عید الفطر(عید رمضان):ویسے تو یہ عید تمام مسلمان مناتے ہیں لیکن یاسین میں اس کا بھی ایک خاص اہتمام ہے اس عید پربہت سا چلپاک(پراٹھے) پکائے جاتے ہیں اور کوئی ایک،شخص قرآن کا آیات پڑھتا ہے اور مر حومین کی روحوں کی بخشش کیلئے دعا مانگی جاتی ہے اور جدھر جدھر بچیاں بیاہی گئیں ہیں ان کے گھروں کو چلپاک کا ایک بنڈل اور گاوں کے چچا وں کے گھر وں سے بیجے ہوے چلپاک بھی بھیجے جاتے ہیں اور عید کے روز انڈوں کو مختلف رنگ دے کر پکایا جاتاہے اور نماز عید کے بعد جوان اور بوڑھے سب ملکر ان انڈوں کو توڑنے کا ایک مقابلہ منعقد کیا جاتاہے ایک آدمی اپنے انڈے کا باریک حصہ اوپر کرکے پکڑتا ہے اور دوسرا شخص اپنے ہاتھ والے انڈے کا باریک حصہ سے نیچے والے انڈے کو توڑنے کی کوشش کرتاہے اور اس طرح جس کا انڈا ٹوٹتا ہے اس انڈے کو دوسرا شخص اٹھا تا ہے اور بعض لوگ توکئی کئی انڈے توڑ کر حاصل کر تے ہیں یہاں تک کہ سب کے انڈے ختم ہو جاتے ہیں اور پھر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور شام کو سلغوم (ڈوڈو) بنا کر ایک دوسرے کو بلا کرایک آدمی قرآن پاک کا ایک آیات پڑھ کر روحو ں کی بخشش کئلیے دعا مانگتے ہین اور ڈوڈو کھاتے ہیں اور گھر میں تمام کے لئے ایک ایک چپاتی (چپٹی) بنا کر رکھا جاتاہے اورکئی کئی دن تک کھایا جاتاہے۔اور ان چپاتیوں کو پوندو ٹیکی کہتے ہیں اور شاید یہ چترالی کا لفظ ہے جس کا مطلب راستے کیلئے روٹی کا ہے ۔
عیدالاضحی(قربان عید):یہ بھی اسلامی تہوار ہے لیکن یاسین میں اس کا بھی اپنا ایک شان ہے نماز عید کے بعد جس گھر میں قربانی کابکرا یا بھیڑو ہو تو گاوں کے سب لوگ اور خلیفہ اس گھر میں جمع ہوتے ہیں اور قربانی کے جانور کو دلہا کی طرح سجایا جاتاہے جس طرح ابراھیم علیہ سلام نے اسماعیل علیہ سلام کو سجا کر قربانی کیلئے لے گیا تھا یعنی قربانی کے جانور کو باقائدہ وضو کرایا جاتاہے پھر صاف ستھرا کوئی کپڑا بچھا کر اس پر کھڑا کیا جاتا ہے اور اس کے سر پر پگڑی باندھا جاتاہے پھر موتیوں اور طرح طرح کی زیوروں سے سجا کر اشپری یعنی دیسی گھی روٹی پر ر کھ کر پیش کیا جاتا ہے اور قربانی کے جانور کو بھی اشپری کراکراور خلیفہ کی قیادت میں دعا مانگی جاتی ہے اور شرف قبولیت کی دعا کے بعد ذبح کیا جا تاہے اور پکا کر گوشت علیحدہ رکھ کر شوربے میں گندم ڈال کر چھن یا لجک تیار کیا جاتا ہے اور تیار ہونے پر تمام گاوں یا برادری والے اکھٹے ہو کر کھاتے ہیں اور اگر ایک گاوں میں بہت زیادہ قربانی کے جانور ہوں تو تین دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہتاہے اور ایک ایک روز کئی کئی جانورذبح کر کے پکا کر کھائے جاتے ہیں جو کہ ایک منفرد طریقہ ہے ۔قربانی کا کھانا پورا گرم کے لوگ مل کر کھاتے ہیں،
