کالمز

کیا عاصمہ جہانگیربھی’’را‘‘ کی ایجنٹ ہے؟

یہ مسئلہ سمجھ سے بالاترہے کہ گلگت بلتستان کی زمین پاکستانی ،یہاں کے قدرتی وسائل پاکستانی تو آخر یہاں کے لوگ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبرکیونکر نہیں بن سکتے؟یہاں کے نوجوان ہم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم پاکستانی شہری ہیں یا نہیں؟ یہاں کے نوجوانوں میں آئینی حقوق کے حوالے سے مایوسی بڑھتی جارہی ہے ،جس کا نتیجہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ۔لہذا وزیراعظم پاکستان گلگت بلتستان کے مستقبل کا جلدفیصلہ کریں۔کیونکہ ’’کڑوا کڑوا تھوتھو،میٹھا میٹھا ہپ ہپ ‘‘ کی پالیسی آخرکب تک چلے گی ؟

یہ الفاظ تھے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدرو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سرگرم رہنماء عاصمہ جہانگیرکے ،جو انہوں نے اپنے حالیہ دورہ گلگت بلتستان کے موقع پر کہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ گلگت آکریوں محسوس ہورہا ہے کہ یہاں کے لوگ ہم سے زیادہ محب وطن ہیں۔یہاں پر کوئی پاکستان مخالف ہے نہ سی پیک کی مخالفت ہورہی ہے۔یہاں کے نوجوانوں پر اپنا حق مانگنے پر دہشت گردی کے مقدمات دائر کئے جارہے ہیں جوکہ بہت بڑی ناانصافی ہے۔یہاں کے عوام کو بھی سی پیک میں برابر کا حصہ ملنا چاہیے، وغیر۔۔وغیرہ۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنے دورے کے موقع پر گلگت میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں کیں اور ان سے گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی۔

اتفاق سے ان دنوں سینیٹر تاج حیدر کی سربراہی میں پاکستان کے ایوان بالاکی خصوصی کمیٹی برائے چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کے ارکان بھی سی پیک کے حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام کی اراء جاننے کی غرض سے گلگت تشریف فرما تھے۔ جنہوں نے سی پیک کے حوالے سے گلگت بلتستان کی مختلف سیاسی جماعتوں ،حکومتی اہلکاروں ، سول سوسائٹی اور میڈیا کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں اور سی پیک کے حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام کے تحفظات قلمبند کئے۔

عاصمہ جہانگیر کی طرح سینیٹرز نے بھی گلگت بلتستان کو تمام تر بنیادی و آئینی حقوق سے محروم خطہ قرار دیکراپنے دورے سے واپسی پر حاکم وقت کوصورتحال سے اگاہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔لیکن وفاقی حکمرانوں کا گلگت بلتستان کے مسائل پراس قدر اظہارافسوس یہاں کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے مگرمچھ کے آنسو بہانے کے سوا کچھ نہیں۔

اس طرح کی ہمدردیاں اور اس سے قبل بھی بہت سے حکمرانوں نے جتانے کی کوشش کی، مگر گلگت بلتستان کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں اورپرسکون ماحول سے فراغت کے بعد وہ وعدے کہیں کے رہ گئے ،چاہے وہ برسراقدارجماعت کا کوئی عہدیدار ہو یا اپوزیشن کا۔تب ہی تو یہاں کے عوام کا وفاقی حکمرانوں پر اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔

اسی طرح کی ہی ایک یقین دہانی وزیراعظم پاکستان میاں محمدنوازشریف نے بھی گزشتہ برس گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات سے چندروزقبل گلگت میں ایک پرہجوم عوامی جلسے سے اپنے خطاب میں کرائی تھی،جس میں انہوں نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کے لئے مشیرخارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں وفاقی سطح پرایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا، مگر ڈیڑھ برس کا عرصہ گزرجانے کے باوجودان کا وہ وعدہ عہدوفا نہ ہوسکا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک کا منتخب وزیراعظم کواپنے وعدے پر عملدرآمدمیں ناکامی کا سامنا ہو تو دوچار سینیٹرز اور انسانی حقوق کی ایک علمبرداروکیل کا آخرکون سننے والا ہوگا؟

باتیں تو سب کی اچھی اور حقائق پر مبنی ہی ہیں،لیکن کیا فائدہ ایسی بے تکی باتوں کا جن پر کوئی عملدرآمد ہوتا دیکھائی نہ دے۔عاصمہ جہانگیر نے وہی باتیں کیں جوگلگت بلتستان کے عوام گزشتہ اٹسٹھ برس سے کرتے آئے ہیں، لیکن شکراس بات کا ہے کہ انہیں بھارتی خفیہ ایجنسی’’را‘‘کا ایجنٹ قرارنہیں دیاگیا۔ کیونکہ گلگت بلتستان میں حقوق کی بات کرنے والوں کواکثراس لقب سے نوازا جاتا ہے اور اس بنیاد پران پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمے درج کرکے پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔

آج جو سیاسی رہنماء مختلف جیلوں میں پابندسلاسل ہیں تو وہ صرف اور صرف حق گوئی اور عوامی محرومیوں کے خلاف صدا بلند کرنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان لوگوں نے کوئی قتل وغارت گیری کی نہ ریاست پاکستان کی سالمیت کیخلاف ہرزہ سرائی۔بس صرف اور صرف گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم نہ رکھنے کا تقاضا کیا اورقصورواربن گئے ۔

باتیں عاصمہ جہانگیر اور معزیز سینیٹرز کی سو فیصد درست تھیں اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وفاقی حکمران اپنے مفاد کی خاطر گلگت بلتستان کوایک چراگاہ کے طورپر استعمال کرتے ہیں۔کبھی اسے پاکستان کا حصہ قراردیا جاتا ہے تو کبھی متنازعہ خطہ۔ کبھی مسئلہ کشمیر کا حصہ سمجھا جاتا ہے تو کبھی آزاد ریاست کی تاریخ دہرائی جاتی ہے۔

المیہ دیکھیں !گلگت بلتستان تین عظیم پہاڑی سلسلوں کا سنگم ہے یادنیا کی دوسری بلندترین چوٹی کے ٹوبلتستان میں واقع ہے تو پاکستان کا حصہ ۔نانگا پربت،رکاپوشی،شندور،دیوسائی،فیری میڈوز،مشہ برم،گشہ برم،سیاچن کی وجہ سے ہم پاکستانی،حسن سدپارہ،نذیرصابر،اشرف آمان،ثمینہ بیگ،مرزہ علی،حوالدارلالک جان شہید(نشان حیدر) وغیرہ کی بات جب آتی ہے توفخر پاکستان کہلاتے ہیں،مگر جب آئینی تشخص کی وضاحت اور سی پیک میں شراکت داری کی بات ہو تو یہ خطہ متنازعہ کیوں؟

چلو مان لیا کہ آئینی تشخص کا معاملہ مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے تو اقتصادی راہداری میں خطے کو برابر کا حصہ دینے میں کونسی رکاوٹیں حائل ہیں؟حالانکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری پر اصل حق تو گلگت بلتستان والوں کاہونا چاہیے،کیونکہ پاکستان اور چین کو آپس میں ملانے کا واحد زریعہ شاہراہ قراقرم اسی خطے سے ہی گزرجاتی ہے۔ دونوں ممالک اگر ایک دوسرے کے دیرینہ ہمسائے بھی کہلاتے ہیں تو وہ گلگت بلتستان ہی کی بدولت ہے۔جی بی کے علاوہ کونسی ایسی جگہ ہے جہاں سے پاکستان اور چین کے مابین زمینی روابط قائم کئے جاسکتے ہیں؟ افسوس اس بات پر ہورہا ہے کہ گلگت بلتستان کی اس قدر تاریخی وجغرافیائی اہمیت کے باوجودخطے کو اقتصادی راہداری کے تحت دونوں ممالک کے مابین دستخط ہونے والے منصوبوں سے محروم رکھا گیا ہے۔جس کا تذکرہ پہلے بھی کیا جاچکا ہے کہ دونوں ممالک کے مختلف اداروں کے سربراہان کے مابین گزشتہ برس چھیالیس ارب ڈالر کے جن منصوبوں پر دستخط ہوئے، ان میں گلگت بلتستان کے لئے کوئی منصوبہ شامل نہیں۔

اس حوالے سے سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے اقتصادی راہداری کے سربراہ سینیٹر مشاہدحسین سید کا بیان گلگت بلتستان کے باسیوں کو اصل حقائق سے اگاہ کرنے کے لئے کافی ہے۔باوجوداس کے اگرکوئی اس خوش فہمی میں ہے کہ سی پیک کے زریعے گلگت بلتستان میں دودھ کی نہریں بہائی جائیں گی تو وہ برائے مہربانی اس لنک www.pc.gov.pkپروزٹ کرکے اقتصادی راہداری منصوبوں سے متعلق مکمل معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔

سی پیک کے حوالے سے گلگت بلتستان کے عوامی رائے کا جائزہ لینے کے سلسلے میں آئے ہوئے سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے ارکان کے بھی کلوزنگ ریمارکس یہی تھے کہ اقتصادی راہداری میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی طرح گلگت بلتستان کو بھی یکسرنظراندازکیا گیا ہے،جس باعث یہاں کے عوام میں مایوسی پائی جاتی ہے۔

بات ان کی بھی ٹھیک ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام وفاقی سطح کے فورمزکے فیصلوں پر سوائے مایوسی کا اظہارکرنے کے اور کیا کرسکتے ہیں؟ نہ یہاں سے قومی اسمبلی میں کوئی نمائندگی ہے،نہ سینیٹ میں،نہ ہی دیگر اعلیٰ فورمز میں،نہ یہاں کے حکمرانوں میں وہ جرات ہے کہ ذاتی مفادات اور نمائشی عہدے اجتماعی مسائل پر قربان کرتے ہوئے اپنے حق کے لئے وفاقی حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔نہ اب گلگت بلتستان کے عوام میں وہ اتحاد رہا،جس کے تحت انہوں نے اٹھائیس ہزارمربع میل پر محیط علاقے کو1947میں ڈنڈوں اورپتھروں کے زریعے ڈوگرہ راج سے آزاد کروایا تھا۔

اب یہاں کے عوام کے پاس صرف اور صرف مایوسی اور وفاق کی طرف سے آئے ہوئے حکمرانوں کے دوروں سے وابستہ امیدیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔کیونکہ عوام اب حاکم وقت کے فیصلوں کے ہاتھوں یوں مجبورہیں جیسا کہ کنوئیں کا مینڈک ۔ ان میں سے کوئی اگرعلاقے کی آئینی حیثیت کا تعین ،بنیادی حقوق کی فراہمی اور سی پیک میں برابرکا حصہ مانگنے اٹھ کھڑاہوتا بھی ہے تووہ پاکستان کا غدار اور’’را‘‘ کا ایجنٹ کہلاتا ہے ،جس سے اس کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگرگلگت بلتستان کے عوامی حقوق اور محرومیوں کے ازالے کی بات کرنے والے’’را‘‘ کے ایجنٹ ہیں تو کیا عاصمہ جہانگیربھی آخر’’را‘‘ کی ایجنٹ ہے؟

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button