پٹی کو اتار پھینکیں اور اسلامی بھائی چارے کا عملی مظاہر ہ کریں،غور فکر اور مطالعے کو اپنے معمول کا حصہ بنائیں،صحافت اصلاح کا ذریعہ ،لیڈران سیاست کو خدمت سمجھیں،افسر شاہی اپنے آپ کو قوم کا عملی خادم بنائیں،سول سوسائٹی حکومت اور عوام کی مشکلات کم کرنے میں اپنا غیر جانب دار رول ادا کرے۔ نوجوان اندھی تقلید اور شارٹ کٹ چھوڑ کر تحقیق و جستجو کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کریں،محنت کو اپنا شعار بنائیں۔دنیا کو بدلنے سے پہلے اپنے آپ کو بدلیں،دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں،اگر کسی کو خوشی نہیں دے سکتے تو اس کا مذاق بھی نہ اڑائیں اور ہاں جو کام کل کرنا ہے وہ آج سے اور جو آج کرنا ہے وہ ابھی سے شروع کریں کیا ہماری دلی آرزو نہیں کہ پاکستان ترقی کرے’ ترجمان ماضی ،شان حال، جان استقبال‘‘ بنے چونکہ یہ ملک بے پناہ محنت اور قربابیوں سے بنایا گیا ہے لہذا اس کی بقا اور ترقی ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری اور قومی فریضہ ہے۔

جیسا کہ آپ سب کو بخوبی علم ہے کہ ہمارا نصب العین اسلام ہے ۔ لِہٰذیہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی حکومت اسلامی اصول و اقدار پر قائم ہوئی ہے جس کی رو سے مملکتِ خدا داد میں بسنے والے مسلم و غیر مسلم مساوی حقوق حاصل کریں گے ، امیر غریب اور کلاس سسٹم کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہوگی، زر و زمین مساوی تقسیم ہوگی، عوام کا معیار یکساں طور پر بڑھایا جائے گا۔ خدا کرے کہ ہمیں اس کی تعبیر جلد مل جائے۔ آمین

میں اپنے مضمون کا اختتام قرآنی دعاؤں سے کرنے کی جسارت کرتا ہوں ” اے پروردگار تو بخش دے اور رحم فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے بہترین ہے۔القرآن”

” اے ہمارے پالنہار!ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا کر اور ہمارے لئے ہمارے معاملات کی درستی کا سامان مہیا کر دے۔”

آمین یا رب العالمین

پاکستان زندہ باد۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button