نوروز: نوروز کے بارے میں پوری دنیا جانتی ہے کہ مارچ کی ۲۱ تاریخ کودنیا کے اکثر ممالک میں اس دن کو ایک مذہبی تہوار خاص کر شیعہ اسلام میں جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتاہے اور یاسین میں بھی اس ولولے کے ساتھ ۲۱ مارچ کو نوروز منایا جاتا ہے۔ اور عام طور پراس روز روم تخم ریزی بھی ادا کیا جاتاہے۔
ہز ہائنس پرنس کریم آغاخان کی سالگرہ اور یوم امامت:
دنیا بھر کے اسماعیلی آغاخان صاحب کا یوم ولادت با سعادت ۱۳ دسمبر کو سالانہ مذہبی عقیدت وا حترام کے ساتھ مناتے ہیں۔ یا سین میں بھی سالگرہ کی تقریب اسی جوش و خروش کے ساتھ منائی جاتی ہے جبکہ۱۱ جولائی کو یوم امامت کے طور پر نہایت سادگی کے ساتھ ، لیکن انتہائی خاموشی سے سب کچھ منایا جاتا ہے
عید میلادالنبیﷺ:۱۲ ربیع ا ول کو عید میلادالنبی ﷺ بڑے جذبے اور مذہبی عقیدت کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ یاسین کے سارے تہوار نہایت ساد گی اور پر امن طریقے سے منائے جاتے ہیں
منگنی اور شادی بیاہ سے متعلق چند رسومات :
شادی : شادی کو بروشاسکی میں گھر یا گر اور کھوار میں جیری کہا جاتاہے شادی ( گر یا جیری) جو کہ مختلف خوشیوں کے مو قعوں پر مقامی دستور کے مطابق کھانہ پکا کر عزیز و اقارب ، ہمسایوں اور تمام رشتہ داروں کو مدعو کیا جانے کو گھر (گر) یا جیری یعنی شادی کہتے ہیں ۔ مثلاً کسی گھر میں پہلا لڑکا پیداہو ، یا کسی بچی یا بچے کی شادی ہو یا کوئی شخص نیا مکان بنائے اور بعض اوقات کسی شخص کی نوکری یا ملازمت لگنے پر بھی یا عہدے میں ترقی ملنے پر بھی بہت سے لوگ گر یا جیری یعنی مخصوص کھانا پکا کر دعوت دیتے ہیں تو ان تمام موا قعو ں پر دی جانے والی دعوت کو شادی یعنی گر کہا جاتاہے۔لیکن میں یہاں پر جس شادی کا ذکر کر نے جا رہا ہوں وہ ہے شادی بیاہ یعنی بہو لانے ( ایک مرد اور عورت ) کی ازدواجی رشتے میں منسلک ہو نے سے مطلق رسومات ۔
بہو تلاش کر نا : یہ پورے پاکستان بلکہ پورے ایشیاء کا رسم یا دستور رہا ہے کہ پہلے بہو تلاش کیا جاتاہے جب بچے جوان ہوتے ہیں تو گلگت بلتستان میں ابھی تک صرف بیٹے کا رشتہ تلاش کیا جاتاہے جبکہ پاکستان میں تو لڑکی والے لڑکا تلاش کر تے ہیں جب کسی لڑکی کو کوئی والدہ یا والد اپنے بیٹے کیلئے مناسب سمجھتے ہیں تو پھر آپس میں صلاح مشورہ کے بعد اس لڑکی کے والدین تک رشتے کا پیغام پہنچانے کیلئے کوئی مناسب ذریع ڈونڈھا جاتاہے تاکہ اس شخص کے ذریعے جو رشتے کا پیغام جائے مثبت جو اب آجائے اور جب لڑکی کے والدین کی جانب سے ہاں کا جواب آجاتاہے تو اس کے بعد مندر جہ ذیل رسومات ادا کی جاتی ہیں۔
(۱) مناداری:جب کسی لڑکے کیلئے کسی لڑکی کا رشتہ طے ہو جاتا ہے تو اس رشتے کے طے ہو تے ہی لڑکے والے لڑکی والوں کے گھر جاتے ہیں اور ان کا شکریہ ادا کر تے ہیں اور حسب توفیق چھوٹا سا تحفہ بھی لے جاتے ہیں اور پھر منگنی کے اگلے مر حلے کیلئے تاریخ بھی طے کر کے آتے ہیں۔
