کالمز

اقتدارو اقدار

وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جو عمر کا بڑا حصہ زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں میں گزارنے کے بعد مسند اقتدار پر فائز ہوتے ہیں۔اقتدار میں آنے کے بعد اقدار کا خیال رکھنے والے ہمیشہ امر ہوتے ہیں جبکہ اقتدار کے نشے میں اقدار کو بھول جانے والے قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس کی بد ترین یا بہترین مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔۔۔۔۔

وطن عزیز پاکستان بشمول گلگت بلتستان میں یہ روایت رہی ہے کہ انتخابات کے دوران اعلانات،وعدے وعید کرکے اقتدار حاصل کی جائے اور اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ یاد تو رہتا ہے لیکن وعدے وعید ایسے بھول جاتے ہیں جیسے یادداشت کھو گئی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے بڑھ کر گلگت بلتستان میں سیاسی صورت حال اتنی بدقستی کا شکار ہے کہ عام آدمی بھی اس سے نالاں ہے۔۔۔۔

اقتدار میں آنے کے بعد وفاقی پارٹیوں کے سربراہاں خود گلگت بلتستان کے عوام کے نمائندے نہیں سمجھتے بلکہ وفاق کے ترجمان اور ان کی پالیسیوں کے محافظ بن جاتے ہیں اور وفاق کے سامنے گلگت بلتستان کے حقوق کی جنگ لڑنے سے گھبراتے ہیں۔۔۔۔

گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009کے بعد قائم ہونے والے پہلی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی اور دوسری حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ گلگت بلتستان کا اصل کیس اب تک بذریعہ فورم وفاق تک پہنچا ہی نہیں اگر وفاق تک پہنچنے کے بعد یہ خاموشی اور سناٹا ہے تو یہاں کی سیاسی قیادت کو سوچنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صرف سوچنے کی نہیں بلکہ سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باؤجود ہمیں امید رکھنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ گلگت بلتستان کے عوام کے مسائل ایک دن ضرور حل ہوں گے یہاں بجلی بھی آئے گی۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں پانی بھی ہوگا۔۔۔۔۔۔۔یہاں خوشحالی بھی ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں روزگار بھی ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں کالجز بھی ہوں گے اور یونیورسٹیاں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں سڑکیں بھی ہوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوریہاں گلگت بلتستان کے عوام کی ضرورت کا ہر سامان میسر ہوگا۔کیوں کہ یہاں سیاست ارتقائی عمل میں ہے۔۔۔۔ یہاں سیاست اب پنپ رہی ہے یہاں سیاسی سوجھ بوجھ پروان چڑھ رہا ہے۔یہاں تنقید کرنے والے بھی پیدا ہو رہے ہیں ،یہا ں اپوزیشن بھی بہتر ہو رہی ہے۔

لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔گلگت بلتستان کے عوام کو کو بنیادی حقوق کی فراہمی کا سلسلہ تب شروع ہوگا جب یہاں کی سیاسی قیادت اقتدار میں اقدار کا دامن بھی تھامے رکھے گی۔اقتدار کے نشے میں اقدار کو بھول جانا کوئی نئی بات نہیں ہماری سیاست کا المیہ ہی یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد عوام کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ تیز ہو جاتا ہے اور چند خوش آمدیوں کے ساتھ وقت ایسے گزارا جاتا ہے جیسے کہ اقتدار وراثت میں ملی ہو اور جب اقتدار کا نشہ اتر جاتا ہے توآنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔آگے بھی نہیں بڑھ سکتے اور پیچھے بھی نہیں مڑ سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن دنیا میں ایسے سیاستدانوں کی داستانیں بھی ہیں جنہوں نے اقتدار کے دوران اقدار کو نہیں چھوڑا اور وہ لوگ دنیا میں موجود نہ ہونے کے باؤجود لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایسے سیاستدان بھی ہیں جنہوں نے عمر کا بڑا حصہ اقتدار میں گزارا لیکن قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔

قریشی ہو کہ کوئی یا ہاشمی ہو

کوئی رضوی ہو کوئی کاظمی ہو

تعارف کیلئے قومیں بنی ہیں

برابر ہیں سبھی جوکوئی بھی ہو

یہی معیار حق ٹھہرا ہے لوگ!

کسی بھی قوم کا ہو متقی ہو

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button