کالمز

 گلگت بلتستان روٹ پر چلنے والی پبلک ٹرنسپورٹ کی حالت زار اور حادثات کا تسلسل

رانا فواد

آج بابو سر کے نزدیک گٹی داس کے مقام پر ایک انتہائی افسوسناک حادثہ پیش آیا  جسمیں ایک نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کی مسافر کوچ  پہاڑ سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں 26 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ اسکردو سے راولپنڈی جانے والی تیز رفتار مسافر کوچ بابوسر ٹاپ کے قریب موڑ کاٹتے ہوئے پہاڑ سے ٹکرا گئی۔ حکام اس بات کا تعین کررہے ہیں کہ حادثہ بس میں کسی فنی خرابی کے وجہ سے پیش آیا یا  پھر حادثے کی وجہ  ڈرائیور کی غفلت یا نیند تھی۔

یہ ایک انتہائی افسوسناک اور پریشان کن امر ہے کہ دنیا کی چند خطرناک ترین شاہراہوں میں شامل شاہراہ قراقرم پر چلنے والی بسوں کی حالت زار پر کبھی ہمارے حکام بالا نے توجہ نہیں دی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ٹیڑے راستوں خطرناک ڈھلوانوں اور سڑک کی خراب حالت کے پیش نظر اس روٹ پر ہر لحاظ سےبہترین بسیں اور کوچیز چلائی جاتیں لیکن  حالات اس سے برعکس ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ملک بھر کے بڑے اور منافع بخش روٹس پر چلنے والی بسیں جب پرانی اور کھٹارہ بن جاتی ہیں تو انہیں ان روٹس سے ہٹا کر دیگر کم منافع بخش روٹس پر چلادیا جاتا ہے ۔ اور جب  یہ بسیں ان روٹس پر  بھی چلانے کے قابل نہیں  رہتیں تو ان بسوں کو دنیا بھر کے خطرناک روٹس میں سے ایک شاہراہ قراقرم پر چلانےکے لئے بھجوادیا جاتا ہے۔ اس روٹ پر گللگت بلتستان کے مقامی افراد کے علاوہ بڑی تعداد میں ملکی وغیر ملکی سیاح بھی سفر کرتے ہیں۔لیکن اس روٹ پر چلنے والی بسوں خواہ وہ نجی کمپنیوں کی ہیں یا سرکاری کمپنی کی زیادہ تر بسوں کی حالت کچھ اس طرح سے ہے کہ اگر بسوں کی فٹنس قواعدوضوابط کو سامنے رکھ کر چیک کی جائے تو شائد گلگت بلتستان روٹ پر چلنے والی ایک بس کو بھی فٹس سرٹیفکیٹ جاری نہ ہوسکے۔

 موٹر وہیکل ایکٹ کے تحت ہر  6 ماہ بعد گاڑیوں کی بریکس، سٹیرنگ، ٹائرز، ہیڈ لائیٹس، بیک لائیٹس، مسافروں کیلیے بیٹھنے کے انتظامات اور انجن سمیت دیگر حصوں کو چیک کر کے فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری کرنا لازم ہے ۔لیکن زیادہ تر  پبلک ٹرانسپورٹ موٹر وہیکلز قوانین کے برعکس رواں دواں ہےقانون کے مطابق گاڑیوں کو فٹنس جاری کرنے سے قبل150شرائط کو پورا کرنا لازمی ہے جس میں گاڑی کی ونڈ سکرین ،بریک ،اشارے ،بیک سکرین ،ہیڈ لائٹس ،دروازے ،سائیڈ شیشوں کی حالت ،اے سی ،بیک لائٹ ،کمانیاں ،شاک ،ٹائر ،بریکس ،الائنمنٹ، ویل بیلسنگ ،پٹرول ٹینک کی حالت۔ مگر راولپنڈی سے سکردو ، گلگت، استور، گاہگوچ سمیت  گلگت بلتستان کی جانب آنے والی کسی بھی بس میں جب کوئی بیٹھتا ہے تو پہلا احساس یہ جاگتا ہے کہ شائد اس بس کو مرمت کے لئے ورکشاپ جانا تھا لیکن کسی وجہ سے اس کو بس اسٹینڈ پر لا کھڑا کیا گیا ہے۔ اور پورا سفر انسان اسی بے یقینی کی حالت میں رہتا ہے کہ یہ بس اس قدر  طویل سفر  خیریت سے مکمل کر پائے بھی کہ نہیں ۔

بسوں کی فٹنس سے زیادہ خطرناک حالات بسوں کی چلانے والوں کی فٹنس کا ہے۔ شاید ہی کبھی گلگت بلتستان کے روٹس پر چلنے والی مسافر کوچز کے ڈرائیور کی فزیکل فٹنس چیک کی گئی ہو۔ بہت سے ڈرائیور منشیات کے عادی ہونےکے باوجود بڑی مسافر کوچز چلارہے ہیں ۔ ڈرائیوروں کے ڈیوٹی کے اوقات کار کے SOPs پر عملدرامد نہ ہونے کی بناء پر ایک ڈرائیور 16 گھنٹے سے زائد گاڑی چلارہا ہوتا ہے لیکن اس بات کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی اتھارٹی موجود نہیں ۔

ہم اہلیان گلگت بلتستان حکام بالا سے یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ  وہ اس بات سے آگاہ کریں کہ

1                  گزشتہ پانچ سالوں کے دوران گلگت بلتستان روٹ پر چلنے والی کتنی مسافر کوچز کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے۔

2                  آج تک کتنی مسافر کوچز کو انکی خراب حالت کی بنا پر روٹ پر آنے سے روکا گیا، انکی تعداد اور انکے رجسٹریشن نمبرز سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔

3                  مسافر کو بسوں کی فٹنس کے حوالے سے کیا طریقہ کار ہےاور فٹنس چیک کے لئے کن قواعد کو سامنے رکھا جاتا ہے۔

4                  گلگت بلتستان کے روٹس پر چلنے والی تمام مسافر بسوں کے ڈرائیوروں میں سے کتنے ڈرائیوروں کے پاس اصل ڈرائیونگ لائسنس ہیں

5                  گلگت بلتستان روڈ پر چلنے والی کن کوچز  کے ڈرائیورں کی ان پانچ سالوں میں کتنی مرتبہ طبی معائینہ کیا گیا اور ان میں سے کتنےڈرائیونگ کے لئے فٹ اور کتنے ان فٹ قرار پائے

ان سوالات کا جوابات اگر ہمارے حکام بالا کے پاس موجود ہیں تو از راہ کرم ایک پریس ریلز کے ذریعے مقامی پرنٹ میڈیا کے ذریعے عوام کو آگاہ کیا جائے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button