(۲) موسلگیم(اللہ اکبر): یہ مرحلہ رسم منگنی کا ہو تا ہے اور یہ بھی نہایت سادہ طریقے سے فریقین کی رضا مندی سے طے ہو تا ہے بعض لوگ لڑکی والوں کے تمام گھر والوں اور سگے چچے اور ان کے گھر والوں کیلئے کپڑے بھی لاتے ہیں اور بعض دفعہ کچھ نقدی بھی لے جایا جاتا ہے اور صمدی والوں کے ہاں رات گذارتے ہیں اور پھر لڑکی والے بھی ان کو کوئی بسترہ وغیرہ اور کچھ برتن وغیرہ کا تحفہ ا ور کچھ نہ کچھ اچھا کھانے کی چیز مثلاً دیسی گھی کا شربت یعنی نمکین حلوہ یا آج کل حلوہ وغیر ہ بھی پکا کر کسی برتن میں ڈا لکر لڑکے والوں کو رخصت کیا جاتا ہے تب پھر تیسرے مرحلے کا وقت آتا ہے۔
(۳) دو مہ کی:: یہ بھی منگنی کا ایک اور رسم ہے جو کہ شادی سے پہلے ادا کیجاتی تھی اب کم ہی دیکھنے میں آتا ہے اس میں پہلے زمانے میں اچھاقسم کا کوئی بیل ، گھوڑا، بندوق اور بعض اوقات نقد رقم بھی ایک خاص مقدار میں جس کا اگر لڑکی والے تقاضہ کر یں تو لے جایا جاتا تھا مگر اب کم ہے
(۴) مویانُم اور حس میلی یااوس میلی:: یہ رسم منگنی کا تقریباََ آخری مرحلہ ہو تاہے یا تھا اس میں لڑکی کیلئے ایک جوڑہ سفید جوڑہ اور ایک موتیوں کا ہار اور کم از کم ایک سو نے کا زیور (فٹی) اور اس قسم کی کوئی چیز لے کر جاتے اور موتیوں کا ہار لڑکی کو پہنایا جاتا اور پھر شادی کی تاریخ طے کر دیا جاتا ہے
(۵) شبوک بانو(تھشالال اوچُم): اب مر حلہ آ گیا لڑکے اور لڑکی کو دلہا اور دلہن بنانے کا ۔ اس سے قبل تمام رشہ داروں کو
شادی کیلئے داعوت دیا جاتا ہے اور پھر دلہا کے گھر میں دلہا کا اور لڑکی کے گھر میں دلہن کا شبوک بانو یا رسم دلہا یا دلہن بنانے کا ادا کیا جاتاہے اورایک ہلکا سا کھانا پکا کر اپنے اڑوس پڑوس کو بھی بلا کر کھایا جاتا ہے اور پھر دلہا یا دلہن کو شادی کا جوڑہ پہنا کر بمبارک سلامت ہر طرف سے گونجتا ہے اور دلہا والے برات کیلئے آدمی مقرر کر تے ہیں جو پانچ افراد پر مشتمل ہوتا ہے جن میں ایک سربراہ ،دوسر ا دلہا کا ماموں، تیسرا دودھ باپ اگر مقرر کیا گیا ہے تو ورنہ تین بندے نزدیکی چچا وغیرہ
(۶) خرچیکی:: شادی کے دن سے ایک دن قبل والی دن کوخر چیکی کہا جاتا ہے یعنی شادی کے اخراجات کو پکانہ شروع کیا جاتا ہے اس لیئے اس دن کو خرچیکی کہا جاتاہے اس رات کو گو شت اور روٹیا ں پکا کر تیار کی جاتی ہیں تاکہ برات کے آنے سے پہلے سب کچھ تیار ہو ۔
(۷) نکاح: لفظ نکاح شاید عربی کا لفظ ہے جو کہ اسلامی اصطلاح میں ایک مرد اورایک عورت کے درمیا ن ازدواجی رشتے میں منسلک ہو نے کیلئے اسلامی روح کے مطابق ایک معاہدہ ہے ۔ لیکن نکاح کسی نہ کسی صورت میں مذاہب عالم میں پایا جاتاہے جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ دو بندوں کے درمیان رشتہ ازدواج کا ایک معاہدہ ہے اس لیے پورے مذاہب عالم میں ادا کیا جانے والا شادی کے اس رسم کو ہم نکاح ہی کہیں گے چاہے یہ عیسایؤں کا رسم نکاح ہو جو کہ گر جا گھر یا چرچ میں ادا کیا جاتاہے یا ہندوں کا اپنے مذہبی رہنما کے سامنے ایک دوسرے کے کپڑے پکڑکر الاؤ کے ارد گرد کچھ نہ کچھ پڑھتے ہوے گھومنا ہو یا کسی اور مذہب کے رسم کے مطابق رسم، سب کے سب نکاح ہی ہے ۔ لیکن مسلمانوں میں اسلامی روح کے مطابق قرآنی آیات اور کلمہ شہادت کی مدد سے اسلامی طریقے سے گواہوں اور وکیلوں اور دلہا اور دلہن کی رشتہ داروں کی موجودگی میں رشتہ ازدواجی میں منسلک ہو نے کا اقرار لیا جات ہے ۔نکاح جیسا کہ پورے عالم اسلام کا ایک اسلامی اور سب سے لازمی جز ہے مختلف طریقہ سے ادا کیا جاتاہے لیکن یاسین میں اکثریت اسماعیلی مسلمانوں کی ہے تو یہ لوگ جماعت خانے میں نکاہ کی رسم ادا کرتے ہیں اور مہر کی رقم سب سے کم رکھا جاتا ہے اور دوسرے بر ادری کے لوگ اپنے انداز میں نکاح پڑھا تے ہیں ۔
گر( شادی): اگر شادی لڑکے کی ہے تو برات کی روانگی کا وقت مقررہ پر اہتمام کیا جاتا ہے اور برات لڑکی کے گھر جانے سے پہلے سیدھا لڑکی کے گھر کے نزدیکی جماعت خانے جاتے ہیں اور لڑکی والے بھی لڑ کی کو لے کر جماعت خانہ جاکر نکاح پڑھاکر دلہن والوں کے گھر جا تے ہیں جہاں کھانہ ہو تا ہے اگر رات گذارنا ہے تو ٹھیک ورنہ اسی روز ہی رخصتی ہوتی ہے اور دلہا کے گھر میں برات کے واپس آ نے پر نہایت دھوم دھام سے اور اکثر اوقات ہوا ئی فائرنگ اور پٹاخوں کی دھماکوں اور موسیقاروں کی موسیقی سے اور ناچ رقص وغیرہ سے خو شیاں مناکر اسقبال کیا جاتاہے پھر حسب دستور اوسکیلچے دیچُم اور فتک کے ذریعے گھر میں داخل کیا جاتاہے پھر اشپیری یعنی مکھن اور گندم کی روٹی سے تواضع کیا جاتا ہے اور پھر کھانہ ہوتا ہے تماشہ کا انتظام ہے تو (بُجائے) جو کہ یاسین کے موسیقار ہیں کو بلا کر تما شہ ہوتا ہے یا دف بجا کر تماشہ ہوتاہے بصورت دیگر شادی اختتام پزیری کی طرف بڑھتا ہے۔ (اس ڈش کو مقامی زبان میں شربت کہا جاتا ہے دیسی گھی اور پانی میں مکئی یا گندم کا آٹا ڈال کر نمک ملا کر پکایا جاتاہے جس طرح حلوہ پکایا جاتا ہے صرف فرق نمک اور چینی کا ہے بہت مزیدار ہو تا ہے شادی بیاہ کے کھانوں کا ایک سوغات ہے آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے جدید لوگ ہضم نہیں کر سکتے )
مندرجہ بالا تما م قدیم گانے اور ساز ہیں جو شادی بیاہ کے موقوں پر گائے جاتے تھے اور بورو دیچم خر چیکی کے روز گایاجاتاتھا اور مخصوص لوگ گاتے تھے یہ دف بجا کر دیسی قسم کے تماشے کے موقعے پر آنگن یعنی ہے قئی میں کھڑے ہو کر دف بجاتے ہوئے پاؤں کو زور سے فر ش پر مارتے ہوے آگے پیچھے جمپ کر تے ہو ے ایک دوسرے کو للکارتے ہو ے گایاجاتاتھا۔ جرولنگ جو کہ بوجائے (استادیشو) بجاتے ہیں جو ایک خاص قسم کا ساز ہو تاہے صبح سویرے یہ ساز بجا کر ناچتے ہوے گھر سے نکل کر باہر کھیت یا کھلیان تک جاتے ہیں اور ہاتھ میں مختلف قسم کے خشک میوہ تھالیوں میں ڈالکر تھاما جاتاہے اورکھلیان میں ناچ کے آخری حصے میں ان کو ہوا میں اچھالا جاتاہے اور بچے ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور سمیٹنے کی کوشش میں دھینگا مشتی کرتے ہیں اور بوربور بھی ایک مخصوص گانا ہے جو بعض گویئے گا سکتے تھے یہ دلہن کی رخصتی کے موقعے پر گایا جاتا ہے۔
