کالمز

ریاست سے مگر جمشید غداری نہیں کرنی

 آج سارے چراغ گُل کردو
آج اندھیرا بڑا مقدس ہے

پارٹی (کسی بھی) منشور کیا ہوتا ہے؟ میرے خیال میں کسی بے وفا محبوب کا وہ رقعہ جو رجھانے، لبھانے اور پھسانے کیلئے تو آسمان سے تارے توڑ لانے کے سہانے خواب دکھاتا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن جب مطلب نکل جاتا ہے تو ساتھ چھوڑ جاتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ اس ہرجائی میں۔۔۔ بے وفائی۔۔۔ اور کج ادائی کو بھی اپنا ’’جمہوری حق‘‘ قرار دیتا ہے۔۔۔۔

وہ منشور کہاں گیا۔۔۔۔۔ وہ سنہرے سپنے جو8جون سے پہلے عوام کو دکھائے جاتے رہے۔۔۔ سبزباغوں کی بہار ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم سب تھک گئے۔۔۔۔ سبز باغوں کی بہار کدھر ہے؟

منشورلکھتے وقت تو ایسا لگتا ہے کہ ان (سیاستدانوں) کے ہاتھوں میں قلم نہیں، الہ دین کے چراغ ہوتے ہیں، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہیں یاد آجاتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں نہ تو الہ دین کا چراغ ہے اور نہ ہی جادو کی چھڑی۔۔۔۔۔۔۔

اس کا تو سیدھا، سادھا مطلب ہی یہی ہے کہ یہ سب(سیاستدان) جھوٹ لوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

چند درجن خاندانوں کے نرغے میں گھری ہوئی اس جمہوریت کا بھی کوئی جواب نہیں اور اس جمہوریت کو مضبوط بنانے کیلئے ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والے بھی لاجواب ہیں۔۔۔۔

مجھے توڈر ہے کہ ’’کارکردگی‘‘کے حوالے سے پوچھے گئے چبھتے ہوئے سوالات کے جواب میں حکمران یہ بھی ارشاد فرماسکتے ہیں کہ محترم! کارکردگی چھوڑیئے۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھیں کہ ہم نے منشور کتنے زبردست تیار کئے ہیں اور میں ’’زبردست منشور‘‘ کی کاپیاں عوام میں بانٹتے ہوئے کہوں گا کہ ’’5سال تک منشور چاٹتے رہو۔۔۔۔ پیٹ بھر جائے گا۔‘‘

میرے نزدیک حکومتیں تین طرح کی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔

ایک۔۔۔۔۔۔ جس کی دہشت گھربیٹھے محسوس ہو۔

دوسری۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کی برکت گھر بیٹھے محسوس ہو۔

تیسری۔۔۔۔۔۔۔ جس کا کچھ بھی محسوس نہ ہو۔

موجودہ حکومت کو آپ کس کیٹگری میں دیکھ رہے ہیں، اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑ دیتا ہوں، کیوں کہ مجھ سے زیادہ میرے ’’کالم‘‘ پڑھنے والے زیادہ سیانے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

اب ذرا کرنٹ افیئرز پر بات کرتے ہیں۔۔۔۔ مجھے موجودہ حکومت کے اندرونی معاملات کے حوالے سے کچھ زیادہ حوصلہ افزاء خبریں نہیں موصول ہورہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ 19اگست کو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بارے میں ہندوستان کی یوم جمہوریت کے موقع پر خطاب میں دیئے گئے ریمارکس کے ردعمل میں قومی سطح پر احتجاج کا فیصلہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔۔۔۔۔۔۔

صوبائی دارالحکومت میں احتجاجی ریلی کی قیادت سپیکر قانون ساز اسمبلی فدا محمد ناشاد نے کرنی تھی۔۔۔۔۔۔18اگست کو پاکستان مسلم لیگ ن کے ذمہ دارلوگوں نے سپیکر قانون ساز اسمبلی کو وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان (جو ان دنوں سکردو میں تھے) کا پیغام پہنچایا تھا کہ19تاریخ کو قانون ساز اسمبلی کا اجلاس رسمی کارروائی کے بعد ملتوی کرتے ہوئے سپیکر قانون ساز اسمبلی کی قیادت میں ریلی نکالی جائے جبکہ گھڑی باغ میں عوامی اجتماع جس میں نریندر مودی کا پتلا بھی جلایا جائے گا میں شرکت کو یقینی بنایا جائے۔

