کالمز

بیٹی

آج کی نشست میں ایک ایسے عنوان کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں جو ہمیں رُلا دینے کے لیے کافی ہے۔ آج جونہی میں اپنے دفتر پہنچا اور سوشل میڈیا پر آن ائیر ہوا زیر نظر تصویر نے میری تمام تر توجہ اپنی طرف کھینچی۔ یا یوں کہیے کہ مجھے رُلا دیا تو بے جا نہ ہوگا۔

Pic for article

اس تصویر نے مجھے تاریخ کے گوشوں کی سیر کروائی۔ یقیناًاگر ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو لرزہ خیز انکشافات دل و دماغ میں گردش کرنے لگتے ہیں، یہ بات سچ ہے کہ اس کائنات کے خالق نے کائنات میں کوئی چیز بے مقصد یا بے فائدہ پیدا نہیں کی، خواہ اس کا تعلق حیوانات، نباتات اور اشرف المخلوقات ’’انسان‘‘ سے ہو۔ خالق کائنات اپنی تخلیق کی افادیت اور اہمیت سے خوب واقف ہے، زمانہ جاہلیت سے یہ وطیرہ چلا آرہا ہے کہ انسان بیٹے کی پیدائش پر خوشی اور بیٹی کی پیدائش پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔

قرآن مجید میں اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے:

’’جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی پیدائش کی خوشخبری دی جاتی ہے تو غصے کی وجہ سے اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا مٹی میں چھپا دے گا، سن لو وہ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ النحل)

اسلام سے پہلے نہ جانے کتنی معصوم بچیاں جزیرہ نما عرب کے صحرا میں دفن کر دی گئیں جن کی تعداد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے کیونکہ زمانہ جاہلیت کے باپ کی نظروں میں بیٹی خاندان پر ایک بوجھ شمار ہوتی تھی جو کھاتی پیتی تو تھی مگر اپنے خاندان اور قبیلے کے لئے لڑ نہیں سکتی تھی اور اگر لڑائی میں دُشمن اسے قیدی بنا لیتا تو وہ سب کے لئے بدنامی اور رسوائی کا ذریعہ بن جاتی اور دشمن اس کے ساتھ زور و زبردستی یا اس کی مرضی اور خوشی سے اس پر قابو پا لیتا اور اس کے باپ اور قبیلہ والوں کو عار دلاتا۔ مگر جب اسلام کا ظہور ہوا تو زمانۂ جاہلیت کے اس قبیح فعل کی مذمت کرنے کے لئے خداوند لایزال کا یہ قول نازل ہوا:

(مفہوم): ’’اور جبکہ زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی۔‘‘ (القرآن: ۹۔۸ /۸۱)

زمانہ جاہلیت میں عربوں کے اس سنگدلانہ اور وحشیانہ طرزِ عمل سے تو ساری دنیا ہی واقف ہے کہ وہ بیٹی کو زندہ دفن کیا کرتے تھے اور اس پر فخر بھی کیا کرتے تھے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں آج تک لڑکی کے حوالے سے منفی رویہ پایا جاتا ہے، جس کا ثبوت زیر نظر تصویر ہے۔ لڑکی کی پیدائش پر خوشی اور مسرت کے وہ جذبات نظر نہیں آتے جو لڑکے کی پیدائش پر ہوتی ہے۔ عالم، فاضل اور جاہل سبھی کم و بیش اسی مرض میں مبتلا ہیں، ذرا غور کیجئے کہ بیٹی کی پیدائش میں عورت کا کیا قصور ہے؟، جو چیز اس کی قدرت میں نہیں، جس پر اسے اختیار نہیں، اسے اس کا مجرم کیوں قرار دیا جاتا ہے، بلکہ وہ تو نو ماہ کی مدت تک پیدا ہونے والے بچے کی خاطر مشقت اور تکلیف برداشت کرتی ہیں، مرد تو نو ماہ تک بلکہ نو گھنٹے تک یہ تکلیف برداشت نہ کرسکے۔ پھر بھی ہمارا طرز عمل ایک ماں کے ساتھ ظالمانہ اور بے رحمانہ ہوتا ہے، ہم لڑکی کی پیدائش پر ناراض ہوجاتے ہیں، ہماری تیوری پر بل آجاتا ہے بلکہ کئی کئی روز تک شوہر اپنی بیوی سے بات تک نہیں کرتا، اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا الگ منہ بنا رہتا ہے، بعض باپ اپنی بیٹی کا چہرہ تک نہیں دیکھتا، ساس نندیں اس ماں کے ساتھ بدکلامی اور بدزبانی سے پیش آتی ہیں، یہاں تک کہ اپنے لڑکے کی دوسری شادی کرنے کی دھمکی دے کر اس کا دل دکھاتی ہیں، ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا یہ طرز عمل انتہائی ناپسندیدہ ہے بلکہ یہ کفرانِ نعمت ہے، اس کی عطاء کی ناقدری ہے، انسانیت کے ناطے بے قصور کو قصور وار ٹھہرانا ظالمانہ طرز عمل ہے۔