حق مہر : یہ ایک اسلامی سنت یا رسم ہے جو نکاح کے وقت ایک مخصوص رقم جو کہ سکہ رائج الوقت کے مطابق مقرر کیا جاتاہے جس کی کوئی خاص حد مقرر نہیں مختلف رقم مقرر کیا جاتاہے آج کل دنیاوی چیزیں بھی بہت سے مذہبی رسومات میں بھی شامل ہو چکی ہیں اس لئے بچوں کی ذہنی ، تعلیمی ، معاشی اور معاشرتی حثیت کو مد نظر رکھتے ہو ے یہ رقم مقرر کیا جاتاہے۔ جو کہ شوہر پر لازم ہے کہ اپنے بیوی کو ادا کرے یا بیوی اپنے شوہر کو بخش دے تو اس کی مرضی ہے۔ اسماعیلیوں میں اس کی کم سے کم حد ۲۵۰روپے مقرر ہے لیکن آج کل بچو ں کی قابلیت کو بھی مد نظر رکھا جاتاہے اور استطاعت کو بھی سامنے رکھ کر یہ رقم طے کیا جاتا ہے۔
طلاق: یہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ حلال چیزوں میں سب سے نا پسندیدہ چیز ہے ۔ خدا نہ کرے کہ اگر میاں بیوی کے تعلقات انتہائی مخدوش ہو جائیں اور ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گذار نا ناممکن ہو یا کوئی اور مجبوری ہو یعنی انتہائی مجبوری کی صورت میں یہ فعل عمل میں لایا جاتاہے اور پھر میاں بیوی میں ہمیشہ کیلئے علحیدگی ہو جاتی ہے۔اور حق مہر کی رقم اگر ادا نہ ہوا ھو تو ادا کی جاتی ہے اور اس سے قبل رقم کی بجائے گھوڑا ، بیل یا کسی بندوق کی صورت میں ادا کیا جاتاتھا۔
موخ پغا لی( اہو لی کیم) اگر کسی عورت کی مو جودگی میں ان کے والدین کی اجاذت کے بغیر دوسری شادی کیا گیا ہو تو پھر کوئی گھوڑا ، بیل ، بندوق وغیرہ دے کر اور علاقے کے اچھے اچھے معتبر لوگوں کو ساتھ لے کر پہلی بیوی کے والدین سے معافی طلب کر کے ان کی عزت افضائی کی جاتی ہے اس مو قع پر دی جانے والی مال یا رقم کو مو خ پغالی کہتے ہیں۔
بور بور (بیٹی کی شادی کا ایک رخصتی گیت)
ہو تھو شالال آیو، ہو صا حاتے تھو شالال ، ہو تھو شالال آیو ، ہو شیرینے تھو شالال ، ہو تھو شالال آیو ، ہو ماینونے تھوشالال، ہو تھو شالال آیو ، ہو بے رومیس آیو، ہو ہیلس کو ب رومیس،ہو بے رومیس آیو، ہو گمبوری بولک یا نیس، ہو بے رو میس آیو ، ہو داسن کو بے رومیس ، ہو بے رو میس آیو، ہو غیسئے تھاغ یانیس،
ہو ہیرے بے آیو، گو سچے چی دوری چام ، ہو ہیرے بے آیو ، گویا تاتی دولت نیا نے، ہو ہیرے بے آیو ، ہو گووئے نی یاروم، ہو ہیرے بے آیو، گو می مو مو پھینس یاروم
ہو ماژے ماژے آیو ، ہو شلے ماول ماژے ،ہو ماژے ماژے آیو، داو کا چیدین ما ژے، ہو ماژے ماژے آیو، بے پا کا ایس ماژے، ہو ماژے ماژے آیو، چی گیر کا دُو ماژے
ہو ماژے ماژے آیو، بے لیس کا یو ٹیس ماژے،ہو ماژے ماژے آیو، ہو ہیرے بے آیو، تا تی دولت نیا نے