لیکن ایسا نہیں ہوا، اسمبلی کی کارروائی19اگست کو معمول کے مطابق جاری رہی، کئی مرتبہ سپیکر قانون سازاسمبلی کو اسمبلی کی کارروائی معطل کرکے ریلی کی قیادت کرنے کیلئے یاد دہانی بھی کرائی گئی۔۔۔۔۔۔ اسمبلی کا اجلاس چلتا رہا، وقت مقررہ پر اسمبلی کا اجلاس ختم ہوا تو سپیکر قانون ساز اسمبلی اپنے دفتر میں بیٹھے رہے اس دوران فدا محمد ناشاد سے دوبارہ درخواست کی گئی کہ آپ نے’’مودی مخالف‘‘ ریلی کی قیادت کرنی ہے جس کے لئے انتظامات مکمل ہیں اور آپ کا انتظار کیاجارہا ہے۔۔۔۔ سپیکر ٹس سے مس نہیں ہوئے، اپنے دفتر میں بیٹھے رہے اور مسلم لیگی قائدین کی درخواست اور وزیر اعلیٰ کی ہدایات پر کان بھی نہیں دھرا۔۔۔۔۔

ڈپٹی سپیکر نے ریلی کی قیادت کی۔۔۔۔۔ فدا محمد ناشاد نے نریندر مودی مخالف ریلی میں پارٹی کے صوبائی صدر کی ہدایات کے باؤجود شرکت نہ کرکے ایک تو ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کو ناراض کیا اور دوسری جانب پارٹی قیادت کو پیغا م دیا کہ وہ پارٹی ڈسپلن کو جوتی کی نوک پر بھی نہیں رکھتے۔۔۔۔۔۔

گلگت سکردو روڈ سمیت کئی دیگر معاملات پر فدا محمد ناشاد پارٹی کی صوبائی قیادت سے خوش نہیں ہیں، گلگت بلتستان کے تمام مقامی اخبارات میں پارٹی پالیسی سے ہٹ کران کے بیانات ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائدین جو پارٹی ڈسپلن کے حوالے سے سمجھوتہ نہ کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرتے رہتے تھے کو آج نجانے کیوں سانپ سونکھ گیا ہے؟

19اگست کو نریندر مودی مخالف احتجاج کے دوران گورنر گلگت بلتستان میر غضنفر علی خان عوام میں نظر نہیں آئے، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن بھی کم از کم وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان اور وزیر اعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری کی پیروی کرتے ہوئے عوام کے ساتھ نظر آتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔

ناشاد وزیر اعلیٰ کی بات کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں، وزراء صرف اپنے حلقوں یا ذاتی کاموں کی حد تک محدود ہوکررہ گئے ہیں، چند درجن کارکن تو خوشحال ہوگئے ہیں لیکن ہزاروں کارکن دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، بیوروکریسی بے لگام ہے، کیا یہ وہی حفیظ الرحمن ہے، جس کو ہم آٹھ جون2015ء سے قبل گرجتے، برستے اور کارکنوں کومیرٹ، احتساب، سزاء و جزاء کے نظام رائج کرنے، اقتدار کی بجائے اقدار کی سیاست کرنے کا درس دیتے نظر آتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کا حفیظ الرحمن بدل سا گیا ہے یا حالات بدل گئے ہیں مجھے تو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہی ہے، کیا گلگت بلتستان میں ایک ایسی حکومت قائم ہوچکی ہے جس کا کچھ بھی محسوس نہیں ہورہاہے اور منشور گم ہوچکا ہے۔۔۔۔۔

شیعوں نے اور سنیوں نے اگر یاری نہیں کرنی
میرے آقاء نے دونوں کی طرفداری نہیں کرنی
یہ سچ ہے حکمرانوں کو تُو آئینہ دکھاتا ہے
ریاست سے مگر جمشید غداری نہیں کرنی
مجھے خوابوں میں بھی اقبال یہ تعلیم دیتا ہے
کبھی بھی شاعری اے دوست درباری نہیں کرنی
دکھی شبیر کی قربانیوں کی لاج رکھتے ہو
تو ظالم حاکموں کی نازبرواری نہیں کرنی

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button