بیٹی خدا کی رحمت بھی ہے اور نعمت بھی۔

نبی کریمؐ کا ارشاد ہے:

’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی اور انہیں حسن تربیت سے مالامال کیا، یہاں تک کہ وہ سنِ شعور تک پہنچ گئیں، قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح ساتھ ہوں گے جس طرح میرے ہاتھ کی یہ دو انگلیاں۔‘‘ (صحیح مسلم و صحیح بخاری)

صحیح مسلم میں ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا:

’’جس کی دو لڑکیاں ہوں یہ لڑکیاں اس کے لئے روزِ قیامت دوزخ سے آڑ ہوں گی۔‘‘

اس کے علاوہ متعدد احادیث مبارکہ میں لڑکیوں کی پرورش اور حسن تربیت پر نویدِ بخشش ہے اور ان کے فضائل بیان کئے گئے ہیں اسی لئے کہا گیا ہے کہ بیٹی نعمت بھی ہے اور رحمت بھی۔ اولاد ہونے کی وجہ سے نعمت اور بخشش کا سبب ہونے کی وجہ سے رحمت۔

اسلام نے عورت کو بڑے مراتب عطا کئے ہیں، عورت کو ماں، بہن اور بیٹی کے مقدس رشتے سے سرفراز کیا ہے، آج کی پیدا ہونے والی بیٹی کل کی ماں کے مقدس رشتے کی حامل ہوگی کہ اس کی رضا بخشش کاسبب، اس کی دعا قبولیت کا ذریعہ، اس کو عزت و احترام سے دیکھنا حج کا ثواب اور اس کی خدمت جنت میں داخل ہونے کا راستہ بنے گی، یہ بیٹی ہی تو ہے جو اس مقدس رشتے کی حامل بنی۔

ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں کیا ہمیں یہ بات زیب دیتی ہے کہ ہم بیٹی کی ولادت پر رنج و غم، نارضگی کا اظہار اور خدا کی نعمت کی ناشکری کریں اور ایک ماں کو جس کا اس معاملے میں کوئی قصور نہ ہو، اس بے قصور کو قصور وار ٹھہرائیں، ہمارا یہ طرز عمل جہاں ظالمانہ ہے وہیں نعمت خداوندی پر ناشکری بھی ہے جو غضب الٰہی کو دعوت دینے کا سبب ہے، روزمرہ زندگی میں یہ تجربہ ہے کہ بیٹے کے مقابلے میں بیٹی زیادہ وفادار، محبت کی مظہر، شریک غم اور دکھ درد میں شامل رہتی ہے، ہمیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے۔

بیٹی کی یہ محبت آپ ان لوگوں سے پوچھے جو اس رحمت خداوندی کے شاکر ہیں۔ مجھے پتہ ہے میری بیٹی ننھی آشا ابھی اس کی عمر دو سال بھی پوری نہیں ہوئی لیکن میں جب گھر سے آفس کی طرف نکلتا ہوں تو وہ آکے مجھ سے لپٹ جاتی ہے مجھے جانے نہیں دیتیں شاید انہیں ادراک ہے کہ ان کا پاپا گھر سے جائے گا تو ہمیشہ کی طرح دیر کردے گا۔ پھر جب آفس سے آنے کا وقت ہوتا ہے تو ننھی آشا دِل میں ارمانوں کا ایک ہجوم لیے باہر گیٹ تک آکے مجھے اپنی توتلی زبان میں خوش آمدید کہتی ہے۔ گلے لگتی ہے۔ شاید ان کو ایک دفعہ پھریقین ہوجاتا ہے کہ ان کا پاپا اب کہیں نہیں جائے گا۔ یہ ہے ایک بیٹی کی محبت جو شاید ایک بیٹا نہ دے سکے۔

میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button