شری ٹکی مو: یہ مشٹکی کا ایک قسم ہے جو کہ شینا اور ہنزہ کی بروشسکی میں فٹی کہا جاتاہے یعنی کیک کی طرح موٹا روٹی پکا کر اس کے اوپر دیسی گھی کی ایک بڑی مقدار لگا دیا جاتاہے اور یہ تعداد میں دو ہوتے ہیں جو کہ لڑکی والوں کی طرف سے رخصتی کے وقت ان کے سامان میں رکھ کر لڑکے کے گھر بیجھا جاتاہے۔
ژً الی : اگر مقررہ وقت تک براتی یعنی لڑکے والے نہ پہنچ سکے تو دلہن والوں کی جانب سے ایک لڑکا اس راستے پر روانہ کیا جاتا ہے جدھر سے دلہا والوں نے آنا ہو تاہے اور اراستے میں جدھر وہ لوگ ملے ان کو روک کر ان سے کہتا ہے کہ آ پ لوگو ں نے بہت دیر لگا یا ہے اس لئے آپ لوگوں کو لینے کیلئے مجھے بھیجا گیا ہے ۔ اور براتی یا لڑکے والے اس بندے کو بطور بخشش یا انعام کچھ نہ کچھ نقدی یا جنس کی صورت میں دے دیتے ہیں اور یہ ہر حالت میں دینا ہو تا ہے لیکن کوئی حد مقرر نہیں جو بھی براتی دینا چاہیں دے سکتے ہیں ۔
کئی بوٹی : یہ ایک عجیب شغل ہے جب براتی دلہن کے گھر کے نزدیک آتے ہیں تو راستے میں بیس سال سے چھوٹے عمر کے بہت سارے بچے ان کا راستہ روک کر ایک خاص قسم کی بولی پکارتے ہیں مثلاً شیشتو کر م مینو کرم کیؤ کئی بوٹی تو برات والے پہلے زمانے میں ایک عدد درانتی پھینک دیتے تھے یا لکڑی کا کوئی ٹکڑا پھینک دیا جا تاتھا اور لڑکے اس پھینکی ہوئی چیز کو حاصل کر نے کیلئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اور ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کر تے اور اچھا بھلا دھنگا مشتی ہو تا اور جو لڑکا اس چیز کو حاصل کر کے بھا گ نکلتا تو وہ جیت جاتا یعنی اگر درانتی ہے تو درانتی ہی انعام ہوا اور اگر لکڑی کا ٹکڑا ہے تو پھر کچھ نہ کچھ نقد کی صورت میں یا کسی کپڑے کی صورت میں انعام دیا جاتا اور اگر غلطی سے گھو ڑے کو مارنے یا چابک لگا نے والا چابک یا درہ اگر پھنکا گیا تو پھر گھوڑا دیا جاتا اور بعض دفعہ اس بات پر جھگڑا ہو جاتا کہ غلطی سے لڑکے والوں میں سے کسی نے یہ درہ یا چابک پھینکا ہے
براتیوں کی تعداد اور عہدے : ولہا کے ساتھ جانے والے پانج بندوں میں سے ایک سر پنج یا سرنک یعنی باپ کے جگہ عہدہ ہو تا تھا دوسرا لڑکے کا ماموں تیسرا دودھ باپ اگر دودھ باپ نہ ہو تو پھر کوئی نزدیکی چچا یا چچا ذاد اسی طرح ایک اور بھی قریبی رشتہ دار جس کو پور نیک یا سیل مین کہلاتاتھا یہ عمر اور عہدے کے لحا ظ سے سب سے چھوٹا ہو تاہے یہ براتیوں کے ساتھ کوئی بیگ وغیر اگر ہو تو اس کو سنبھالتا ، دلہا کے پکڑی چوغہ اور ٹو پی وغیرہ کو سنبھالتا اور اگر گھوڑوں پر برات آئیں ہیں تو پھر گھوڑوں کی تھوڑی خبر گیری کر تا اور پھر اور کو ئی کام اگر ضرورت پڑے تو کرتا تھا یا کرتا ہے۔
