کالمز
’’فنا کو بقا ہے‘‘
محمد جاوید حیات
دنیا کی زندگی وقت کے دھارے میں بہتی جاتی ہے۔وقت کو روکنے والا کوئی نہیں۔دن رات کا تسلسل ۔۔۔پھر مہینوں کی سبک رفتاری۔۔۔۔آج کل میں،صبح شام میں ۔۔۔بہار خزان میں بدلتے جاتی ہیں۔۔۔جاتی بہار کا کسی کو احساس نہیں ہوتا۔۔آتی بہار کا سب انتظار کرتے ہیں،غمی خوشی دو حقیقتیں ہیں۔ان حقیقتوں کا سامنا کرکے لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔بھول جانا بھی حقیقت ہے’’یاد‘‘ کرنے کا بہانا کرکے ایک دوسرے کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔سب کو پتہ ہے یہاں پر’’بقا‘‘کوئی نہیں۔’’خوبصورتی ‘‘کو دوام نہیں۔۔۔’’آسودگی ‘‘کو دوام نہیں’’اقتدار‘‘کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔۔۔۔’’اختیارات ‘‘چھننے میں دیر نہیں لگتی۔’’کرسی‘‘ملتی ہے چھینی بھی جاتی ہے۔لیکن یہ ’’حقیقت‘‘بھولنے کیلئے ہوتی ہے۔سب جان کر اس کو بھلا دیتے ہیں۔کہتے ہیں ۔۔۔۔’’نہیں چھینی جائے گی‘‘۔۔۔حالانکہ یہاں پر’’فنا کو بقا ‘‘ہے۔کتنے نامی گرامی آئے گئے بیٹا اپنے عظیم باپ کو دفناتا ہے اور اس کو اس بات پر یقین ہے اس کو ’’دفنایا‘‘نہیں جائے گا۔۔۔مناظر بدلتے ہیں جغرافئیے بدلتے ہیں دریا رخ بدلتے ہیں۔۔سمندر خشک ہوتے ہیں۔۔۔پہاڑ ٹوٹ جاتے ہیں۔۔۔آبادکاریاں اجھڑتی ہیں۔۔۔شان وشوکت افسانے بن جاتے ہیں۔۔۔لیکن انسان کو یقین نہیں کہ یہاں پر ’’فنا کو بقا‘‘ہے’’چاند مکھڑے‘‘مرجھا جاتے ہیں۔۔۔’’ریشمی ذلفیں جھڑ جاتی ہیں’’موتی دانت‘‘گرتے ہیں۔۔’’سروقد‘‘کڑتا ہے۔۔’’شاہین آنکھوں ‘‘میں افسردگی آتی ہے۔۔۔۔آرزویں‘‘قتل ہوتی ہیں۔۔۔سینے میں ’’ویرانیاں ‘‘ بسیرا کرتی ہیں مگر کسی کو یقین نہیں کہ یہاں پر فنا کو بقا ‘‘ہے۔۔۔’’جوانی کی سرمستیاں‘‘ماند پڑجاتی ہیں۔بدن میں’’چستی‘‘ختم ہوجاتی ہے۔۔۔ٹانگوں میں طاقت ختم ہوجاتی ہے۔گرم گرم سانسیں رکنے لگتی ہیں۔۔کمر جھکتی ہے۔۔۔نیند کوسوں دوربھاگتی ہے۔۔۔ہمت جواب دیتی ہے۔۔قویٰ مضمحل ہوتے ہیں۔۔۔بیماریاں یلغار کرتی ہیں۔دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتی ہیں مگر کسی کو یقین نہیں کہ یہاں پر’’فنا کو بقا‘‘ہے۔سب کچھ فانی ہوتا ہے۔۔۔بچپن ’’اسیر پنجہ شباب‘‘ہوتا ہے۔گھروندے ڈھہ جاتے ہیں۔۔۔کھلونے ٹوٹ جاتے ہیں۔۔۔پیار ومحبت چھین لی جاتی ہیں وہ ماں کے گود وہ مامتا کی حلاوت چھین لی جاتی ہے۔وہ باپ کی شفقت افسانہ بن جاتی ہے۔۔۔کوئی پیار سے دیکھتا نہیں کوئی سر پہ ہاتھ نہیں رکھتا اور کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہاں پر’’فناکو بقا‘‘ہے۔وہ شادی کی شادمانیاں ،وہ پاکیزہ بندھن ،وہ آرزوں کا طوفان ،وہ جذبے،وہ مسکراہٹیں،وہ قسمیں ،وہ جوان سینوں میں سررکھ کرسب کچھ بھول جانا۔وہ باہوں کے سہارے،وہ شوخیاں دلربائیاں وہ آنکھوں میں ڈوب جانا،وہ دل کی دھڑکنوں کا تیز ہونا،وہ ذلفوں کی چھاؤں سب خواب بن جاتے ہیں۔کسی کو اندازہ نہیں کہ فنا کو بقا ہے۔۔قرض کا بوجھ ہے۔۔۔بیماری کا عذاب۔۔عدالت کی مصیبت ہے۔۔۔بے روزگاری ہے سب باغی ہیں۔سب اجنبی ہیں مگر زمانے کو کچھ ہوجاتا ہے۔مرض جاتا ہے، بے روزگاری ختم ہوجاتی ہے۔عدالت کا عذاب چھٹتا ہے۔پھر سارے انسان بدلتے ہیں تو سب کا پیارا بن جاتا ہے۔یہاں پر فنا کو بقا ہے سب ہمیشہ نہیں رہتے ایک رب ہے جس کی ذات عالی ضات پر زمانے کی گردشوں کا اثر نہیں ہوتا۔وہ خالق ہے۔۔وقت اس کا ہے زمانہ اس کا ہے۔خوشی غمی اسی کی طرف سے ہیں۔آفسردگی آسودگی اسی کی طرف سے ہیں۔سب آزمائشیں ہیں۔سب انسانوں کو ہوش میں رہنا ہے یقین کرنا ہے کہ یہاں پر کسی کو دوام نہیں۔اقتدار دودن کی ،کرسی دو دن کی موج مستیاں چند لمحوں کی ۔کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ہاں اگر خاکی انسان اپنے رب کا ہوجائے تو اسکو دوام ہے اس کو ’’بقا‘‘ہے۔