گلگت بلتستان

نامعلوم شرپسندوں نے رات کی تاریکی میں ضلع دیامر کے علاقے تھور میں دو درجن سے زائد مکانوں کو آگ لگا دی، مکینوں کو علاقہ خالی کرنے کی دھکمیاں

چلاس(بیوروچیف)تھور ہربن حدود تنازعہ ایک بار پھر کشیدگی کی جانب بڑھ گیا۔نامعلوم مسلح افراد نے شاہراہ قراقرم سے ملحقہ تھور کی قدیمی آبادی منیار پر رات کے دو بجے اچانک دھاوا بول دیا۔دو درجن سے زائد مکانوں کو آگ لگا دیا رہائشی مکانات قیمتی سامان سمیت جل کر راکھ رہائشی افراد نے بھاگ کر جانیں بچائیں۔مکینوں کو علاقہ خالی کرنے کی سنگین دھمکیاں دیتے ہوئے نامعلوم افراد فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوگئے ۔علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ذرائع کے مطابق رات دو بجے کے قریب اچانک نامعلوم مسلح افراد شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف پر پھیلی قدیمی تھور کی ملکیتی آبادی منیار میں داخل ہوئے۔اور مکانات کو آگ لگا دی۔جس پر رہائشی مکینوں نے بھاگ کر جانیں بچائیں۔مگر تمام مکانات سامان سمیت جل کر راکھ ہوگئے۔دیامر پولیس کو اطلاع ملتے ہی ایس ایچ او تھانہ تھور فقیر محمد عملے سمیت جائے وقوعہ پہنچ گئے۔اسی اثناء میں ڈی ایس پی عبدالصمد ،ڈی ایس پی لیگل آفتاب عالم بھی پولیس نفری اور فائر بریگیڈکے ساتھ جائے وقوعہ پہنچ گئے۔نامعلوم افراد نے پولیس پارٹی پر بھی فائر کھول دی۔مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔پولیس نے فوری طور پر آگ پر قابو پانے کے لئے اقدامات کئے۔اور لوگوں کو محٖفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔پولیس نے واقعے کے خلاف قانونی کاروائی کا آغاز کر دیا ہے۔بعد ازاں ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر امیراللہ بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئے ہیں۔اور ملزمان کے خلاف کاروائی تیز کرنے اور مقامی آبادی کو تحفظ دینے میں مصروف ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق ملزمان ہربن کے لگتے ہیں۔تاہم ملزمان اپنے آپ کو ہربن کابھی بتا رہے تھے۔اور کہہ رہے تھے کہ یہ علاقہ ہمارا ہے آپ لوگ ہمارے علاقے کو خالی کر دیں یا خوفناک انجام کے لئے تیار رہیں۔پولیس سارے شواہد اور عینی شاہدین سے ملزمان کا تعین کرنے کی بھر پور کوششیں کر رہی ہے۔واقعے کی اطلاع ملتے ہی تھور کے ہزاروں افراد سراپا احتجاج ہوئے۔اور عمائدین کا پچاس رکنی وفد چلاس ریسٹ ہاؤس میں ضلعی انتظامیہ کے پاس پہنچا اور اپنے اوپر ہونیوالے ظلم کی شکایت کی۔جس پر انتظامیہ نے انہیں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کرنے کی ہدایت کی۔اور قانونی چارہ جوئی کرنے کی یقین دہانی کروائی۔جس پر عمائدین کا وفد دوبارہ تھور روانہ ہو گیا ہے۔

خیال رہے کہ ماضی میں بھی دونوں قبائل کے مابین حدود کے تصفیے کے لئے مسلح تصادم ہوا تھا۔بعد ازاں جرگے نے دونوں قبائل کے مابین صلح صفائی کی کوشش کی ۔دونوں فریقین نے ایک دوسروں کو خون معاف کر دیا تھا مگر متعدد بار دونوں قبائل میں حدود کے تعین کے لئے مذاکرات ہوئے مگر کوئی حتمی نتیجے پر متفق نہ ہو سکے۔ پولیس تحقیقات کے بعد واقعے کے اصل محرکات سامنے لانے کے لئے پُر عزم ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button