کالمز
حقائق نامہ کے حق میں
تحریر :محمد شہاب الدین ایڈوکیٹ
جب میں گو رنمنٹ پوسٹ گر یجویٹ کالج ایبٹ آباد میں انگریزی ادب کا طا لب علم تھا ۔اس زمانے میں اعجاز رحیم ،فیض احمد فیض ؔ کے کلام کا انگریزی ترجمہ کر رہے تھے۔انکا ایک شعر مجھے بہت پسند آیا تھا
ہم نے جو طرز فغان کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
“شندور کو کش لنگر -حقائق نامہ “پر قلم اٹھاتے وقت میرا خیال نہیں تھا کہ میری حقیر سی کا وش کو اتنی پزیرائی ملے گی۔میں نے شواہد اور ثبو تو ں کی بنیاد پر یہ بات لکھ دی کہ شندور کے حوالے سے تا ریخ کو مسخ کر کے شوشہ اٹھانے والے شر پسند عنا صر ہیں اور دشمن کے ایماء پر یہ کام کر رہے ہیں ۔میں نے پڑوسی ملک کی ایجنسی کا نام لیتے ہو ئے احتیاط کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھا تھا ۔اللہ کا کر نا ایسا ہوا کہ 15اگست کی تقریر میں بھارتی وزیر اعظم نر یندرمودی نے وہی بات دوسرے اسلوب میں کہی ۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں ہمارے خیر خواہ اور ہمدرد مو جود ہیں ۔
گلگت بلتستان کی اسمبلی نے متفقہ قرارداد کے ذریعے نر یندر مودی اور ان کے ہمدرد وں کی مذمت کی ۔20 اگست کو اسکردو میں تقریب سے خطاب کر تے ہو ئے صدر مملکت ممنون حسین نے گلگت بلتستان کے عوام سے اپیل کی کہ وہ دشمن کے ایجنٹوں سے ہو شیار رہیں اور ان کے مذموم عزائم کو نا کام بنا ئیں ۔جو بات میں نے پہا ڑوں کے دامن بیٹھ کر لکھی تھی ۔وہی بات آج سب کی زبان پر ہے “جادو وہ جو سر چڑھ کر بو لے “مجھے خوشی ہو ئی کہ جناب ممتاز حسین گو ہر اور شریف شکیب نے اختلاف کا حق استعمال کیا اور عالمانہ فا ضلانہ رائے دیدی ۔اختلاف رائے جمہوریت کا زیور اور حسن ہے ۔میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ ،ماسٹر شیرعزیز خان ،شاہ خان قریشی ،زلفی ہنر شاہ ،جلال الدین اور سلیم بخاری کی تحریروں کو غور سے پڑھا ۔کو ئی ایسا پہلو نہیں رہا جو تشنہ ہو ۔میں نے بیرسٹر محسن علی خان کے ہمراہ چیف کو رٹ گلگت کی عدالت میں 19دستاویزات کا ریکارڈ پیش کیا تھا ۔ان میں 5دستاویزات کو حقائق نامہ شائع کر نے کے لئے منتخب کیا۔چترال سے لنگر تک محکمہ ڈاک کا ریکارڈ ،شندور ٹاپ پر مہتر چترال کے بنگلے میں پو لٹیکل ایجنٹ گلگت کے لئے ریزرویشن کا ریکارڈ اور 1975 میں لینڈ کمیشن کے گزٹ نو ٹیفیکیشن میں شندور کے دونوں پو لو گراونڈ خیبر پختونخوا کی ملکیت ہو نے کا ریکارڈ ۔مزید بر آں 1914 ء اور 1959ء کے دو مشترک جرگوں کے فیصلوں کا ریکارڈ ۔مجھ سے اختلاف کر نے والے دونوں فاضل لکھا ریوں نے ان دستا ویزات کے جوا ب میں کچھ نہیں لکھا ۔یہاں تک کہ سوقیانہ پن کا مظاہرہ کر کے با زاری زبان استعمال کر نے والوں کو بھی ان دستاویزات کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہو ئی ۔
حقائق نامہ ایک ہزار کی تعداد میں شا ئع ہوا ۔نیوز ایجنسیوں اور کتب فروشوں کے ہاں دستیاب ہے ۔میں کسی بھی فورم پر اس کے ایک ایک لفظ کا دفا ع کر نے کے لئے حا ضر ہوں ۔میرا شریک مصنف ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ بھی یقیناًمیرا ساتھ دیگا ۔لاسپور کے عوام پا کستان کی مٹی کے ذرے ذرے کی حفاظت کے لئے میرا سا تھ دینگے ۔اسلام آباد،راولپنڈی ،شندور اور چترال میں غذر ،یا سین ،اشکومن اور گو پس، پنیال کے چیدہ شخصیات کے ساتھ جو گفتگو ہو ئی ہے ۔اس کے بعد میرا یقین اور بھی پختہ ہو گیا ہے کہ گلگت اور چترال کے عوام مل کر دشمن کے ایجنٹوں کو نا کامی سے دوچار کر ینگے اور اپنے درمیان صدیوں پرانے رشتوں کو کبھی زنگ آلود ہو نے نہیں دینگے ۔بقول حالیؔ
چاہ یوسف سے آرہی ہے پیہم صدا
دست یا ں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
میرا نقطہ نظر وہی ہے جو ایک مفکر چاسر نے کہا یعنی” میں آپ سے اختلاف کرتا ہوں تاہم آپ کو اختلاف کا حق دینے کے لیے اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرونگا”۔ اہل نظر سے یہ بات بھی پوشیدہ نہیں کہ برطانیہ کے مشہو ر مفکر ، مصنف اور وزیر اعظم ونٹسن چرچل اپنے مخالف کو صرف اس لیے جواب نہیں دیتا تھا کہ بازاری زبان استعمال کرتا ہے ۔جب چرچل سے پوچھا گیا کہ تم خاموش کیوں ہو؟ تو چرچل نے کہا، میری تربیت اس کی نسبت بہتر ہوئی ہے۔
ادھر اک حرف کے کشتی ، یہاں لاکھ عذر تھا گفتی
جو کہا تو سن کے اڑا دیا جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا