تحریر: دردانہ شیر
غذر میں بڑھتے ہوئے خود کشی کے واقعات کے پیش نظر ایک بار پھر قلم اٹھانے پر مجبور ہوں ایک ہفتے کے اندر اندر مختلف علاقوں میں چارخود کشی کے واقعات نے علاقے کے ہرفرد کو ایک بار پھر پریشان کرکے رکھ دیا ہے 2000ء سے2007ء تک علاقے میں خود کشیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے سبب خوکشیوں کے اسباب جاننے اور سدباب کرنے کے لیے چند ایک این جی اوز نے مختلف ورکشاپس اور آگاہی کے سیشنز کا انعقاد کیا جسکے بعد علاقے میں خودکشیوں کی تعدادمیں کافی حد تک کمی آئی مگر ماہ اگست کے آخری ہفتے میں غذر میں اچانک چا رخواتین کی خود کشی کے مبینہ واقعات رونما ہونے کے بعد ایک دفعہ پھر قلم اٹھانے پر مجبور ہورہاہوں کیونکہ اس سے قبل اسطرح کے کالم لکھنے پر کئی دوستوں نے تعریف کی تو کئی نے میرے ان کالموں کی مخالفت کی۔ مگر اس کے باوجود ان واقعات کو قارئین تک لانے کی بھر پور کوشش کی۔
گزشتہ دنوں گوپس میں ایک بچے کی ماں نے مبینہ طور پر خودکشی کی تو متوفیہ کے والدین نے یہ کہہ کر لاش سسرال والوں کے حوالے کرنے سے انکار کیا کہ ان کی بیٹی نے خودکشی نہیں کی بلکہ ان کو قتل کرکے خودکشی کا رنگ دیا گیا ہے اور لڑکی کے والد نے نعش کو متوفہ کے شوہر کے حوالے کرنے سے انکار کردیا اور پوسٹمارٹم کے بعد لاش کو اپنے گاؤں سمال لاکر دفنا دیا متوفہ کے والد کی درخواست پر پولیس نے لڑکی کے شوہرکو گرفتار کر کے تفتیش شروع کردی ہے اسطرح کا ایک اور واقع ہندراب میں پیش آیا جہاں ایک نوجوان گھر سے لاپتہ ہوگیابعد میں اس کی لاش مل گئی اس کو بھی خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی مگر پولیس نے بروقت کاروائی کی اور قاتلوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ ہاتون میں بھی ایک شادی شدہ خاتون نے مبینہ طور پر دریا میں چھلانگ لگاکر خودکشی کی۔ اسی طرح گلاپور میں ایک بارہ سالہ بچی اور سینگل میں بھی ایک چودہ سالہ بچی نے موت کو گلے لگالیا۔
ایک ہفتے میں اسطرح کے پانچ واقعات نے علاقے کے ہر شہری کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے مگر انسانی حقوق کی تنظمیں حسب معمول خاموش ہیں جبکہ کئی سالوں سے این جی اوز نے ان واقعات کے سدباب جاننے کے لیے مختلف ڈونر ایجنسوں سے پیسے تو بٹور نے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے مگر عملی طوغذر میں ہونے والے ان واقعات پر چند ایک کے دیگر این جی اوز نے کوئی کا م نہیں کیا۔ اب ایک بار پھر موت کے فرشتہ نے غذر میں ڈیرے ڈال دیا ہے ایک ہفتے میں ان پانچ واقعات نے ہر باشعور شہری کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ایسے واقعات کی کیسے روک تھام ممکن ہے جس وقت میں یہ قلم لکھ رہا تھا کہ اطلاع ملی کہ سمال میں ایک نوجوان بھی کئی دنوں سے اپنے گھر سے لاپتہ ہے اور اسکی گمشدگی کی اطلاع بھی گوپس تھانے میں دیدی گئی ہے مگر تلاش کے باوجود اس کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔
غذر میں خود کشیوں کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مگر سب سے اہم وجہ اسکا سدباب جاننے کے لیے پوسٹمارٹم کی رپورٹ آنا ضروری ہے پولیس کے پاس کے پاس اس مد میں بجٹ کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے ہرواقعہ کا پوسٹ مارٹم رپورٹ حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے چونکہ انسانی اعضاء کو لاہور لیباٹری ارسال کرنا پڑ تا ہے اور ایک لیباٹری رپورٹ کے لئے کم از کم پچاس سے ساٹھ ہزارروپے کے اخرجات آتے ہیں اگر حکومت اس حوالے پولیس کو بجٹ فراہم کرے تو ان واقعات کا سدباب معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آیا جو واقعات ہوتے ہیں وہ خودکشی ہے یا قتل کرکے کئی خودکشی کا نام تو نہیں دیا جارہا ہے اس سلسلے میں خود کشی کرنے والے افراد کا پوسٹمارٹم ضروری ہے ورنہ اسطرح کے واقعات کا مزید بڑھنے کا خدشہ ہے کہ کئی خودکشی کے نام پر حوا کی ان بیٹیوں کو قتل تو نہیں کیا جاتا؟
غذر میں کافی عرصے کی خاموشی کے بعد ایک ہفتے میں خودکشی کے چار واقعات نے علاقے کے عوام کو پھر سے پریشان کرکے رکھ دیا ہے اب پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے باقاعدہ تحقیقات کریاور ان واقعات کے سدباب معلوم کریں ورنہ خود کشی کا نام دیکر قتل کرنے کا رواج عام ہوجائیگا۔ جہاں پر بھی اسطرح کے واقعات رونما ہوجاتے ہیں لاش کا پوسٹمارٹم ضرور کرایا جائے تاکہ اسطرح کے واقعات کا سدبات ممکن ہواسکے حوالے سے علاقے کے ہر شہری کو بھی اس طرح کے قاقعارت کی روک تھام کے لئے ناپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔۔۔۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button