تحریر: عبدالجبارناصر
اطلاعات ہیں کہ عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے دو اہم رہنماء مولانا سلطان رئیس اور فدا حسین کو گلگت میں گرفتار کرلیاگیا ہے، جن کے خلاف دو روز قبل مقدمات قائم کئے گئے تھے ، بظاہران مقدمات کی وجہ 15اگست اور 26 اگست کے احتجاج ہے۔ افسوس اور قابل مذمت بات یہ ہے کہ احتجاج کو دہشت گردی سے جوڑا گیا ہے ۔ حالانکہ عوامی ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں 11اور 13ذیلی نکات کا تفصیلی جائزہ لیاجائے تو ان میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے جو غداری کے مترادف ہے ،اگر غداری کی دفعات مقدمات میں شامل ہیں تواس کو حکمرانوں کی حماقت ہی کہا جاسکتا ہے ۔
تاہم یہ بات درست ہے کہ احتجاج کے لئے وقت کے انتخاب میں عوامی ایکشن کمیٹی سے غیر دانستہ کوتاہی ضرور ہوئی ہے ۔اس ضمن میں ہم عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت سے درخواست کریں گے کہ وہ اپنے جائز حق کے لئے قانونی جدوجہد جاری رکھیں تاہم اندرونی و بیرونی نقالوں سے ہوشیار ہیں۔ جو آپ کی حقوق کی اس جدوجہد کو وادی کشمیر میں بھارتی درندگی سے جوڑ نے کی کوشش کر رہے اور یہی کوشش 15 اگست سے بھارتی میڈیا اور اس کے وظیفہ خور کر رہے ہیں۔ ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔جو اقدام کریں اور اپنے بل بوتے اور عوامی طاقت کی بنیاد پرکریں ۔یہاں پر ڈوبانے والے بہت ہیں مگر بچانے والے قلیل ۔
عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت سے درخواست ہے کہ استور براستہ گریز سرینگر روڈ کو بھی اپنے چارٹر میں شامل رکھیں ۔دوسری جانب حکمران بھی ایسے اقدام نہ کریں جس کی وجہ سے لوگ قانون ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوں یا پھر غیر دانستگی میں اغیار یا ان کے وظیفہ خوروں کے ہاتھ چڑھیں، اور فوری طور پر ایکشن کمیٹی رہنمائوں پر قائم مقدمات ختم کرکے ان سے مذاکرات کئے جائیں تاکہ گلگت بلتستان اور پاکستان کے دشمنوں اور مودی کے یاروں کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے ۔