کالمز

تاجکستان روڈ کی تعمیر اور ہمارے حکمران

تحریر :۔دردانہ شیر

ضلع غذر کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں تک سڑک کی تعمیر کے حوالے سے ہردور حکومت میں بلند بانگ دعوے کئے گئے اور این اے پی ڈبلیوڈی کے انجینئر زنے اشکومن کی ویلی قرمبر سے افغانستان کی حدود تک سروے مکمل کر کے رپورٹ اعلی حکام تک پہنچابھی دی مگر عملی طور پر دیکھا جائے تو اب تک اس اہم شاہراہ کی تعمیر کے لئے کوئی پیش رفت نظر نہیں اتی اگر حکومت دیانتداری سے اس اہم شاہراہ کی تعمیرپر توجہ دیتی تو بہت کم لاگت پر یہ شاہراہ تعمیر ہوسکتی تھی وادی قرمبر سے تاجکستان تک صرف 50کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور یہ علاقہ اتنا میدانی ہے کہ ہر موسم میں اس سڑک کو ٹریفک کے لیے موزو قرار دیا گیا ہے اگر یہ سڑک کی تعمیر ہوتی تو گلگت بلتستان میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوتااور یہاں کے عوام کی تقدیر بدل جاتی ایمت سے واخان کی پٹی تک چند کلومیٹر کا فاصلہ ہے گرمیوں کے موسم میں واخان کے لوگ اشیائے خوردنی کے لیے گاہکوچ کا رخ کرتے ہیں اور مال مویشی کو گاہکوچ اور گلگت میں فروخت کرکے یہاں سے کپڑے اور چائے لیکر واپس واخان چلے جاتے ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سفرتھکادینے والا نہیں ہے اس اہم شاہراہ کی تعمیرکے لئے این اے پی ڈبلیوڈی نے پی سی ون بنا کر اعلی حکام کے حوالے کردیا ہے اس کے باوجود بھی حکومت اس اہم شاہراہ کی تعمیر میں خاموش ہے اشکومن کا آخری حصہ اور افغانستان کی سرحدی علاقہ واخان کی پٹی آپس میں ملے ہوئے ہیں اور یہ بالکل میدانی علاقہ ہے اور یہ حال تاجکستان والے راستے کا بھی ہے اگر حکوت خلوص دل سے اس روڑ کی تعمیر شروع کردے تو بہت کم لاگت سے یہ سڑک تعمیر ہوسکتی ہے اگر یہ سڑک بن جائے تو پاکستان کا وسطی ایشیائی ریاستوں تاجکستان اور ازبکستان سے رابط کا اہم ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے1979ء میں جب افغانستان میں سیاسی انقلاب آیا تو پامیر اور واخان کے گرغذ،باشندے اپنے بچوں اور مال مویشوں سمیت اس درے سے گزرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئے تھے یہ لوگ زمانہ قدیم سے یہ راستہ استعمال کرتے ہوئے چلے آرہے ہیں گاؤں بورتھ تک جیب روڑ موجود ہے یاد رہے کہ گاؤں بورتھ خورہ بورتھ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ بادشاہ اشکوک جہاں نے اپنے لشکر کے ساتھ اس راستے سے گزرتے ہوئے بورتھ میں چکی کا پتھر نشانی کے طور پر چھوڑا تھا جو اب تک وہاں موجود ہے خورہ بورتھ مقامی زبان میں چکی کے پتھر کو کہا جاتا ہے اگر موجودہ حکومت اس پر خصوصی توجہ دے اور عالمی معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سڑک کی تعمیر کا آغاز کرے تو گلگت بلتستان کے عوام میں خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے اس کے علاوہ وسطی ایشیائی برادر ملکوں کے ساتھ زمینی رابطہ کے علاوہ ملک کو کروڑوں روپے کی آمدنی ہوسکتی ہے اگر یہ سڑک بن گئی تو پاکستان کا وسطی ایشیائی ریاستوں ،تاجکستان،ازبکستان،قزکستان اور روس تک رابطے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے اور حکومت اس سڑک کے ذریعے کروڑوں روپے کی آمدنی حاصل کر سکتی ہے اور ترکمانستان اور دوسرے اسلامی ممالک سے گیس اور بجلی پاکستان پہنچائی جاسکتی ہے اگر موجودہ حکومت اس روڈ پر خصوصی توجہ دے اور عالمی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سڑک کی تعمیر کا آغاز کریں تو پورے ملک میں عموما اور گلگت بلتستان میں خصوصا خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے اخر میں برادرم ایمان شاہ صاحب کا خصوصی شکریہ کہ انھوں نے اپنے کالم میں غذر کے ساتھ موجودہ حکومت کی امتیازی سلوک کے حوالے سے تفصیل سے لکھا ہے چونکہ شہیدوں کی سرزمین کے ساتھ موجودہ حکومت نے جو رویہ رو رکھا ہے اس سے غذر کا ہر شہری واقف ہے اور غذر کے تعمیراتی منصوبوں کے حوالے سے بھی عوام جانتے ہیں کہ غذرمیں تعمیراتی منصوبے التوا کا شکار کیوں ہیں ایسے میں موجودہ حکومت سے کسی بڑے منصوبے کی بات کرنا وقت کے ضائع کے علاوہ کچھ نہیں پھر بھی ریکارڈ میں لانے کے لئے یہ کالم لکھنا ضروری تھا تاکہ اج کے حکمران کل کے سیاسی لوگ یہ نہ کہے کہ انھیں اس اہم منصوبے کی خبر نہ ہوئی ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button