اوصیلی : جب برات کے رخصتی کا وقت آتا ہے تو برات میں شامل لوگوں کو کچھ نہ کچھ تحفہ لڑکی کے والدین کی طرف سے دیا جاتاہے مثلاً لڑکے کے والد یا والد کے جگہ جو بھی آیا ہے اس کو چوغہ یا چو غے کا پٹی یا بندوق یا کوئی بسترہ یا کوئی بھی اچھا تحفہ اسی طرح دوسرے درجے میں مامو اور دودھ باپ کو پھر تیسرے درج میں سل مین کو کوئی تحفہ دیا جا تا یہ کسی بھی صورت میں ہو سکتا تھا مثلاً کوئی برتن بھی ہو سکتا ہے اور کوئی اور چیز بھی اس طرح کوئی چپن بھی ہو سکتا ہے۔
بر کتی کی: جب براتی رخصت ہو کر باہر نکلتے ہیں تو دروازے سے باہر نکل کر دلہا اور اس کا باپ یا سر پنج یا پاب کے جگہ جو شخص آیا ہو تو وہ واپس دلہن کی والدہ سے ملنے کیلئے آتے ہیں چو نکہ دلہن کی ماں مہمانوں کو رخصت کر نے کیلئے گھر سے باہر نہیں نکلتی ہیں اس لیئے اس کا داماد اس کو ملنے کیلئے واپس آتاہے پھر ساس داماد اور اس کے ساتھی کو اشپری یعنی دیسی گھی کے ساتھ روٹی پیش کر تی ہے اور وہ دونوں اس میں سے ایک ایک لقمہ لیتے ہیں اور پھر دلہا کی جانب سے کوئی نہ کوئی تحفہ زیادہ تر کوئی ایک جوڑہ کپڑا پیش کیا جاتا ہے اور ساس بھی کوئی برتن کی صورت میں یا کوئی بھی تحفہ داماد کو دے دیتی ہے اس کو بر کتی کی کہتے ہیں ۔
ہشتکا دویشچم: شادی کے دوسرے یا تیسرے روز یہ رسم ادا کیا جاتاہے اور دلہن روٹی (خستہ) بناتی ہے اور دلہا کوشش کر تاہے کہ بغیر تو ڑ ے اس روٹی کو پکائے برادری والے سارے
ہشتکا دویشچم: شادی کے دوسرے یا تیسرے روز یہ رسم ادا کیا جاتاہے اور دلہن روٹی (خستہ) بناتی ہے اور دلہا کوشش کر تاہے کہ بغیر تو ڑ ے اس روٹی کو پکائے برادری والے سارے جمع ہو تے ہیں اور خوب شورشرابہ ہو تاہے دو روٹیا ں دلہا پکا تا ہے اور پھر بہو اپنی مرضی کی روٹی اپنی قابلیت دکھانے کیلئے مزید ایک دو اچھی قسم کی روٹیا ں پکا تی ہے مقصد بہو کی گھریلو کام کاج اور کھانا اور روٹی وغیرہ پکانے کی سلاحیت کو چک کر ناہے اور اس روز بھی خوب کھانے پکائے جاتے ہیں جس میں تربٹ اور گوشت کے دشز شامل ہو تے ہیں
اویشا چسِرم:: ( سسرال سے ملا قات یا ملنے جا نا) شادی کے چار پانچ دن بعد لڑکااور اسکا دودھ باپ اگر کوئی ہے تو ورنہ کوئی چچا یا چچا ذاد بھائی لڑ کے کے ساتھ اسکے سسرال کے گھر جاتے ہیں اور کچھ تحفہ اور کھانے پینے کی کوئی شے یعنی شربت (دیسی گھی سے بنا ہوا نمکین حلوہ) یا چینی کاحلوہ وغیرہ کوئی چیز ساتھ لے کر جاتے ہیں اور دو یا تین دن لڑکی کے والدین کے ساتھ رہ کر واپس آتے ہیں اور پھر لڑ کی کے والدین بھی کوئی اچھی قسم کا چیز پکا کر اور کچھ نہ کچھ تحفہ دے کے رخصت کرتے ہیں ۔
بلدہ ایچُم:: شادی کے کچھ عرصہ بعد میں لڑکی کے والدین کی طرف سے دیسی شربت( نمکین حلوہ جو دیسی گھی کا ہو) کا ایک دیگھ پکا کر اور ایک عدد گائے اگر میسر ہے تو ورنہ کوئی اچھا قسم کا بسترہ اور کوئی گھریلو استعمال کی چیز وں کے ساتھ لڑکے کے گھر بیجتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکی کو واپس اپنے والدین کے گھر اولین فرصت میں لایا جائے ۔
سوگرکی:: جب لڑکی کے والدین بلدہ بیجتے ہیں تو پھر اب لڑکے والوں کا کا م ہے کہ وہ اپنے فرصت کے مطابق جتنا ہوسکے جلدی لڑکی کو اسکے والدین کے گھر لے جائیں اور وہ بھی ایک دیگھ دیسی گھی کا شربت بنا کر او ر لڑکی کو پھر دلہن کی طرح سجا کر اسکے والدین کے گھر چھوڑ آ ئیں اور وہ کچھ عرصہ اپنے والدین کے گھر رہ سکتی ہے جو کہ شادی کے بعد اپنے والدین کے گھر رہنے کا سب سے لمبا عرصہ تصور کیا جاتا ہے اس کے بعد بہت کم عرصہ رہنے کا مو قع ملتاہے۔
پوچھالی چھرم: : پہلی مرتبہ اگر بچی کے ہاں بچی یا بچہ پیدا ہو تو لڑکی کے والدین اپنے بیٹی کیلئے اور نومولود بچے کیلئے کپڑے اور پھر سے دیسی گھی کا شربت (حلوہ نمکین)بناکر بسترہ اور ایک عدد گائے اور اگر گائے نہیں دے سکتے تو کم از کم ایک عدد بکری بھی لے کر اپنے بیٹی کو بمبارک کیلئے (مبارک) دینے کیلئے جاتے ہیں اسے پوچھانی کہتے ہیں۔
مونگی کی:: یہ بھی ایک غیر لازمی رواج تھا اگر لڑکی کا کوئی ماموں لڑکی کے گھر جائے تو اسے ایک اچھا ساگھوڑا پیش کیا جاتا تھا اور وہ ماموں پھر بھانجی کے گھر والوں کو بسترہ ، برتن اور کوئی گائے کا تحفہ دیتا تھا ۔
ماری :: یہ بھی کبھی کبھی پیش آتاتھا یعنی اگر ایک گاوں کی کوئی بچی کسی دوسرے گاوں میں بیاہی گئی ہو اور اس لڑکی کے باپ کے گاوں سے اگر کچھ لوگ کسی عوامی کام کیلئے اس گاوں میں جاتے تو پھر اس لڑکی کے سسرال والوں کو یہ اطلاع دیتے کہ ہم لوگ (سسرال) والے کسی کام سے تمھارے گاوں آے ہیں لہٰذا ہمیں ماری دیدیا جائے تو داماد کے گھر سے کوئی بکری یا بکرا ذبح کر کے پکا کر کھانہ تیار کر کے پیش کیا جاتا اور اسے کھا کردعائے خیر دیا جاتا اور اس داماد کی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔
حنیک ایچُم(حصہ بھیجنا) جب بھی کوئی بڑا دن ہو مثا ل کے طور پر سال میں دو عیدوں یعنی عید ا لفطر اور عیدالعضحیٰ کے موقع پر کسی شخص کے جتنی بہنے یا بیٹیاں جو شادی شدہ ہیں ان کے لئے باپ یا بھائی کے گھر سے کچھ نہ کچھ کھانے پینے کی چیز بناکر بھیج دیا جاتاہے مثلاً عیدالفطر کے موقع پر پراٹھے پکاکر یا عیدالعضحٰی کے موقع پر قربانی کا گوشت اگر قربانی نہ ہو تو مشٹکی ( موٹا روٹی یا برٹ) پکا کر بھیجوایا جاتاہے
اسی طرح تخم ریزی (بو یایم ) کے موقع پر مکوتی (درم) بناکر اسی طرح شادی بیاہ اور کسی بھی خوشی کے موقعوں پر کوئی نہ کوئی چیزشادی شدہ سکی بیٹیوں اور بہنوں کے علاوہ چچا ذاد بہنوں اور بیٹیوں اور دودھ بیٹی اور اسی طرح کے اور بھی رشتہ داروں کو حصہ بنا کر بھیجنے کو حنیک کہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ نانکوں کے گھر سے اگر کوئی فرد بیٹی یا بہن کے گھر جائے تو وہ کم از کم ایک عد د مشٹیکی یا فٹی جو کہ موٹی روٹی ہو تی ہے پکا کر ضرور لے جاتا ہے۔